سیاست میں کرپشن کا ہر دیس میں راج


\"khalid-mehmood-rasul\"چند دنوں کے وقفے کے بعد پانامہ لیکس کی عجب کہانی نے گذشتہ روز پھر سے سپریم کورٹ میں غضب ڈھایا۔ اعلیٰ عدالت میں فریقین نے کچھ مزید کاغذات جمع کروائے اور اپنے اپنے تئیں یہی دعویٰ کیا گیا کہ ان ثبوتوں کے ساتھ اب اونٹ پہاڑ کے نیچے آ گیا ہے۔ عدالت میں سماعت سے وو تین روز قبل ہی میڈیا پر حسب معمول عدالتیں لگ گئیں۔ سماں کچھ یوں باندھ دیا گیا کہ اس پیشی پر فریق مخالف کا \”تانگہ آ گیا کچہریوں خالی تے سجناں نوں قید بول گئی\” والا معاملہ بس طے ہی سمجھیں۔ اس اعتماد کی وجہ یہ بھی تھی کہ تمام فریقین نے اپنے اپنے وکیلوں سے شاید کچھ ایسے ہی حسن سلوک کا وعدہ کر رکھا ہے کہ۔۔۔ نیلی گھوڑی وے وکیلا تیری ، جے پہلی پیشی یار چھٹ جائے! سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی تو معمول کے سوال و جواب اور کاروائی کے بعد سماعت ہفتے بھر کے لیے موخر کر دی گئی لیکن فریقین کی اس سے تسلی نہ ہوئی۔ میڈیا بریفنگ کے نام پر بعد ازاں ایک دوسرے پر دشنام اور تنقید کا بھرپور سیسشن برپا کیا گیا۔ رات گئے بھی ٹی وی ٹاک شوز میں اسی سیشن کی باتیں ہوئیں اور اسی افسانے کا غلبہ رہا ، وہ باتیں تری وہ فسانے ترے۔

 کل کلاں کو فیصلہ کیا ہوتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ سیاست میں کرپشن اور سیاست کے حمام میں سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو برے طریقے سے ڈس کریڈٹ کیا ہے۔ عدالت اگر مطمئن نہیں ہوتی تو بات کچہری سے تانگہ خالی آنے کی طرف بھی جا سکتی ہے۔یہ صورت پاکستان میں تو ہے سو ہے ، کم از کم تین مزید ممالک میں بھی کچھ اسی انداز کا سیاسی بحران برپا ہے۔ جنوبی کوریا کی صدر پارک گیون اپنی صدارت کے بد ترین بحران سے دو چار ہیں۔ گذشتہ پانچ چھ ہفتوں سے دار الحکومت سیول میں ہر ویک اینڈ پر احتجاج کرنے والوں کی تعداد اور جوش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپوزیشن ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر چکی ہے بلکہ دوسری صورت میں مواخذے کی دھمکی دے رہی ہے۔ پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو تو صدر پارک جیسے تیسے ہینڈل کر لیتیں لیکن میڈیا اور ہر ہفتے سیول کی سڑکوں پر بڑھتے ہجوم نے ان کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ کو تتر بتر کر دیا ہے ۔ اس بڑھتے ہوئے عوامی غیض و غضب کے سامنے اب پہلی بار انہوں نے اپنے مستعفی ہونے کا عندیہ کچھ یوں دیا ہے کہ پارلیمنٹ ان کے بارے میں جو فیصلہ کرے وہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 1987 کے بعد کوریا کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں نے ملک کر جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ کوریا جس کی معاشی ترقی کی داستان تھی داستانوں میں، وہ چند ہی ہفتوں میں خود افسوسناک داستان بن رہا ہے۔

 سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا لیکن پھر یوں ہوا کہ کسی بد خواہ نے یہ بجلی عوام پر گرائی کہ ان کی صدر کے قوتِ فیصلہ کا یہ عالم ہے کہ وہ ریاست کے اہم ترین امور، سیاسی تقرریوں ، حتیٰ کہ اپنی تقاریر تک میں اپنی ایک چالیس سالہ دوست سے مشاورت کرتی ہیں۔ مشاورت کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ موصوفہ اکثر اپنی وارڈ روب کے بارے میں بھی اس دوست سے مشورہ کرتی ہیں۔ یہ انکشاف عوام اور میڈیا پر بجلی بن کر گرا۔ غصہ یہ تھا کہ ہم نے ووٹ دے کر انھیں صدر کے منصب پر فائز کیا کہ وہ ریاست کے حساس فیصلے کریں، رازداری کے حلف کی پاسداری کریں لیکن یہ کیا کہ وہ اتنی وہمی اور کمزور قوت فیصلہ کی حامل نکلیں کہ ریاست کے کلاسیفائیڈ کاغذات ایک غیر متعلقہ شخص کو دکھاتی رہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کی دوست خاتون جو مقامی مذہبی فرقے شنتو کی پیروکار ہیں کے بارے میں انکشاف ہوا کہ انہوں نے صدر سے دوستی کا بھر پور مالی فائدہ اٹھایا۔ اپنی ایک فاوئڈیشن کے لیے بڑے بڑے کاروباری اداروں سے بھتہ اور چندہ وصول کرتی رہیں۔ صدر کے دو سیکریٹریز بھی حراست میں ہیں۔ کوریا میں سیاست، کاروبار اور حکومت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ یہ ساتھ اپنے اندر کئی مشکوک کہانیاں کو جنم دیتا رہا۔ جمہوریت مضبوط ہوئی ہے تو اب کرپشن پر گرفت بھی مضبوط ہو رہی ہے۔ کوریا کی صدر کا بچنا محال نظر آرہا ہے۔ اس سارے عمل میں ایک امر قابل غور ہے کہ ریاست کے ادارے پبلک پراسیکیوٹر نے تمام تر دباﺅ کے با وجود مسلسل تفتیش کی، قابل دست دراندازی ثبوت بھی اکٹھے کیے، صدر کی مفرور دوست خاتون کو جرمنی سے ڈھونڈ نکالا اور گرفتار کر کے ملک میں لے آئے۔ چند دنوں کی بات ہے، معاملہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔

سیاست اور کرپشن کی ایک اور غضب کہانی ملائشیا میں بھی اپنا جوبن دکھا رہی ہے۔ 2009 میں اس وقت کے وزیر اعظم نجیب رزاق نے ملایشیا کو علاقے کا مالیاتی مرکز بنانے کے لیے ایک ریاستی فنڈ 1MBD  کے نام سے قائم کیا۔ 2015 میں پہلی بار یہ خبر سامنے آئی کہ یہ ادارہ کئی بنکوں کو اربوں ڈالر کی بر وقت ادائیگی میں ناکام رہا۔ اس کے بعد ایک نیوز اسٹوری وال اسٹریٹ جنرل میں چھپی تو تہلکہ مچ گیا۔ خبر کے مطابق اس ریاستی فند سے پراسرار طریقے سے سات سو ملین ڈالرز وزیر اعظم نجیب رزاق کے ذاتی اکاﺅنٹ میں جا کر آسودہ حال ہو گئے ہیں۔ اس خبر نے ملک کے اندر اور باہر تہلکہ مچا دیا۔ بات چل نکلی تو پتہ چلا کہ کئی ملکوں کے کئی ادارے اس بہتی گنگا میں اشنان کرتے پائے گئے۔ امریکی ادارے ایف بی آئی نے تحقیقات کے بعد اندازاہ لگایا کہ خورد برد کا حجم ساڑھے تین ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ بلکہ ایف بی آئی نے اسے ملائشین عوام کے ساتھ فراڈ سے تعبیر کیا۔ انہوں نے اپنے اتحادی ملک کے وزیر اعظم کا نام براہ راست نہیں لکھ بلکہ ملائشیا کے ایک انتہائی سینئیر آفیشل کہہ کر ذکر کیا۔ سنگا پور نے اپنے ہاں اسی سلسلے میں ایک سوس بنک کی برانچ کو منی لانڈرنگ کے الزام میں بند کرنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔ عوام سڑکوں پر بھی احتجاج کر چکی۔ اپوزیشن وزیر اعظم کے استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن وزیر اعظم نجیب رزاق اسے دشمنوں کی اڑائی ہوئی ہوائی کہہ رہے ہیں۔ وزیراعظم کے ایک سوتیلے بیٹے اور اس کے ایک قریبی دوست کا نام اس اسکینڈل میں مرکزی کرداروں کے طور پر ہے۔ سیاست میں کرپشن کی یہ کہانی آگے چل کر کیا رخ اختیار کرتی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت تو ملک بھی احتجاج کی زد میں ہے اور اس اسکینڈل نے دنیا میں ملائشیا کا امیج بھی گہنا دیا ہے۔

سیاست میں کرپشن نے ایک اور سربراہ حکومت کر زچ کر رکھا ہے۔ جنوبی افریقہ کے صدر زوما۔ جنوبی افریقہ میں کرپشن کی داستانیں اور کلچر بہت عام ہے۔ صدر زوما پر کل ملا کر 783 کرپشن الزامات ہیں لیکن آفرین ہے ان پر، وہ ان الزامات کے باوجود حکومت پر گرفت مضبوط رکھے ہوئے ہیں۔ ان الزامات میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آبائی گھر کی تزئین و آرائش اور سیکورٹی پر حکومتی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا۔ تحقیقات ہوئیں، الزام ثابت ہوا اور عدالت نے انہیں یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا۔ اب وہ قسطوں میں یہ رقم واپس کر رہے ہیں۔ تین بھارتی نژاد گپتا برادز کے ساتھ ان کے میل ملاپ اور ان کا چند وزرا کے انتخاب پر اثرانداز ہونے کا الزام بھی صدر کے گلے پڑا ہوا ہے، یہ تینوں بھائی کان کنی کے کاروبار میں چھائے ہوئے ہیں۔ صدر زوما اپنی دوسری مدت 2019 تک آرام سے پوری کر لیتے لیکن صدر کی ذاتی مقبولیت اور بد انتظامی کی وجہ سے ان کی حکومتی پارٹی کو حال ہی میں ہونے والے علاقائی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ، اس پر ان کی پارٹی کے اندر سے احتجاج کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ اپوزیشن پہلے ہی استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ عددی قلت کے باوجود اپوزیشن ان کے مواخذے کے دھمکی بھی دے رہی ہے۔ صدر زوما ان سارے الزامات کو دشمن کی ہوائی بتا کر جان چھڑا رہے ہیں لیکن ہر گذرتے دن ان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔

ایک محاورے کے مطابق طاقت اپنے ساتھ کرپشن لاتی ہے لیکن بہت زیادہ طاقت بہت زیادہ کرپشن کا باعث بھی بنتی ہے۔ سیاست میں کرپشن ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہے لیکن وہاں قانون کی گرفت اور اداروں کا عمل دخل کرپشن کو محدود رکھنے میں معاون رہتا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے ابھی اس قدر مظبوط نہیں ہو سکے کہ اقتدار کی اندھی طاقت کے سامنے بند باندھ سکیں۔ ان چند مثالوں کے علاوہ دنیا بھر میں بے شمار ممالک میں عجب سیاست نے کرپشن کی غضب کہانیاں جنم دی ہیں۔ البتہ تبدیلی یہ آ رہی ہے کہ بیشتر ممالک میں کرپشن پر برداشت کا چلن اب کم ہو رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں بیشتر پارٹیوں پر کرپشن کے الزامات رہے ہیں ۔ احتساب کی روایت بھی صرف انتقام تک رہی۔ احتساب کا عمل بے لاگ اور ریاستی معمول نہ بن سکا۔ امید رکھنی چاہیے کہ اعلیٰ عدالت میں پانامہ لیکس کیس اپنے بطن سے کچھ ایسی روایت اور چلن پیدا کر جائے کہ سیاست اور کرپشن کی سانجھ ختم ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments