بنیادی صحت مرکز کا قیام اتنا مشکل کیوں؟
ایک ایسے گاؤں کا تصور کریں جس کی آبادی آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہو۔ اور اس میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہائی سکول موجود ہوں۔ گاؤں کے لوگوں کے لیے صاف پانی کا فلٹر پلانٹ بھی لگا ہو۔ دو، تین چھوٹے ہوٹل بنے ہوں۔ ایک چھوٹی سی مارکیٹ بھی موجود ہو۔ کرائے پر گاڑیاں مل جاتی ہوں۔ سڑکیں پکی ہوں۔ سولنگ بھی لگے ہوں۔ انٹرنیٹ اور کیبل کی سہولت بھی میسر ہو۔ پانچ مسجدیں ہوں۔ ٹیوشن سینٹرز ہوں۔ مگر اس گاؤں میں لوگوں کے علاج کے لیے ایک بھی بنیادی صحت مرکز موجود نہ ہو۔
تو پنجاب کے ضلع پاک پتن میں ”بائیل گنج“ کے نام سے ایک ایسا گاؤں موجود ہے۔ جو کہ میرا آبائی بھی گاؤں ہے۔ جس کے لوگوں کو اوپر بیان کی گئی سب سہولیات تو میسر ہیں۔ مگر بنیادی صحت مرکز وہاں موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اس وقت ضلع پاک پتن کے تقریباً تمام ہی دیہات اور گاؤں میں بنیادی صحت مرکز موجود ہیں اور بہت اچھے طریقے سے پورے سٹاف کے ساتھ کام بھی کر رہے ہیں۔ اور کئی دیہات کی آبادی تو اس گاؤں کی آبادی کے مقابلے میں کافی کم ہے مگر پھر بھی ان میں وہاں کے لوگوں کو بنیادی صحت مرکز کی سہولت میسر ہے۔ جبکہ اپنی یونین کونسل میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا گاؤں ہونے کے باوجود، ”بائیل گنج“ کے لوگ اس سہولت سے محروم ہیں۔
جس کی وجہ سے وہاں جعلی ڈسپنسروں کا راج ہے۔ جو کہ ایک طرف تو کسی بھی پروفیشنل ڈگری کے بغیر لوگوں کی امراض کی تشخیص کر کے ان کو اپنی مرضی کی قیمت پر ادویات دیتے ہیں۔ جن سے بعض اوقات بجائے افاقہ ہونے کے الٹا اثر ہوجاتا ہے جو پھر بیماری کی شدت کو بھی بڑھا دیتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف گاؤں کے لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کو نشہ آور ادویات فراہم کر کے ان کی زندگیاں تباہ کرنے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ کیونکہ ان کو کسی بھی متعلقہ ادارے کی طرف سے کارروائی کا ڈر نہیں ہے۔ یہ ساری صورتحال ”بائیل گنج“ میں بنیادی صحت مرکز کی اہمیت کو مزید تقویت بخش دیتی ہے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سے ایسے عوامل ہیں جو کہ ایک بڑے گاؤں میں بنیادی صحت مرکز کے قیام کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ تو اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ”بائیل گنج“ میں بنیادی صحت مرکز موجود نہیں تھا۔ وہاں پر بنیادی صحت مرکز کا قیام پاکستان بننے سے بھی پہلے عمل میں لایا گیا تھا۔ جہاں پر نا صرف پورا میڈیکل عملہ موجود ہوتا تھا۔ بلکہ اس وقت کے علاقہ کے معروف ڈاکٹر مریض چیک کرنے کے ساتھ معمولی سرجری بھی سرانجام دیا کرتے تھے۔ تب اس پورے علاقے میں کوئی بھی ایسا صحت کا مرکز موجود نہیں تھا۔
یہ سلسلہ نوے کی دہائی تک بھی چلتا رہا۔ کیونکہ مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں وہاں پر ڈاکٹر صاحب اپنے دیگر عملے کے ساتھ مریضوں کو چیک کیا کرتے تھے۔ بلکہ جب ہم میں سے بھی کوئی بیمار ہوتا تھا تو ابو وہیں جا کر ہمیں چیک کرواتے تھے۔ اس کے بعد اچانک یہ سلسلہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا۔ پہلے ڈاکٹر نے آنا بند کیا۔ پھر دیگر میڈیکل سٹاف نے بھی وہاں نہ آنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ اور پھر جس عمارت میں یہ سب سلسلہ چل رہا تھا۔ چونکہ وہ گاؤں میں موجود فوج کے ذرعی فارم کے ساتھ تھی تو اس پر فارم والوں نے قبضہ کر لیا۔ جو ابھی تک قائم ہے۔
اس سارے عرصے کے دوران متعدد سیاسی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ آرمی فارم کے انچارج بھی کئی تبدیل ہوئے۔ مگر اس بنیادی صحت مرکز کا معاملہ حل نہ ہوسکا۔ گاؤں کے لوگوں نے کئی مرتبہ اس کے لیے اپنی آواز ارباب اختیار تک پہنچائی۔ جس کے نتیجے میں 2004 میں پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے اس بنیادی صحت مرکز کے از سر نو قیام کی ناصرف منطوری دی گئی۔ بلکہ ایک پوری فزیبلیٹی رپورٹ تک مکمل کردی گئی۔ جس میں آرمی فارم والوں سے یہ کہا گیا کہ یا تو پہلے جہاں پر بنیادی صحت مرکز قائم تھا وہ عمارت خالی کردیں یا پھر اس کے قیام کے لیے اتنی ہی متبادل جگہ فراہم کردیں۔
یہاں پر یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ جو زمین اس وقت آرمی زرعی فارم کے پاس ہے وہ اس نے پنجاب حکومت سے ہی سو سالہ لیز پر لی تھی جو کہ اب ختم ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے گاؤں کے مزراعین اور آرمی فارم انتظامیہ کے درمیان کئی دفعہ تنازعہ بھی ہوا۔ تو اصل میں پنجاب حکومت کے محکمہ صحت کی طرف سے اپنی ہی زمین بنیادی صحت مرکز کے لیے فراہم کرنے کے لیے آرمی فارم کی انتظامیہ کو کہا گیا۔ لیکن ان کی طرف سے بار بار کی یاد دہانی کروانے کے باوجود بھی نہ تو پہلے والی عمارت دی گئی اور نہ ہی متبادل زمین فراہم کی گئی۔
اس کے لیے گاؤں کے لوگوں کی طرف سے آرمی فارم کے آنے والے انچارجوں، علاقہ کے ایم۔ پی ایز، ایم این ایز، مختلف ادوار میں رہنے والے وزیر صحت، وزیر اعلیٰ، حتیٰ کہ وزیراعظم تک کو درخواستیں بھجوائیں گئیں۔ جس میں موجود وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اور وزیراعظم عمران خان کو بھیجی جانے والی درخواستیں بھی شامل ہیں۔ مقامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی ارباب اختیار کی توجہ اس اہم معاملے کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ابھی تک یہ سب بے سود ہی رہا ہے۔
اس لیے اس مضمون کے توسط سے اور اپنے گاؤں کے لوگوں کی طرف سے ایک دفعہ پھر میری ارباب اختیار، وزیرصحت پنجاب، ڈاکٹر یاسمین راشد، وزیر اعلیٰ پنجاب، جناب سردار عثمان بزدار اور وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس اقدام اٹھائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میری ہمارے قابل عزت آرمی چیف سے بھی استدعا ہے کہ وہ اپنے ماتحت ادارے کو اس بنیادی مرکز صحت کے قیام کے لیے زمین کی فراہمی یقینی بنانے کے احکامات صادر فرمائیں۔ کیونکہ یہ نا صرف ”بائیل گنج“ کے لوگوں کا حق ہے بلکہ اس سے ملحقہ کئی اور دیہاتوں کے لوگوں کی صحت کے لیے بھی اشد ضروری ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).