کیا ہم ذہنی معذور ہیں؟


قدرت کے کارخانے میں ناکارہ کچھ نہیں ہے۔ اس نے بے سبب یوں ہی نہیں کائنات میں ہر شے بنا دی۔ اس نے بڑی محبت سے ہر شے ہر زرہ خوبصورت بنایا ہے۔ ہر ایک کا اپنا کشش کا دائرہ ہے جو ایک مدار میں گردش کرتا ہے۔ حسن کا میرے نزدیک یہ معیار ہے جو آنکھوں کو بھلا لگے اور دل اس کی گواہی دے بس وہ خوبصورت ہے۔

مگر ہمارے ہاں حسن کا معیار ہی کچھ اور مانا جاتا ہے۔ بہترین برانڈ کے کپڑے پہنے برانڈ کی گھڑی پرفیوم اور میک اپ کے ڈھیروں لوازمات لو جی ہم ہو گئے حسین۔ یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے شرط یہ ہے آپ کے پاس ڈھیروں پیسہ ہو جو آپ کو پر کشش بنا دے۔

اس چکاچوند میں ہم نے قدرتی حسن کو فراموش کر دیا ہے اور بہت کم اپنا اصل چہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو وہم ستاتے ہیں ہائے میں خوبصورتی کے پیمانے پر پورا نہیں اترنا میرے نقوش تیکھے نہیں ہیں میرے نین نشیلے نہیں ہیں میں تو بہت بدصورت ہوں محبت سے بنائے حسن کی بے قدری ہماری رگوں میں سرایت کر گئی ہے۔ لیکن یہ ہی لوازمات کے بعد خود کو حسین امتزاج کا پیکر سمجھ لینا۔ ارے یہ کہاں کا انصاف ہے یار۔

سفر کی غرض سے میں بس کے انتظار میں تھی۔ مگر اس کے آنے میں تاخیر ہو گئی۔ تو وہاں کافی دیر رکنا پڑا۔ اس دوران کچھ ایسے لوگ دیکھنے کو ملے کے میرے دل سے شکر ادا ہوا میں بہت خوبصورت ہوں۔ مکمل ہوں۔ اس محبت والے نے مجھ میں کوئی کمی نہیں رکھی ہے اس بات کا شدت سے احساس ہوا۔

ایک کم عمر لڑکا جس کا ایک پاؤں پولیو کی نظر ہو چکا تھا اور ایک ہاتھ بھی۔ جس کی وجہ سے اس کی چال مکمل بدل چکی تھی۔ وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے سڑکوں کی خاک چھان رہا تھا۔ تو ایک دیکھنے میں معزز شخص اس کی مدد کے بجائے اس کا مذاق اڑانے لگا۔ وہ خاموشی سے آگے چلا گیا مگر اس لمحے مجھے وہ شخص ذہنی معذور لگا اور وہ ایک خوبصورت انسان جو روٹی کی تلاش میں نکلا محنت کش جس کے پاؤں چلنے میں ہر ممکن رکاوٹ ڈال رہے تھے مگر وہ ہمت نہیں ہار رہا تھا۔

ابھی دل اس کے ملال میں تھا۔ کہ ایک اور وجود نظر آیا جس کی آنکھیں اس کا ساتھ نہیں دے رہیں تھیں۔ مگر وہ محنت کش کام کر رہا تھا نظر کی بینائی نہ ہونے کے برابر تھی اس کا ثبوت اس آنکھوں کا پھیر اور چال کی لڑکھڑاہٹ تھی۔ مگر وہ کھانے کے برتن ادھر سے ادھر پہنچا رہا تھا اس دوران ایک شخص سے ٹھوکر لگی اور وہ اس پر غصہ کرنے لگا اندھے ہو کیا نظر نہیں آتا اس وقت اس کے چہرے پہ ایک سایہ لہرا گیا۔ مگر وہ خاموشی سے برتن اٹھانے لگا اور وہ شخص سنائے چلا جا رہا تھا اس لمحے وہ شخص مجھے نابینا لگا۔ جو اس معصوم کو دیکھ کر بھی اس کا حال نہیں جان پایا۔ اور وہ خاموش وجود کو خدا نے صبر کی خوبصورتی تحفے میں دی تھی۔ ایسے انسان کو خاص ظرف دیتا ہے جو مکمل وجود میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

ایسے ہی ایک کتاب کے مطالعے کے دوران ایک کردار سے آشنائی ہوئی۔ جو پاؤں کی معذوری کے ساتھ ذہنی طور پر بھی اپاہج تھی۔ اور اس احساس کم تری کا شکار ہو کر دنیا سے چل بسی۔ یہ کردار ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر پاتے ہیں۔ اور کچھ اس سے لڑ کر زندگی کی سختی کا سامنا کرنے کی ٹھان کر نکلتے ہیں اور ان کے رستے کی رکاوٹ ہمارے رویے بنتے ہیں۔

کیا ادھر ہمیں سوچ کو مثبت رکھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی کچھ تو گنجائش نکل سکتی ہے ناں؟ ارے یار خود کو کمتر نہ سمجھو اس نے بڑی محبت سے آپ کو بہت خوبصورت بنایا ہے۔ اس کا شکر کرو تم رنگوں کی دیکھ سکتے ہو۔ قدموں سے پہاڑ کی چوٹی سر کر سکتے ہو۔ بس اپنی قدر سیکھ جاؤ اور اگر کسی میں ذرا سی کمی ہے تو اسے ویسے قبول کرو اور عزت دو۔ ہو سکتا ہے اس کے ذمے ایسا کام ہو جو خود کو مکمل کہنے والے نہ کر سکتے ہوں۔

ایسی ذہنی معذور سے بچ جاؤ جو کسی کو تکلیف دے اور آپ کی بھی بے سکونی کا سبب بنے۔ اور خود کو بناوٹ کا اتنا عادی نہ کرو کہ حقیقت نظر آ نا بند ہو جائے۔ خود کو قبول کرنا سیکھو۔ اپنا احترام خود کریں گے تو ہی کو مقام ملے گا۔ اور محنت سے دوستی ہو جائے تو کام میں دشواری آنے کے باوجود بھی آپ ناکارہ نہیں رہتے ہیں بس ذرا سی سوچ کی تبدیلی آپ کو ذہنی معذوری سے بچا سکتی ہے۔

اور ایک سوال چھوڑ رہی ہوں اس کا جواب آپ اپنے اندر تلاش کریں کیا آپ ان میں سے کسی ذہنی معذوری کا شکار تو آپ تو نہیں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).