نواز شریف پاکستان کے چی گویرا بن سکتے ہیں


جمہوریت نواز شریف کا نام نہیں ہے۔ نواز شریف نے کبھی جمہوریت کی جنگ لڑی ہے اور نہ جمہوریت کے کبھی پرچارک رہے ہیں۔ نواز شریف کی جماعت کے اندر جمہوریت ہے اور نہ مسلم لیگ ن جمہوری جماعت ہے۔ کاروباری اور تاجر پیشہ نواز شریف نے ہمیشہ نفع و نقصان کی بنیاد پر سیاسی فیصلے کیے ہیں۔ اقتدار کی سیاست میں کوئی ایک فیصلہ نواز شریف کا ایسانہیں ہے۔ جس سے جمہوریت کو تقویت ملی ہو۔

مسلم لیگ ن کی سیاسی تعلیم و تربیت میں جمہوریت نام کا کوئی مضمون سرے سے موجود ہی نہیں رہا ہے۔ اقتدار چھن جانے پرشریف خاندان کی جدوجہد اپنی اور اپنے سرمائے کی بقا کے لئے ہیں۔ جو سرمایہ پاکستان سے منتقل کر لیا ہے۔ اس سرمایے کے رکھوالے مست ہیں اور خیر نواز شریف اب خود بھی وہاں موجود ہیں اور نگرانی کر رہے ہیں۔

بیماری کے بہانے جیل سے فرار کو اگر کوئی سیاسی حکمت عملی قرار دیتا ہے تو تھوڑی دیر کے لئے مان لیا جائے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے سیاسی گیم کرکے جیل سے نجات حاصل کرلی ہے۔ اگر یہ سیاسی حکمت عملی تھی تو لندن میں نواز شریف نے چپ کاروزہ کیوں توڑا تھا۔ لندن پہنچتے ہی پریس کانفرنس کرتے یا پھر سیاسی قوتوں کو مدعو کرکے نئی سیاسی حکمت عملی اور لائحہ عمل بناتے۔ جدوجہد استوار کرتے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے معلوم نہیں ٹیلی فون کرکے نواز شریف کو کیا بات یاد دلائی کہ نواز شریف نے اے پی سی میں خوب غم و غصہ کا اظہار کیا اور بھڑاس نکالی ہے۔ جس پر بعض حلقے نواز شریف کو چی گویرا بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حیران کن اور قابل افسوس بات ہے کہ نواز شریف کے ذاتی سیاپے اور غم وغصہ کو انقلابی اور تاریخی خطاب قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کی اپنی جماعت کے سنیئر رہنما تقریر سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں اور کہہ رہے کہ تقریر نواز شریف کی ذاتی رائے ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ نواز شریف کی تقریر سے شہباز شریف بھی متفق نہیں اور پریشان ہیں۔

جمہوریت پسندوں کے نزدیک آمریت کے مقابلے میں بدترین اور لنگڑی لولی جمہوریت بھی بہتر ہے۔ درست ہے۔ ملک میں جمہوریت برائے نام ہے۔ حکومت کے پاس جعلی مینڈیٹ ہے۔ حکمران دھاندلی سے اقتدار پر قابض ہیں۔ سیاسی قوتوں پر لازم ہے کہ جمہوریت کی آبیاری کے لئے منظم جدوجہد کریں۔

سیاست کا بنیادی مقصد قوت اقتدار کا حصول ہے جبکہ سیاسی جدوجہد حکمت عملی کا نام ہے۔ طبل جنگ بجانا ہرگز نہیں ہے۔ نواز شریف کی پوری تقریر میں جمہوریت کی بحالی اور جمہوری حکومت کے قیام کے لئے کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی گئی ہے۔ کچھ گلے شکوے ہیں۔ اقتدار چھن جانے کی بپتا ہے۔ نظریہ کیا ہے۔ بحالی جمہوریت کا روڈ میپ یا فریم ورک کیا ہے۔ تقریر میں کہیں کوئی لفظ ادا نہیں ہوا ہے۔

نواز شریف کے بیانیہ کا چرچا ہے۔ یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔ یہ چرچا آئین کو پامال کرنے والے ڈکٹیٹر ضیاءالحق اور پرویز مشرف کا بھی تھا۔ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے تھے۔ مٹھائیاں بانٹی گئیں تھیں۔ ڈھول بجائے جاتے ہیں۔ ڈھول بجانے والے معصوم ہیں کیوں کہ انہیں ڈھول بجانا ہی سکھایا گیا ہے۔ بیانیہ متصادم ہے۔ تدبر، حکمت سے خالی ہے۔ جس سے جمہوریت پنپنے کی بجائے مزید بربادیوں سے دوچار ہو سکتی ہے۔

بیانیہ کے مطابق سیاسی فورس کی ضرورت ہوتی ہے۔ نواز شریف کے پاس کون سی سیاسی فورس ہے جو بیانیہ کے مفہوم سے واقف ہو۔ اے پی سی میں شامل کوئی سیاسی جماعت یہ دعوی نہیں کر سکتی ہے۔ ایم آڑ دی والے اور تھے۔ قدآور سیاسی شخصیات تھیں جو بدیانتی، کرپشن کے الزامات سے پاک تھے۔ عوام کا ان پر اعتماد تھا۔ جمہوری حکومتوں کے لئے خلاف تحریک نجات اور عدالتوں میں جانے والے نہیں تھے۔

نواز شریف پاکستان کے چی گویرا بن سکتے ہیں۔ اگر کاروباری مفادات سے برات کا اعلان کرکے میدان میں نکلیں اور کرپشن سے پاک سیاسی رہنماؤں سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو منظم کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).