روحانیت کی تلاش میں


برصغیر پاک وہند میں جب بھی روحانیت کی بات ہوتی ہے ہم اسے محض مسلم معاشرہ سے منسوب کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا اس لئے نہیں کہ ہمارے علاوہ برصغیر میں ہند و ازم اور بدھ ازم دونوں ایسے مذاہب ہیں جن کے ہاں تپسیا، انہماک مراقبہ کو تلاش خدامیں ممد ومعاون سمجھا جاتا ہے۔ ہندوؤں کا خیال ہے کہ جب تک تپسیا اختیار نہ کی جائے اس وقت تک زمانے کے راز اخفا نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی ان تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ کچھ ایسا ہی خیال بدھ کے ماننے والوں کا بھی ہے بلکہ بدھ تو کسی ایک شہر میں اپنے بھگشوؤں کو استراحت ومساکن کی اجازت بھی نہیں دیتا۔

بدھ کے سنہری اقوام میں ہے کہ ان کا ماننے والا بھگشو نہ دولت جمع کرے گا اور نہ ہی اپنا کھانا پکا کر کھائے گا بلکہ وہ مانگ کر کھائے گا تاکہ اس کے اندر ذائقہ کی لالچ پیدا نہ ہو سکے اسی طرح وہ ثروت جمع نہیں کرے گا تاکہ دنیا وی حسد ان کی عبادت میں رکاوٹ نہ بن سکے لیکن ایسا عملی طور پر نیں ہو سکا۔ کیونکہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ بدھ کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں یعنی سٹوپا کے کھنڈرات میں سے جہاں اور بہت سی اشیا ملی ہیں ان میں سے چاندی کے سکے بھی ملے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہیں جمع کیا جاتا رہا ہے۔

اسی طرح اگر ہم عیسائیت کی بات کریں تو ان میں رہبانیت کو خدا کی تلاش کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جس میں ایسے لوگ جو روحانیت کی تلاش میں ہوتے ہیں یا تزکیہ نفس کے خواہاں ہوتے ہیں وہ انسانی معاشرہ سے دور جنگل، بیابانوں یا صحراوں کا رخ اختیار کر لیتے ہیں تاکہ مراقبہ یا انہماک میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔

لیکن جب ہم اسلام میں روحانیت، تلاش خدا یا مراقبہ کی بات کرتے ہیں اس سے مراد نہ تو رہبانیت، معاشرتی فرار یا اپنے آپ کو دوسروں سے قطع تعلق سمجھتے ہیں اور نہ ہی مردم بیزاری مراد لیتے ہیں، بلکہ برصغیر میں تو جتنے بھی صوفیا اکرام تشریف لائے ان کا تو مقصد ہی عوام کی خدمت اور احترام آدمیت تھا۔ اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے کہ خدا کو تلاش کرنے کا مختصر راستہ دراصل انسانیت کی خدمت میں مضمر ہے۔ اسی لئے انہوں نے ہمیشہ جنگلوں کی نسبت شہروں کو ترجیح دی اگر شہر کے وسط مین نہیں تو شہروں کے بالکل نزدیک ترین ایسا ویران خطہ جہاں لوگوں کی دسترس آسانی سے ممکن ہو۔ صوفی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ

”ولائت، ولی یا صوفی کثرت عبادات کا نام نہیں بلکہ کثرت معرفت کا نام ہے جس کو اللہ کی معرفت زیادہ ہے وہی ولی ہے“

اب اللہ کی معرفت کس کو حاصل ہوتی ہے یعنی دربار الہیٰ میں کون معتبر ہوتا ہے اس کے بارے میں پروفیسر رفیق اختر فرماتے ہیں کہ یہ وہ انسان ہوتا ہے جو ہر کام میں اللہ کو ترجیح دیتا ہے۔ اسے بات کی طرف بابا فرید مٹھن کوٹی کہتے ہیں کہ ”میں نہیں سب توں“ کیونکہ ”میں“ میں ہی تکبر، غرور، انا، کبریائی اور زعم ہوتا ہے جو اعمال کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ کیونکہ کبریائی صرف اللہ کی ذات کے ساتھ مختص ہے۔ اور اللہ کے سب سے زیادہ نزدیک وہ ہوتا ہے جس مین تقویٰ زیادہ ہوتا ہے اور تقویٰ کیا ہے۔

اس کے بارے میں بھی صوفیا اکرام کا کہنا ہے کہ ”اپنے آپ کو سب سے کم تر خیال کرنے کا نام تقویٰ ہے“ ۔ اور صوفیوں کے ہاں تقویٰ کا معیار کیا ہے اس کے بارے میں واصف علی واصف فرما گئے ہیں کہ، صوفی علم سے نہیں بلکہ عطا سے بولتا ہے اور عطا کسے کیا جاتا ہے جس کی اپنی کوئی مرضی منشا یا خواہش نہیں ہوتی۔ اس کے نزدیک ”میں نہیں سب توں“ سب سے اعلی ارفع ہوتا ہے۔

مسئلہ کہاں پیدا ہوا کہ جب میدان تصوف میں طرح طرح کی اختراعات وخرافات نے جنم پینا شروع کر دیا جیسے کہ اگر اسلامی تصوف کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیا اکرام وبزرگان دین کے مزارات اقدس کر ارد گرد ایسے ایسے ملنگ، پہروپیے اور چرسی قسم کے موالی مل جائیں گے جو اپنے تئیں پہنچی سرکار ہوتے ہیں اور اندازہ لگائیں ذرا ایسے ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کا جو انہیں پہنچی سرکار ثابت بھی کر دیتے ہیں۔ ان کے حلیہ، لباس، تراش خراش سے وہ کسی طور بھی مکمل اسلام اور ایمان کجا، مبادیات ایمان سے بھی فارغ ہوتے ہیں، یعنی صفائی نصف ایمان ہے، جبکہ صفائی سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا، مومن کی ستر ڈھانپی ہونی چاہیے، جبکہ ان ملنگ حضرات کا نیم برہنہ لباس اس حدیث کے برعکس ہوتا ہے۔

ہاتھوں میں لوہے کے کڑے اور برہنہ غلیظ پا نہ جانے کس اسلام اور سلسلہ صوفیہ کی عکاس ہیں۔ اللہ اسلام کو ایسے ملنگوں اور جعلی پیروں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔ ایسے ہی ہندو مت میں سادھو، جین ازم اور بدھ ازم میں بھگشواور عیسائیت میں راہب اگر ان سب کے لباس کا جائزہ لیا جائے تو کسی مذہب میں ایسے غیر اخلاقی اقدار کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی، بلاشبہ یہ سب بعد کی پیداوار ہیں کہ جب مذاہب میں ضرورت نے اپنی گنجائش بنا لی۔ اور پھر یہی ضرورت بڑھتے بڑھتے حرص و ہوس میں منتقل ہو گئی۔ ایسے بھگشو، راہب، سادھو اور ملنگ ننگ بدن ہی نہیں ننگ انسانیت بھی ہیں۔

چونکہ بحثیت مسلمان ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم کس طرح اپنے دین کو ایسی خرافات سے نقصان پہنچانے سے دور رکھ سکتے ہیں۔ اسلام اس بارے میں اپنی حتمی اور مدلل رائے کیا رکھتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت سے منع کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرتی اقدار سے راہ فرار اختیار کر کے اپنے آپ کو عوام الناس اور ان کے مسائل ومشکلات سے اپنے آپ کو دور کر لینا عین اسلام نہیں بلکہ خلاف اسلام ہے۔ اسی طرح ہندو ازم میں خود اذیتی کی کئی مثالیں بھی ملتی ہیں جس کا ایک عکس ہمارے ہاں بھی درباروں پر ملنگوں کا ہاتھ پاؤں میں وزنی آہنی کڑے پہن کر بیٹھے رہنا ہے۔

یہ بھی خود اذیتی کی ہی ایک قسم ہے۔ اس سے بھی اسلام ہمیں منع فرماتا ہے کیونکہ اسلام تو دین فطرت ہے اور فطرت سے انسان اور انسان فطرت سے دور نہیں رہ سکتے۔ خدا کی تلاش کے بارے میں خواجہ جنید بغدادی۔ ؒ فرماتے ہیں کہ میں چالیس سال تک خدا کی تلاش میں رہا جب میں نے اسے پایا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی میری تلاش میں تھا۔ قرآن کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ ”میں تمہاری شہ رگ سے بھی نزدیک ہوں“ ۔ صوفیا اکرام اسی لئے فرماتے ہیں کہ خدا کو باہر نہیں اپنے اندر تلاش کرو۔

تاکہ دوسرے لوگ تمہارے اعمال دیکھ کر اپنے اللہ کی تلاش میں نکل پڑیں۔ گویا خدا کی تلاش کا سفر اپنی ذات سے شروع کرنا چاہیے اور اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ویسا بن جائیں جیسا خدا چاہتا ہے۔ اور جب خدا کے چاہے جانے میں آپ کی چاہت ہوگی تو پھر دیکھئے کس طرح وہ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے آپ کے ہاتھ، کان، پاؤں اور زبان بن جاتا ہے، واقعی واصف نے سچ کہا تھا کہ صوفی اپنے علم سے نہیں بلکہ اس کی عطا سے بولتا ہے۔ اور عطا کی بارش ان پر برسائی جاتی ہے جو اس کے طلبگار اور صحیح معنوں میں اللہ کی تلاش میں عازم سفر ہوتے ہیں۔ آسان فہم الفاظ میں اللہ کی تلاش کا راستہ انسانوں کے دلوں سے گزر کر جاتا ہے۔ اللہ کو راضی کرنے سے قبل انسانوں کو راضی کر لو تاکہ اللہ تم سے راضی ہو جائے۔ جب وہ راضی ہو گیا تو اسے تلاش کی ضرورت باقی نہیں رہے گی اس کی عطا بتا دے گی کہ وہ تم سے راضی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).