ملک نیمروز کی فوج کے عقیدے کو پرکھا جاتا ہے


\"medieval-war-battle-3w\"

ملک نیمروز کے وزیر مذہبی امور سفر میں تھے کہ وقت نماز ہو گیا۔ سڑک کے کنارے ایک میدان میں انہوں نے چند افراد کو صفیں باندھے دیکھا تو ان کی طرف گئے۔ علم ہوا کہ فوجیوں کا ایک کیمپ ہے جو کہ نماز باجماعت کی نیت باندھے کھڑا ہے۔ وہ بھی چپ چاپ ان میں شامل ہو گئے۔ ان کو حیرت ہوئی کہ چند نمازیوں نے ناف پر ہاتھ باندھے ہوئے تھے، چند نے سینے پر اور چند ہاتھ چھوڑ کر نماز ادا کرتے بھی دکھائی دیے۔ ان کو شدید صدمہ ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ امام نے ان کے مسلک کے مطابق ہاتھ نہیں باندھے تھے۔ وزیرِ عالی شان نے الگ ہو کر دوبارہ نماز ادا کی۔

اگلے دن وہ بادشاہ سلامت کے پاس پہنچے اور ان کو مطلع کیا کہ اس طرح تو ملک نیم روز کے عوام کے مذہبی جذبات شدید مجروح ہو رہے ہیں کہ کی فوج میں مذہب و مسلک کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بادشاہ سلامت نے وزیر دفاع سے پوچھا کہ ملک نیم روز کی فوج میں مذہبی پیشوا مقرر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔ وزیر دفاع نے بتایا کہ فوجی روایت یہی ہے کہ خواہ سپاہیوں کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو، وہ ایک ہی امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں۔ فوجی ایک دوسرے کے ساتھ جینے مرنے کی تربیت لیتے ہیں اور ان میں آپسی بھائی چارے کا رشتہ خونی رشتے سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ وہ وہ ایک ساتھ لڑتے مرتے وقت مذہب و مسلک کی پروا نہیں کرتے۔ فوج کا کام مادر وطن کو دشمنوں سے محفوظ رکھنا ہے اور اسے فرقہ بندی کا شکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ سنتے ہی دربار میں موجود درباری علما نے شدید احتجاج کیا اور بادشاہ پر واضح کیا کہ وہ اپنے اپنے ایمان پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

\"medieval-war-battle-1\"

دربار میں موجود ہر مسلک چاہتا تھا کہ فوج میں صرف اسی کے مسلک کے امام کا تقرر کیا جائے اور دوسرے مسلک کے فوجی اسی کے پیچھے نماز ادا کریں۔ فساد ہو گیا۔ آخر ہوئے بادشاہ سلامت نے شاہی فرمان جاری کیا کہ ملک کے ہر مذہب و مسلک کے پیشوا کا ہر فوجی یونٹ میں تقرر کیا جائے گا۔

شاہی فرمان لے کر ہرکارہ چھاؤنی پہنچا اور شاہی حکم کی تعمیل کرا دی گئی۔ اگلے ہفتے سپہ سالار دربار میں آن موجود ہوا۔ معلوم ہوا کہ بعض یونٹوں میں سپاہیوں سے زیادہ تعداد اماموں کی ہو گئی ہے۔ الجھن پیدا ہو گئی کہ کیا کیا جائے۔ آخر درباری علما نے اس مسئلے کا حل پیش کیا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر ملک نیم روز کی فوج کی تنظیمِ نو کی جائے اور ہر یونٹ میں صرف ایک ہی مسلک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے سپاہی بھرتی کیے جائیں۔ اس طرح ہر یونٹ کا ایک ہی امام ہو گا۔ اس تجویز کو ہر جانب سے سراہا گیا۔

\"medieval-war-battle-2\"مسلک کی بنیاد پر فوج کی تنظیم نو کی گئی تو اب یہ الجھن کھڑی ہو گئی کہ ایک جرنیل کے نیچے مختلف مذاہب و مسالک کے یونٹ اکٹھے ہو گئے تھے۔ جو سپاہی ایک مختلف مسلک کے امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کو برا جاننے لگے تھے، وہ ایک مخالف مسلک یا مذہب کے افسر کے پیچھے جنگ کیسے لڑ سکتے تھے؟ فیصلہ ہوا کہ فوجی کمان کو بھی مسالک کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا۔ یوں تقریباً نصف درجن مسالک کی بنیاد پر چھے سپہ سالار بن گئے۔ مزید تین سپہ سالار اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے دستوں کے تھے۔ تو اب فوج کے واحد مشترکہ سپہ سالار کی بجائے نو الگ الگ سپہ سالار اپنی اپنی مذہبی فوج کی کمان کرنے لگے۔

چند دن بعد ایک مسلک کا مذہبی تہوار آیا تو اس کے دستوں کے اماموں کی مخالف مسلک کے اماموں سے لفظی جنگ چھڑ گئی۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر اماموں کی جنگ، مسلح فوجی دستوں کی جنگ میں تبدیل ہو گئی اور کافی کشت و خون ہوا۔ ملک نیمروز میں خانہ جنگی کا سماں دیکھ کر اس کے ازلی دشمن ملک نے حملہ کر دیا۔ اب سپاہ نیم روز کے جن دستوں پر دشمن حملہ کرتا، اس کے مخالف مسلک والے اس کی مدد کرنے سے انکاری ہوتے بلکہ خوشی مناتے کہ ہمارے دینی مخالف صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو رہے ہیں۔ دشمن ایک ایک کر کے فوجی دستوں کو مارنے لگا۔

\"medieval-war-battle-4\"

اب دشمن سے آخری معرکہ درپیش تھا جس کے بعد ملک نیم روز صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔ ملک نیمروز کے بادشاہ نے نو کے نو سپہ سالاروں کو برطرف کیا، اور فوج کو پرانے طریقہ کار کے مطابق منظم کرتے ہوئے یونٹ کو مسلک کی بنیاد پر کھڑا کرنے کو ترک کر دیا۔ ہر یونٹ میں ہر مذہب و مسلک کے فوجی شامل کر دیے گئے جن کا دوبارہ ایک ہی امام مقرر کیا گیا۔ بادشاہ نے مذہب و مسلک سے بالاتر ہو کر اہلیت کی بنیاد پر فوجی افسران کی تقرری کی اور دشمن سے مقابلے کے لئے اپنی کمان میں یک مٹھ فوج کو لے کر لڑائی کے لئے نکلا اور دشمن کو شکست فاش دی۔

دشمن پر فتح پا کر بادشاہ نے دربار لگایا، اور ملک نیمروز کے وزیر مذہبی امور کو اس کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے کہا کہ ’فوج کا کام ملک کا دفاع ہے اور اسے اسی حساب سے منظم کیا جائے گا۔ عبادت سپاہیوں کا ذاتی معاملہ ہے۔ ایک نااہل فوجی افسر کو اس بنیاد پر ایک اہل اور قابل فوجی افسر پر ترجیح نہیں دی جائے گی کہ اس کا مسلک ہمیں پسند ہے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم اپنا دفاع کمزور کرنے کا باعث بنیں گے۔ اگر باقی معاشرے کی طرح اب فوج کو بھی مسلکی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا اور سپاہیوں کو اہلیت کی بجائے عقیدے کی بنیاد پر پرکھا جانے لگا، تو پھر ہمارے مقدر میں غلامی کے سوا کچھ نہ ہوگا‘۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments