فضل الرحمن صاحب کس کی زبان بول رہے ہیں؟


کچھ عرصے سے مولانا فضل الرحمن صاحب کی تقاریر ایک خاص انداز اختیار کر گئی ہیں۔ وہ جب تقریر شروع کرتے ہیں، تو وزیر اعظم عمران خان صاحب کی مذمت کرتے ہیں اور اہل کشمیر سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ اور چند لمحوں میں وہ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ریاستی طور پر پاکستان سے ایک سنگین غلطی ہوئی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں فاٹا کو ایک خصوصی حیثیت حاصل تھی اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے وہ خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے۔ اور پاکستان کی ریاست کو اس کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ فاٹا کی خصوصی حیثیت ختم کرے۔

اگر فضل الرحمن صاحب کا شکوہ یہاں تک محدود رہتا، تو شاید یہ خیال کیا جاتا کہ وہ آئین کے اس ترمیم کی مخالفت کر رہے ہیں جس کے تحت فاٹا کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنایا گیا تھا۔ لیکن حال ہی میں ایک تقریر میں انہوں نے اس سے بھی بڑھ کر ایک اور دعویٰ ان الفاظ میں پیش کیا:

”ہمارے یہاں فاٹا میں آئین کی عملداری نہیں تھی۔ یہاں پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو کے اختیارات فاٹا پر نہیں تھے۔ یہاں پر صدر مملکت خیبر پختون خواہ کی وساطت سے فاٹا کے انتظام کو چلاتا تھا۔“

اور اس کے بعد وہ یہ دعویٰ پیش کرتے ہیں کہ فاٹا میں یہ تبدیلی امریکہ کی سرپرستی میں کی گئی۔ اور اس طرح بین الاقوامی قوتیں دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں کرا رہی ہیں۔ اس صورت حال میں انصاف کہاں تلاش کیا جائے اپنا رونا کہاں رویا جائے۔ کس کے سامنے اپنی فریاد رکھی جائے۔ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟

فضل الرحمن صاحب کا اظہار ماتم بہت مرصع اردو میں ہوتا ہے لیکن اگر ان کے اس بیان پر نظر ڈالی جائے تو اس کے اندر واضح تضاد نظر آتا ہے۔ اگر فاٹا کے بارے میں ترمیم سے قبل فاٹا پر پاکستان کے آئین کی عملداری نہیں تھی، تو صدر پاکستان خیبر پختون خواہ کے گورنر کی وساطت سے وہاں کا انتظام کیسے چلا رہا تھا؟ ظاہر ہے کہ پاکستان کے صدر کا اختیار تو وہاں تک ہی چل سکتا ہے جہاں تک پاکستان کے آئین کی عملداری ہو۔

فضل الرحمن صاحب اپنے نظریات کے حق میں 1973 ء کے آئین کی شق 247 کا حوالہ دیتے ہیں۔ 2018 ء میں قبائلی علاقوں کے بارے میں کی جانے والی ترمیم سے قبل یہ شق آئین کا حصہ تھی۔ فضل الرحمن صاحب تقریروں میں یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس شق کی رو سے قبائلی علاقوں پر پاکستان کے آئین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ شق ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے :

دستور کے تابع، وفاق کا عاملانہ اختیار مرکز کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات پر وسعت پذیر ہو گا اور کسی صوبے کا عاملانہ اختیار اس صوبے میں شامل زیر انتظام قبائلی علاقہ جات پر وسعت پذیر ہو گا۔

میں فضل الرحمن صاحب کا یہ فلسفہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر پاکستان کے آئین کی رو سے پاکستان کے آئین کا اطلاق قبائلی علاقوں پر نہیں ہوتا تھا تو پاکستان کے آئین کی رو سے قبائلی علاقوں کو وفاق یا صوبے کے عاملانہ اختیار کے تحت کیسے رکھا گیا تھا؟

اب فضل الرحمن صاحب کے اس دعوے کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کو اس بات کا اختیار نہیں تھا کہ وہ قبائلی علاقوں کی آئینی پوزیشن کو تبدیل کرے۔ فضل الرحمن صاحب کے نزدیک یہ تبدیلی غیر قانونی ہے اور بڑی طاقتوں کے اشارے پر کی گئی ہے۔ جب اس حوالے سے ہم آئین پاکستان کی اس شق کا جائزہ لیتے ہیں تو اس شق میں لکھا ہے :

صدر کسی وقت بھی فرمان کے ذریعے ہدایت دے سکے گا کہ کسی قبائلی علاقے کا تمام یا کوئی حصہ قبائلی علاقہ نہیں رہے گا۔

مگر شرط یہ ہے کہ اس شرط کے تحت فرمان صادر کرنے سے پہلے صدر اس طریقے سے جو وہ مناسب سمجھے متعلقہ علاقے کے عوام کی رائے جس طرح کہ قبائلی جرگہ میں ظاہر کی جائے معلوم کرے۔

اگر فضل الرحمن صاحب یہ نکتہ اٹھاتے کہ یہ فیصلہ کرنے سے قبل قبائلی علاقے کے لوگوں کی رائے مناسب طریق سے نہیں لی گئی، تو یہ ایک ایسا نکتہ ہوتا جس پر غور ہونا چاہیے تھا۔ لیکن وہ یہ مطالبہ نہیں کر رہے کہ اس معاملے میں قبائلی علاقوں کے عوام کی رائے لی جائے۔ ان کا اصرار یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کی حیثیت کبھی تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ حالانکہ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ صدر پاکستان یہ حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا آئین میں شامل یہ شق، قبائلی علاقوں کے نمائندوں کی رضامندی سے شامل کی گئی تھی یا پاکستان کی قومی اسمبلی نے زبردستی یہ شق ان پر مسلط کر دی تھی؟ تو اس بارے میں عرض ہے کہ جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے آئین کی شق منظور کی تھی تو اس وقت وہاں قبائلی علاقوں کے نمائندے موجود تھے۔ اور انہوں نے اس پر بحث میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ اور آخر میں آئین کی یہ شق ان کی رضامندی سے منظور کی گئی تھی۔ بلکہ انہوں نے اپنی تجویز کردہ ترامیم واپس لے لی تھیں۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس وقت قبائلی علاقوں کے نمائندوں میں سے کسی نے یہ موقف پیش نہیں کیا تھا کہ قبائلی علاقوں کی حیثیت تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ ان کی طرف سے یہ واضح اظہار کیا گیا تھا کہ وقت آنے پر قبائلی علاقوں کی خصوصی حیثیت ختم کی جا سکتی ہے۔

جب پاکستان کا آئین بن رہا تھا تو قبائلی علاقوں کے بارے میں اس شق پر 28 مارچ 1973 ء کو بحث ہوئی تھی۔ اور قبائلی علاقوں کے نمائندوں میں سے نعمت اللہ شنواری صاحب، میجر جنرل جمالدار صاحب اور چترال کے اتالیق جعفر شاہ صاحب نے بحث میں حصہ لیا تھا۔ قبائلی علاقوں کے نمائندوں نے یہ اظہار ضرور کیا تھا کہ جو قبائلی علاقے صوبائی انتظام کے تحت ہیں وہ پاکستان کی وفاقی حکومت کے انتظام کے تحت آنا چاہتے ہیں۔ اور اس بات پر بھی بحث ضرور ہوئی تھی کہ جس ”جرگہ“ سے مشورہ کیا جائے گا وہ کون سا جرگہ ہو گا؟

لیکن یہ موقف کسی رکن نے پیش نہیں کیا تھا کہ قبائلی علاقوں کی حیثیت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی یا یہ کہ قبائلی علاقوں پر پاکستان کے آئین کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ وزیر قانون عبد الحفیظ صاحب نے کہا تھا کہ وہ وقت بھی آئے گا کہ جب قبائلی علاقے کے لوگ خود کہیں گے ہمارے لئے اب اس قسم کی چیزوں کی ضرورت نہیں ہے اس پر نعمت اللہ شنواری صاحب نے کہا تھا:

”آپ جب ہمیں اس قابل بنائیں تو ہم کیوں نہیں شامل ہوں گے۔“

خلاصہ کلام یہ ہے کہ فضل الرحمن صاحب غیر ذمہ دارانہ انداز میں بیانات دے کر عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو کمزور کر رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنا موقف واضح کریں۔ اور اگر قبائلی علاقے کے لوگ موجودہ انتظام سے نا خوش ہیں تو یہ اظہار ان کے منتخب نمائندوں کی طرف سے ہونا چاہیے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان علاقوں کے عوام اس انتظام سے مطمئن نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ان کے نزدیک قبائلی علاقوں کے عوام کی رائے معلوم کرنے کا کیا ذریعہ ہونا چاہیے؟

یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک طرف تو فضل الرحمن صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک بین الاقوامی سازش کے تحت قبائلی علاقوں کی حیثیت تبدیل کرائی گئی ہے۔ اس حیثیت کو تبدیل کرنے کی پشت پر سب سے زیادہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی طاقت تھی۔ اس کے با وجود اس وقت فضل الرحمن صاحب اے پی سی میں ان سازش کرنے والوں کے ساتھی بھی بنے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).