فارمولا فلموں کی کامیابی کا راز


2000 کے بعد ہندوستانی فلموں میں تبدیلی آنے لگی، یاد کیجئے، دل چاہتا ہے، لگان، کبھی خوشی کبھی غم، محبتیں، وغیرہ یعنی فلموں کا مزاج بدلنے لگا اور ان میں بے پناہ سرمایہ لگنے لگا۔ اب بھارتی فلمیں نسبتاً زیادہ حقیقت کے قریب آ گئیں اور کیمرہ ورک، کوریو گرافی، ایکشن وغیرہ میں بہت بہتری آ گئی۔ تب اس نوع کی باتیں اخبارات میں چھپنے والے فلمی تجزیوں میں آنے لگیں کہ اب فارمولا فلمیں ماضی کا قصہ بن گئیں مگر ایسا ہر گز نہ ہوا۔

ہوا بس یہ کہ کچھ نئے فارمولے بن گئے بلکہ بہت سے تو فارمولے بھی بالکل وہی تھے جو 60 یا 70 کی دہائی سے چل رہے تھے بس پیکنگ بدل گئی۔ مثال کے طور پر اب بھارت کی تمام ہی ڈراؤنی فلمیں Exorcist کے فارمولے پر بنتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی فارمولا فلموں نے ہمیشہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ندیم اور وحید مراد کے سنہری دور میں بھی فلموں میں بڑے طے شدہ فارمولے ہوا کرتے تھے اور اب جب کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ فلمی صنعت کا کسی نوع کا نیا جنم ہوا ہے تو اب بھی فلموں میں وہی بھارتی فارمولے کام آ رہے ہیں۔

ویسے اگر ہم ان فارمولوں کے نام اپنی آسانی کے لئے رکھ لیں تو ہم بہت سی فلموں کو ان کے فارمولے کی مدد سے باآسانی پہچان سکیں گے جیسے گانوں کو ان کے راگ سے پہچان لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ’قیامت سے قیامت تک‘ ، ’ایک دوجے کے لئے‘ ، ’تیرے نام‘ وغیرہ میں بعض وجوہات سے (ظالم سماج، خاندانی دشمنی وغیرہ) ہیرو اور ہیروئن کا ملاپ نہیں ہوتا بلکہ دونوں (یا کوئی ایک) دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ ان فلموں کا المیہ اختتام ہی دراصل ان کی کامیابی کی وجہ ہے۔ ان فلموں کے فارمولے کو اگر ہم ’قیامت‘ فارمولا کہہ دیں تو ہم ان تمام اور ایسی باقی فلموں کو بآسانی فارمولے سے پہچان سکتے ہیں۔

اسی طرح ایک ’لاڈلہ‘ فارمولا ہے۔ اس فارمولے میں کون کون سی فلمیں آتی ہیں؟ چلئے بات فلم ’شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا‘ سے شروع کرتے ہیں۔ اس فلم میں داؤد ابراہیم کے خاص کمانڈر مایا بھائی کو دکھایا گیا ہے۔ داؤد بھائی دبئی میں ہیں اور یہاں مایا بھائی اور اس کا گینگ داؤد کا کام سنبھالتا ہے مگر داؤد کا یہ ’لاڈلہ‘ داؤد بھائی کو ہی جواب دینے اور آنکھیں دکھانے لگتا ہے۔ اس لیے کہ اسے لگتا ہے کہ کام تو وہ سنبھال رہا ہے۔

ٹھیک ہے اسے یہ مقام داؤد نے دیا مگر اب تو وہ اس مقام پر ہے۔ تو وہ جو بھی من مانی چاہے کرے۔ داؤد بھائی کو یہ بات نہیں بھاتی اور وہ پولیس کے ذریعے اپنے ہی کمانڈر کو کچلوا دیتے ہیں۔ پھر اسی فارمولے کی ایک اور فلم ہے ”واستو“ ۔ اس فلم میں سنجے دت ایک معصوم لڑکا ہے جو حالات کی وجہ سے ایک خوفناک قاتل غنڈہ بن جاتا ہے۔ اس کے سر پر ایک بڑے غنڈے کا ہاتھ تھا۔ پھر ایک سیاستدان سنجے دت کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے۔

اب دت کی قوت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ وہ ایک گھر کو خالی کرانے جاتا ہے۔ وہاں ایک پارسی بوڑھے کو بحث تکرار کی وجہ سے گولی مار دیتا ہے۔ اب سیاست دان کے پسینے ہی چھوٹ جاتے ہیں۔ وہ سنجے کو انڈر گراؤنڈ ہونے کو کہہ دیتا ہے مگر خود ہی پولیس سے اس کا اور اس کے گروہ کے انکاؤنٹر آرڈر نکال دیتا ہے۔ یہ سیاست دان سنجے کے ہاتھوں مرتا ہے مگر اس کا اپنا عرصہ حیات بھی تنگ ہو جاتا ہے۔ وہ وحشت سے پاگل ہو جاتا ہے۔ اور اس کی ہی شانتی کے لئے اس کی ماں اسے مار دیتی ہے۔

ویسے تو دونوں ہی مثالوں میں کہانی غنڈوں کی ہے مگر یہ فارمولا ہر مرتبہ ضروری نہیں کہ غنڈوں پر ہی بنی فلموں میں ظاہر ہو۔ بس فارمولے کو سمجھ لیجیے تو پھر یہ کسی بھی جگہ ظاہر ہو آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ ’لاڈلہ‘ فارمولا ہے۔ بس بات اتنی ہے کہ پہلے جو کسی کو قوت دیتے ہیں بعد میں وہ اس بات سے نالاں ہو جاتے ہیں کہ اسے ہم نے ہی طاقت دی اور یہ اب ہم کو ہی آنکھیں دکھا رہا ہے یا یہ کہ یہ تو حدود سے ہی تجاوز کر رہا ہے۔ قوت دینے والوں کو یہ بات نہیں بھاتی تو وہ لاڈلے کی گردن پر چھری پھیر دیتے ہیں۔

نیتا جی جب سنجے کو پکڑنے مانڈولی والے سلیمان بادشاہ کے پاس آتے ہیں تو سلیمان ان سے استفسار کرتا ہے کہ وہ آخر رگھو (سنجے دت) کو مار دینے کے کیوں در پہ ہیں؟ نیتا جی فرماتے ہیں کہ ”حد سے بڑھ گیا ہے رگھو“ اور اب اس کے کاموں کا بوجھ نیتا جی سے اٹھانا مشکل ہو رہا ہے۔ سلیمان بادشاہ پوچھتا ہے کہ اگر رگھو مر گیا تو ان کے سارے غلط کام پھر کون کرے گا؟ اس پر نیتا جی بڑے کام کی بات کرتے ہیں۔ وہ فوراً انور ہٹیلا کا نام لے کر کہتے ہیں کہ وہ اس کو اپنے سایہ شفقت میں لے لیں گے بلکہ اس کام کے لئے سلیمان سے ہی مدد مانگ لیتے ہیں۔ کہانی کا انجام فلم میں جو بھی ہوا ہو مگر حقیقی انجام بس یہی ہے۔ شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا کا انجام بھی دراصل اسی مقام پر ہو جاتا ہے جب مایا بھائی داؤد ابراہیم کو دبئی فون کرتا ہے اور وہ اس کی مدد سے انکار کر دیتے ہیں۔

دراصل فارمولا فلمیں اس لیے کامیاب ہوتی ہیں کہ ان فارمولوں میں جان ہوتی ہے۔ یہ فارمولے دلچسپ اور حقیقت سے قریب ہوتے ہیں۔ اب اس فارمولے ”لاڈلہ“ کو ہی دیکھ لیجیے۔ اس پر کتنی فلمیں بنیں اور کامیاب رہیں۔ ہندوستان کیا پاکستان میں بھی اس پر ان گنت ”فلمیں“ ریلیز ہو چکی ہیں۔ لاڈلے جب تک لاڈلے ہوتے ہیں تو ساری دنیا ان کے قدموں میں ہوتی ہے۔ مگر پھر ان میں اور ان کے آقاؤں میں بگاڑ ہو جاتا ہے اور پھر لاڈلے راندہ درگاہ ہوتے ہیں۔ پھر موت، جیل خانہ، ذلت ان کا مقدر بنتی ہے اور ان کی جگہ کوئی نیا لاڈلہ لے لیتا ہے۔ یہ بڑا عبرت آمیز فارمولا ہے مگر ہے مبنی بر حق اس لیے کامیاب ہے اور کامیاب ہے اس لیے بار بار دہرایا جاتا ہے۔ بار بار دہرایا جاتا ہے مگر پھر بھی لاڈلے عبرت کب پکڑتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).