وبا کے دنوں کے بعد


وبا کے دنوں میں ملی فرصت میں کتابیں پڑھیے، پودے لگایے، فلمیں اور ڈرامے دیکھیے، فطرت کو محسوس کیجیے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ مشورے ہیں جو لاک ڈاؤن کے دوران وقت گزاری کے حوالے سے پڑھنے کو ملے۔ یعنی جس فرصت کو ترستے تھے وہ ملی تو اس سے لطف اندوز ہونا بھول گئے۔ ایک اور دلچسپ پہلو کے حوالے سے خبریں پڑھنے کو ملیں کہ مردوں کی اکثریت کی فراغت کی وجہ سے کنڈوم کی ڈیمانڈ بڑھ گئی۔ دنیا کی آبادی میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا۔ دوسری طرف میاں بیوی کے زیادہ وقت گھر میں گزارنے سے گھریلو تشدد اور طلاق کی شرح بڑھنے کی رپورٹس بھی سامنے آئیں۔

تجاویز اور مشوروں کی اس گٹھڑی میں کہیں یہ ذکر نہیں ملا کہ ٰجبری فرصت ٰ کے اس وقت کو ازدواجی بندھن کی مضبوطی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جتنے بھی ترقی یافتہ اور پریکٹیکل ہونے کا نعرہ لگائیں لیکن ابھی بھی ہمارے معاشرے میں اکثریت ان خواتین کی ہے جو شوہر کی ایک توجہ بھری نظر اور محبت بھرے فقرے پر سارا دن خوش رہتی ہیں۔ اسی طرح بہت سے مرد ایسے ہیں جو بیوی کے خراب موڈ سے پناہ مانگتے ہیں۔

وبا کے دنوں کی فرصت سے قطع نظر، زندگی کی جو بچی کھچی فرصت یے اس کے لئے ایک تجویز نوٹ کر لیں کہ آپس کے اس تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں جو شادی کے کچھ عرصے بعد صرف جنسی ضرورت کی تکمیل اور بچوں کی پیدائش تک ہی محدود ہو جاتا ہے۔ اس تعلق میں سے رفاقت کا تصور بالکل ختم ہو جاتا ہے یا شاید ہمارے جیسے معاشروں میں ں شادی کے بندھن میں رفاقت کا تصور موجود ہی نہیں ہوتا اور سکھایا بھی نہیں جاتا۔

صاحب، دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے آپ کے ارد گرد شادی شدہ جوڑوں میں سے کتنے ایسے ہیں جو ایک دوسرے سے بات چیت، تبادلہ خیال کرنا پسند کرتے ہیں، کتنے ایسے ہیں جو اپنے شریک سفر کے پاس بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو صرف اس لئے اکٹھے ہیں کہ شادی ہو گئی ہے، بچے بھی پیدا کر لئے ہیں تو ایک گھر میں رہنا مجبوری ہے۔ یہاں تحریر کا مرکز ایسے جوڑے یا ایسے گھر نہیں ہیں جو ہر وقت کشیدگی کی حالت میں رہتے ہیں بلکہ توجہ ایسے گھرانوں کی طرف دلانا مقصود ہے جہاں میاں بیوی بہت کم جھگڑتے ہیں۔ دنیا کی نظر میں کامیاب لیکن درحقیقت بے رنگ اور بے روح تعلق کے ساتھ دنیا کی آبادی میں اپنے حصے کا اضافہ کر کے بوڑھے ہوتے ہیں اور قبر کی گود میں اتر جاتے ہیں۔

بچے پیدا کرنے، پالنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے میں میاں بیوی یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ انہیں بھی ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ دن، مہینوں اور سالوں کے سکوں کی صورت میں وقت کی تھالی میں گرتے جاتے ہیں اور ایک دن اچانک میاں بیوی دو بوڑھوں کی صورت میں ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں تو دن وہ بھی نہیں گزرتے ہیں۔ جن دو لوگوں کے پاس ساری زندگی ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں ہوتا وہ بڑھاپے میں بھی ایک دوسرے سے بیزار ہی ہوں گے۔

ہمارے جیسے معاشروں میں شادی کے بندھن میں میاں بیوی کے علاوہ بھی بہت سے سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں اور ان کا سارا زور اس بندھن کو کمزور کرنے پر ہوتا ہے۔

اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو اس کی سادہ سی مثال سسرال ہے جہاں شعوری طور پر یہ کوشش کی جاتی ہے کی ہمارا بیٹا ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ اس خطرے کے تدارک کے لئے پھر بہو کی دیدہ و نادیدہ خامیاں ڈھونڈ کر بیٹے کے گوش گزار کی جاتی ہیں اور نتیجہ اکثر حسب منشا نکلتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اس خوبصورت رشتے کو صرف بچوں کی پیدائش کے لئے استعمال کرنے کی بجائے اس میں رنگ بھرنا میاں بیوی کی ذمہ داری ہے۔ کبھی دو کپ چائے بنا کر اپنے شریک سفر سے کہیں کہ آؤ مل کر چائے پیتے ہیں۔ بچوں کے بغیر لانگ ڈرائیو یا باہر کھانا بھی ایک آپشن ہے۔ کبھی مل کر شادی کے شروع کے دنوں کو یاد کیا جائے جب چہرہ ٰچاند چہرہٰ اور آنکھیں ٰستارہ آنکھیں ٰ ہوتی تھیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ شادی کو مذہبی، جسمانی اور سماجی ضرورت سے بڑھ کر روح کا تعلق سمجھا جائے۔ ایک ان چاہا اور بے روح، بے رنگ تعلق بنانے سے بہتر ہے کہ اکیلے بوڑھے ہو جائیں۔ لیکن اگر اس تعلق کو خوش گوار بنانا ممکن ہو تو ضرور بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).