اسرائیل، پاکستان تعلقات: کراچی سے ہجرت کر کے تل ابیب آباد ہونے والے عمانوئیل متات کی پاکستانی کرکٹرز سے محبت کی داستان


اسرائیل کے شہر تل ابیب میں مقیم 58 سالہ عمانوئیل متات کے لیے کرکٹ محض ایک کھیل ہی نہیں بلکہ جنون کی حیثیت رکھتا ہے۔

کرکٹ سے ان کی والہانہ محبت اس لیے بھی حیران کُن ہے کہ اسرائیل کرکٹ کے حوالے سے جانے پہچانے ملکوں میں قابل ذکر مقام نہیں رکھتا۔ لہذا اس بات پر یقیناً حیرت ہوتی ہے کہ آخر ایسی کیا بات ہے جس نے عمانوئیل متات کو اسرائیل میں رہ کر بھی کرکٹ سے جوڑ رکھا ہے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ متات کی پیدائش پاکستان کے شہر کراچی میں ہوئی جہاں انھوں نے اپنے بچپن اور نوجوانی کے 25 برس بیتائے اور ظاہر ہے کہ جب وہ کراچی میں رہے ہوں تو پھر کرکٹ سے دوری کا کیا سوال؟

عمانوئیل متات یہودی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے متات نے بتایا کہ ’میں صرف پاکستانی کرکٹرز کا ہی دیوانہ ہوں۔ کوئی دوسری ٹیم مجھے پسند نہیں۔ میں جب کراچی میں تھا اس وقت بھی اور اب بھی مجھے پاکستانی ٹیم کو کامیابی حاصل کرتا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔‘

متات کی کراچی سے وابستہ گہری یادیں

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں کراچی صدر کے علاقے میں واقع بی وی ایس پارسی سکول میں پڑھا ہوں اور اسی سکول کے سامنے ہی میرا گھر تھا۔ کرکٹ کا جنون شروع ہی سے تھا۔ اگرچہ میں سکول کی ٹیم میں شامل نہیں تھا لیکن محلے کی ٹیم میں کھیلتا تھا۔ سکول کی ٹیم ہو یا محلے کی، جسے بھی جب بھی ضرورت ہوتی تھی میں اپنا بیٹ اور گیند دیتا تھا۔ میرے پاس بڑی بڑی کمپنیوں کے برانڈڈ 25 بیٹ اور بیک وقت 50 کے لگ بھگ گیندیں ہوا کرتی تھیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

سپاٹ فکسنگ سکینڈل: دنیا کو دھوکہ دینے والی تین ’نو بالز‘

جب عمران خان نے تماشائی لڑکے کا گلا دبوچ لیا

وہ بلے باز جنھیں چھکا مارنا کبھی پسند نہ تھا

متات کہتے ہیں کہ کرکٹ کا جنون کئی بار دوستوں کے ساتھ انھیں کراچی نیشنل سٹیڈیم بھی لے گیا جہاں انھوں نے کئی میچ دیکھے ہیں۔

’مجھے انڈیا کے خلاف ٹیسٹ میچ میں عمران خان کی آٹھ وکٹیں حاصل کرنے کی بولنگ آج بھی یاد ہے۔ مجھے اس دور میں عمران خان، جاوید میانداد، ہارون رشید اور وسیم راجہ کا کھیل پسند تھا۔ وسیم راجہ اپنے چھکوں کی وجہ سے مجھے اچھے لگتے تھے۔‘

پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے وہ گویا ہوئے ’ہم دوست میچ کے بعد انٹر کانٹینینٹل ہوٹل باقاعدگی سے جایا کرتے تھے جس کی لابی میں نظر آنے والے کرکٹرز سے ملنے کا ہمیں شوق رہتا تھا، لیکن کبھی بھی میں نے کسی کرکٹر سے آٹوگراف نہیں لیا۔‘

متات کو اس دور کے بڑے کمنٹیٹرز چشتی مجاہد اور افتخار احمد کی کمنٹری بھی یاد ہے۔ دوران گفتگو انھوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ ’چشتی مجاہد سے آپ کی ملاقات ہو تو میرا سلام ضرور کہیے گا۔‘

متات کہتے ہیں کہ ’اسرائیل میں کرکٹ کا تصور نہیں ہے۔ یہاں آپ کو کوئی کرکٹ کھیلتا نظر نہیں آئے گا نا ہی اخبار یا ٹی وی پر آپ کو کرکٹ کی کوئی خبر نظر آئے گی۔ یہاں سب کی دلچسپی باسکٹ بال اور فٹبال میں ہے۔‘

متات نے اسرائیل میں ٹی وی پر کرکٹ میچز نہ آنے کے سبب اپنا شوق پورا کرنے کے لیے یوٹیوب کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور وہ باقاعدگی سے یوٹیوب پر پاکستانی ٹیم کے میچز دیکھتے ہیں۔

انھیں پاکستان سپر لیگ کے بقیہ چار میچوں کا شدت سے انتظار ہے جو نومبر میں ہونے والے ہیں۔ موجودہ کرکٹرز میں انھیں بابراعظم اور فخرزمان پسند ہیں۔

متات نے کراچی میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے قالین کے کاروبار میں مدد کی اور اب وہ تل ابیب میں لوہے کے سکریپ کا کاروبار کرتے ہیں، لیکن کرکٹ کے آگے کاروبار بھی کچھ نہیں ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب پاکستانی ٹیم میچ کھیل رہی ہوتی ہے تو سمجھ لیجیے کہ سب کام بند۔ سنہ 1992 کا ورلڈ کپ جب ہو رہا تھا تو میں کاروبار کے سلسلے میں سوئٹزر لینڈ میں تھا لیکن میں نے وہاں بھی پاکستانی ٹیم کے میچز دیکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا۔ پاکستانی ٹیم جب ورلڈ کپ جیت گئی تو جیسے میں ہوا میں اُڑ رہا تھا۔‘

متات کو کرکٹ کے شوق کی خاطر اپنی بیگم کی تنقید ضرور برداشت کرنی پڑتی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’میری اہلیہ کو میرا کرکٹ کا شوق بالکل پسند نہیں ہے اور انھیں یہی شکایت رہتی ہے کہ میں کرکٹ کو زیادہ وقت دیتا ہوں۔اچھی بات یہ ہے کہ میری تینوں بیٹیوں اور دامادوں کو میرے اس شوق سے کوئی شکایت نہیں ہے کیونکہ انھیں پتہ ہی نہیں ہے کہ کرکٹ کیا چیز ہے۔‘

انھوں نے آگاہ کیا کہ ’سنہ 1972 سے قبل پاکستان میں تقریباً پانچ سو یہودی خاندان تھے لیکن سنہ 1987 میں ان کی فیملی شاید وہ آخری فیملی رہ گئی تھی جس نے کراچی سے نقل مکانی کی تھی۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ متات کے ساتھ کراچی کے سکول میں پڑھنے والے 36 طالبعلم دوستوں کا گروپ آج بھی ایک دوسرے سے واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں ہے۔

پاکستان، اسرائیل اور کھیلوں کے روابط

پاکستان اور اسرائیل میں سفارتی تعلقات قائم نہ ہونے کے سبب کھیلوں کی سطح پر برائے نام رابطہ رہا ہے۔ کہیں پاکستان نے اسرائیل سے کھیلنے سے خود کو بچائے رکھا لیکن کہیں اسے کھیلنا پڑا ہے۔

سنہ 1960 میں انڈیا میں منعقدہ ایشیا کپ فٹبال ویسٹ زون ٹورنامنٹ میں پاکستان اور اسرائیل کی ٹیمیں دو بار آمنے سامنے آئی تھیں۔ پہلے میچ میں پاکستان کو دو صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ دوسرا میچ دو دو گول سے برابر رہا تھا۔ یہ ٹورنامنٹ اسرائیل نے جیتا تھا۔

سنہ 1984 کے لاس اینجلز اولمپکس کے باکسنگ مقابلوں کے پہلے راؤنڈ میں پاکستان کے آصف کامران بٹ کا مقابلہ اسرائیل کے شیلو میو نیازوف سے ہوا تھا جو پاکستانی باکسر نے جیتا تھا۔

سنہ 1981 اور سنہ 1983 کی ورلڈ ٹیبل ٹینس چیمپئین شپ میں پاکستان کا مقابلہ اسرائیل سے ہونا تھا لیکن دونوں مرتبہ پاکستان نے اسرائیل کو واک اوور دیا تھا، ایسا کرنے کی وجہ سے وہ پاکستان عالمی ٹیبل ٹینس فیڈریشن کی جانب سے سخت کارروائی سے بھی بچا تھا۔

پاکستانی ٹینس کھلاڑی اعصام الحق کچھ عرصہ اسرائیلی کھلاڑی عامر حداد کی پارٹنرشپ میں انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لیتے رہے تھے۔

انھوں نے عامر حداد کےساتھ 2002 کی ومبلڈن میں تیسرے راؤنڈ تک رسائی حاصل کی تھی تاہم اس وقت ملک میں حکومتی اور ٹینس حلقوں میں ان کی اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ جوڑی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا تھا تاہم ان دونوں کھلاڑیوں کا مؤقف تھا کہ وہ امن کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کو آرتھر ایش انسان دوستی ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

جرمنی کی شہریت رکھنے والے یہودی النسل ڈین کیزل نوے کی دہائی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فزیو رہے تھے۔

عمانوئیل متات کے دل میں پاکستان آنے کی خواہش اب بھی موجود ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر وہ نیشنل سٹیڈیم میں بیٹھ کر اپنے پسندیدہ کرکٹرز کو کھیلتا دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp