مرحومہ کی یاد میں


سقراط کے استاد بقراط نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ وہ ایک صحرا میں دور نکلا تو اسے وہاں ایک پرانی بوسیدہ عمارت نظر آئی جو کہ پرانے وقتوں میں یہ کسی قوم کی عبادت گاہ ہوا کرتی تھی۔ اس نے کہا کہ اس کے دروازے کے اوپر دیوار پر قدیم زبان میں ایک جملہ لکھا ہوا تھا جس کا مطلب تھا ”ریسپیکٹ تھائی سیلف“ یعنی اپنے خود کی عزت خود کرو، اور اسی جملے سے وہ متاثر ہو کر آج فلسفے کی دنیا میں ایک بڑے فلسفی کے نام سے مشہور ہے۔

خودی، شرم و حیا، اخوت، ایثار، عدل و انصاف، حمیت، ننگ، غیرت، شجاعت، ہمت اور جدوجہد ایسے الفاظ ہم مختلف واعظوں، معلموں، طبیبوں اور علما سے ان کی تحریروں اور تقریروں میں سنتے آئے ہیں لیکن من حیث القوم ان کا اثر صرف ہمارے کانوں تک ہی محدود ہے یعنی ایک کان سے سنو، دوسرے سے اڑاؤ، اور عملی زندگی میں ان کی عکاسی تو دور کی بات، ان کو اپنے حافظے میں بھی جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہماری حالت کچھ یوں ہے جیسا کہ بقراط سے کسی نے پوچھا کہ مہلک امراض کیا کیا ہیں، اس نے کہا کہ کوئی مرض ایسا نہیں جس کا علاج ناممکن ہو لیکن وہ مرض جس کو آسان سمجھا جائے، طبیب جو کہے اس کو بکواس سمجھا جائے اور پرہیز سے اجتناب کیا جائے تو انسان زندگی سے مایوس ہو کے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

میری اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ کیا یہ نعرہ لگانے سے کہ ”ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں“ واقعی ہم زندہ ہیں بھی یا اسرافیل علیہ السلام کی بانسری کی نوا سے زندہ ہوں گے؟

ہم یہ بھی سنتے آئے ہیں کہ انسان نے بہت زیادہ ترقی کی ہے اور یہ ترقی یافتہ دور اور ایڈوانس زمانہ ہے۔ بالکل، لیکن اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیلاب اور سائنس کی ترقی سے نت نئی ایجادات اور دریافتیں تو ہو رہی ہیں جن پہ سوار ہو کے انسان سیاروں اور ستاروں کو زیرپا لانے، خلا میں اڑنے، خلائی اسٹیشن بنانے، زمین اور سمندر کی طنابیں کھینچنے، میڈیسن اور سرجری کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے، نیوکلیئر اور بایولوجیکل ہتھیار بنانے اور جینیٹکل ٹرانسمشن کے میدان میں بلند و بانگ دعوے کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ”کیا اس ترقی نے انسان کو برائی کے دلدل اور قعر مذلت کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالا یا اس میں مزید نیچے دھکیل دیا ہے؟“ اقبال نے کیا خوب سچ کہا ہے کہ ”

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

میری یہ تحریر اس موت کی طرف اشارہ ہے جس میں ہماری امت گری ہوئی ہے اور میرے یہ چند جملے ”امت مرحومہ کی یاد میں“ اس تجسس کے ساتھ عرض ہیں کہ ”کیا مرحومہ دوبارہ زندہ ہونے والی ہے، یا نہیں؟“

مولانا الطاف حسین حالی نے اس امت کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ ذلت اور ٹھہراؤ آج بھی اسی طرح بر قرار ہے اور ہم کو سود و زیاں کی نہ فکر ہے نہ سوچ۔ حالی نے اس قوم کا حال کچھ یوں بیان کیا ہے۔

”پر اس قوم غافل کی غفلت وہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خواب راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ ”

آپ نے دیکھا ہوگا کہ نہ ہمارے بڑوں میں اور نہ چھوٹوں میں کوئی حیا رہی نہ احترام، نہ دیں کے ہیں نہ دنیا کے۔ آپ کے مشاہدے میں اکثر آیا ہوگا کہ ہمارے نوجوان دن رات ٹیکنالوجی کے مزے لوٹ رہے ہیں، آرام طلبی اور بے حسی کے خوگر اپنا خون چاٹ رہے ہیں اور یہاں تک کہ ذکر، عبادت، تلاوت اور محنت سے عاری نفسیاتی بیماریوں کا شکار عریانی اور فحاشی کے دلدل میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ اور ہم وہ ناپسندیدہ خصائل اپنے کردار میں سمو رہے ہیں جن پر ہمارے محترم اساتذہ خون کے آنسوں بہا رہے ہیں۔ پہلے ہیروئن کا نشہ تھا اب ٹیکنالوجی کا۔ اکثر ہمارے جوان اور بڑے دن رات موبائل کے کینسر میں مبتلا برائے نام جی رہے ہیں اور زندگی اور اپنے قیمتی کلچر اور اقدار سے خالی ہیں۔ حالی کے الفاظ میں :

”عالم ہے سو بے عقل ہے، جاہل ہے سو وحشی
منعم ہے سو مغرور ہے، مفلس سو گدا ہے
یاں راگ ہے دن رات و داں رنگ شب و روز
یہ مجلس اعیاں ہے وہ بزم شرفا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے ”

آج کے والدین اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کیونکہ ان کے بچے نصیحت کا برا مناتے ہیں اور ان کی بے عزتی پہ اتر آتے ہیں۔ اگرچہ اپنی زندگی برباد کر کے آخر میں مایوسی کے عالم میں ہاتھ ملتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”وائے ناکامی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا ’کہ انہوں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے اور اس طرح مایوسی اور بے سکونی کی حالت میں آنکھیں بند کر کے رخصت ہوتے ہیں جن کے نام و نشان تک مٹ جاتے ہیں اور ہم والدین زیر لب یہ الفاظ گنگناتے ہیں کہ:

”ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک ”

اس لیے میرے اس سوال نے کہ ”اگر امت مرحومہ دوبارہ زندہ ہوگی، تو کیسے؟ ابھی تک مجھے ذہنی خلفشار میں رکھا ہے کہ آخر کب تک ہم اس طرح برباد اور خوار بنے رہیں گے؟ آج بھی حالی کی دہائی زندہ ہے کہ:

”روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج
بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے
عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہر سو
اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزم عزا ہے
وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی
وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے ”

خلاصہ تحریر یہ کہ ہم اپنے گھر، مسجد، سکول، کالج، یونیورسٹی اور دیگر مذہبی و معاشرتی اداروں میں اپنے بچوں بچیوں کی صحیح راہنمائی، نگہبانی، کردار سازی اور تربیت میں ناکام نظر آرہے ہیں، اس لئے امت مرحومہ کی یاد میں اور نوجوان نسل کی یادش بخیر سے متعلق مجھ نا چیز کی رائے ہے کہ اگر ہماری یہ حالت رہی تو ہم اپنی موت آپ مر جائیں گے اور اغیار کو نہ نیوکلیئر نہ ہائیڈروجن اسلحہ کی ضرورت پڑے گی نہ حملے کی۔ اور آخر میں اللہ سے یہ دعا کہ:

”ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے
ہاں حالیٔ گستاخ نہ بڑھ حد ادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبش لب خارج از آہنگ خطا ہے
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے ​ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).