یہ آگ لگنے سے پہلے کا وقت ہے لوگو!


میں نے جب 2016 میں ملٹری ایتھکس میں اپنی پی ایچ ڈی شروع کی تو COIN ( کاؤنٹر انسرجنسی) کے پہلے پہلے ٹریننگ سٹیشنز میں سے ایک یو ایس ملٹری اور نیوی کی ورکشاپس کا تھا جس میں لیفٹیننٹ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے پیش لفظ میں نے اپنی نوٹ بک میں لکھ لئے۔ وہ پیراگراف انسرجنسی اور سیاسی طاقت کی تفریق کا تھا۔ پاکستان میں کتابیں زیادہ نہیں پڑھی جاتیں لیکن ترکی کا ایک شو ارطغرل بہت مشہور ہوا ہے۔ اس شو میں ایک بات کو زور دے کے سمجھایا گیا ہے کہ گورنمنٹ ریاست سے مختلف ہے۔ ریاست سے وفاداری کا مطلب گورنمنٹ کی اطاعت نہیں ہے۔ ارطغرل ریاست یعنی کہ سلطان کا وفادار ہے لیکن وزیر کی گورننس کے خلاف اس نے انت مچایا ہوتا ہے۔ اور پاکستان میں یہی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کو حکومت کا مخالف ہونا ریاست سے بغاوت نہیں ہے۔ یہ بات اگر ”ان“ کی سمجھ میں آجاتی تو آج پاکستان میں کوئی غدار نہ ہوتا نہ ہی ملک دو لخت ہوا ہوتا۔

انسرجنسی کے اور اسباق میں سے ایک سبق یہ بھی تھا کہ بغاوت خاموش رہ کے نہیں کی جا سکتی اور یہی بات میں نے نون لیگ کے کچھ لیڈران سے 2016 ہی ڈان لیکس کے بعد کی تھی کہ آپ دو کشتیوں کے سوار نہیں ہوسکتے ایسا کریں گے تو سو پیاز بھی کھائیں گے اور سو جوتے بھی۔ 2017 سے نون لیگ کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ اور آج میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مسلم لیگ نون کے لئے اب لازم ہو گیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی بقا کے لئے نواز شریف کے بیانیے کو ”ریویو“ کرے۔ اگلے گھنٹے میں مریم نواز کی پریس کانفرنس بھی شاید یہی طے کرے اور سیدھی فائرنگ کے ساتھ ملک بھر میں احتجاج کا اعلان کرے تب تک یہ کالم چھپنے کے لئے نکل چکا ہوگا۔ لیکن میرا اندازہ یہی ہے کہ اب نواز شریف کے بیانیہ کا وقت ہے۔ مریم بولے گی اور بہت کھل کے بولے گی کیونکہ خاموش رہ کے نون لیگ نے مار ہی کھائی ہے۔

خاموشی کی ہمیشہ ایک زبان ہوتی ہے لیکن وار کرافٹ کے بنیادی اسباق میں ایک سبق یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار اپنی بات سنانے کے لئے بہت شور مچانا پڑتا ہے۔ کیونکہ جب تک آپ شور نہیں مچائیں گے، آپ کی بات کوئی نہیں سنے گا۔ اور شور مچانے کے لئے کبھی کبھی بس ایک تقریر کافی ہوتی ہے جو کہ میاں صاحب نے پچھلے ہفتے دو سال کی خاموشی کے بعد کی۔ جس طرح سے حکومت کی طرف سے میاں نواز شریف کو لانے کے لئے ایک ماحول باندھا جا رہا تھا، سفارتی حلقوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ اس تقریر میں کیا ہوگا۔

کووڈ کے باوجود، امریکی الیکشنز، چائنا انڈیا جھڑپوں، اور عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باوجود سفارتی حلقے میاں صاحب کی پولیٹیکل اویکننگ کو نوٹ کر رہے تھے۔ اگر پاکستانی سفارت خانے کو ہماری فائلیں بنانے سے فرصت ہوتی تو شاید وہ بھی یہ نوٹ کر لیتے اور بند دروازوں کے پیچھے کچھ بات چیت ہوجاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میاں صاحب کی تقریر کا سب سے اہم نقطہ سی پیک کو پشاور کی بی آر ٹی سے ملا کے اخراجات کا کہا گیا جس سے ہمیں بھی کچھ اندازہ ہوا کہ لندن میں آج کل اتنے چینی بھائی کیوں نظر آرہے ہیں۔

سعودی شیخوں کی موجودگی تو ویسے بھی گھر کی بات لگتی ہے۔ میاں صاحب کی تقریر کو اگر ڈی کوڈ کیا جاتا تو ارطغرل کا سیکویل پاکستان میں بنایا جاسکتا تھا لیکن عمران حکومت کی طرف سے حسب معمول اس تقریر کا صرف انڈین میڈیا کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا گیا۔ بدقسمتی سے ہر بات پر کسی کو بھی غداری اور انڈین ایجنٹ قرار دینا ہمارا وتیرہ بن چکا ہے لیکن دنیا میں ایک بار پھر یہ تاثر یقین پا گیا کہ پاکستان میں طاقت کا منبع پارلیمنٹ ہرگز نہیں ہے۔

اور یہی وہ امپیکٹ تھا جس کے حوالے سے پہلے وضاحتیں دی گئیں لیکن شیخ رشید جیسے خود ساختہ ترجمانوں نے بات اور بگاڑ دی تو لاک ڈاؤن کے باوجود یہاں لندن میں میاں صاحب کے گھر پر پولیس کی اجازت کے بغیر نقاب پوشوں سے مظاہرہ کرایا گیا اور پھر آج میاں شہباز شریف کو نیب نے گرفتار کر دیا جس کا ”ان“ کو بہت نقصان ہونا ہے کیونکہ یہی بات میاں صاحب نے بھی کہی تھی کہ ایک ادارہ (نیب) اپنے اوچھے ہتھکنڈوں اور سیاسی کردار کی وجہ سے انتہائی بدبودار ہو چکا ہے۔ میں آپ کو بتا دوں کہ انٹرنیشنل سفارتی حلقوں میں یہ جملہ بہت ٹرینڈ کر رہا ہے۔

جس طرح سے اقوام متحدہ، ایمنسٹی، اور دوسرے کئی اداروں میں پاکستان میں سیاسی وچ ہنٹ، جرنلسٹس کو ہراساں کرنے کے ہر واقعے کو رپورٹ کیا جا رہا ہے وہ ریاست کے لئے انتہائی نقصان کن ہے۔ رہی سہی کسر پھر آئی ایس پی آر کے انٹرویو اور پھر اس انٹرویو کے بعد مولانا حیدری کے بیپر نے پوری کردی کہ سفارتکار اب ہم سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں جو میاں صاحب کی تقریر کے بعد جو ”ڈومینو ایفیکٹ“ ہو رہا ہے وہ کہاں تک جائے گا۔

مجھے ڈومینو ایفیکٹ سے زیادہ اس تاثر کی تشویش ہے جو غیر سیاسی ہونے کے بیان کے بعد پے درپے عیاں ہونی والی ملاقاتوں نے کھول دی اور یہی میری پی ایچ ڈی تھی کہ اگر پاکستان میں ایک نیا سوشل کانٹریکٹ ہو تو اس سوشل کانٹریکٹ میں افواج کے سیاسی کردار کا آئینی رول کیا ہونا چاہیے۔

لیکن آج شہباز شریف کی گرفتاری کے وقت جو نعرے لگے وہ ریاست کے لئے نہایت ہی پریشان کن ہیں۔ اے پی سی نے ویسے ہی اکتوبر میں جلسے جلوسوں کا پروگرام بنایا ہوا ہے، مولانا فضل الرحمان کو ہلکا لینا ایک اور غلطی ہے وہ اب کسی بھی ملاقات میں پیچھے نہیں ہٹنے والے۔ کراچی الگ سے نسلی اور مذہبی آگ کی دہانے پر ہے۔ جتنی تیزی سے اب آگ بھڑکنے لگی ہے تو مارچ ابھی بہت دور دکھ رہا ہے جس میں سینیٹ الیکشنز کے بعد مکمل اختیارات لینے کے لئے آئینی تبدیلیوں کا پلان ہے وہ کہیں کسی تباہی کا باعث نہ بن جائے۔ ادا وصی شاہ نے کیا خوب کہا ہے

یہ آگ لگنے سے پہلے کا وقت ہے لوگو
پھر اس کے بعد تو تختہ نہ تخت ہے لوگو

شمع جونیجو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمع جونیجو

شمع جونیجو علم سیاسیات میں دلچسپی رکھنے والی ماہر قانون ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات میں میں ایم اے کیا۔ ایس او اے ایس سے انٹر نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز اور ڈپلومیسی میں ایم اے کیا۔ آج کل پاکستان مین سول ملٹری تعلاقات کے موضوع پر برطانیہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے سے پہلے شمع جونیجو ٹیلی ویژن اور صحافت میں اپنی پہچان پیدا کر چکی تھیں۔

shama-junejo has 15 posts and counting.See all posts by shama-junejo