لندن: پنجابی برادری میں ذہنی صحت کا مسئلہ


ذہنی بیماری

ذہنی صحت کے لیے مدد حاصل کرنا کبھی بھی آسان نہیں تھا لیکن لندن میں مقیم پنجابی برادری کا کہنا اس کے ساتھ شرمندگی کا جو احساس منسلک ہے اس کی وجہ سے ان کے لیے اس کا حصول مزید مشکل ہو گيا ہے۔

کلیئر کوچ کے بانی ڈاکٹر راکیش رانا کا کہنا ہے کہ جو ‘دماغی پریشانیوں’ کا شکار ہیں انھیں اکثر اہل خانہ پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دماغی صحت سے متعلق تعلیم کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ اس پر بات کرنا باعث شرم یا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا: ‘ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار افراد کی مدد کے لیے جنوبی ایشیا کی برادری میں اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے، خواہ وہ بیداری مذہبی یا برادری کے رہنماؤں، سکولوں اور کنبے کے ذریعہ کیوں نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس: بیماری کے خوف سے کیسے نمٹیں؟

’لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی ذہنی مسئلہ ہے تو آپ پاگل ہیں‘

کوئی نفسیاتی مریض کیسے بنتا ہے؟

‘دوسرے معاملات کی طرح ذہنی صحت کے تمام معاملات پر بھی کھل کر بات کرنے اور اسے معمول کی چیز بنانے کی ضرورت ہے۔’

ایک غیر منافع بخش ذہنی صحت کی تنظیم ‘تراکی’ کے بانی شورنجیت سنگھ نے بتایا کہ انھوں نے پنجابی برادری پر جو تحقیق کی اس میں انھیں معلوم ہوا کہ نصف سے زیادہ جواب دہندگان نے کووڈ 19 کے نتیجے میں اپنی ذہنی صحت میں مسائل کے بارے میں بتایا ہے۔

‘میں اس سے وابستہ کلنک کو آہستہ آہستہ کم ہوتا دیکھ رہا ہوں اور مجھے امید ہے کہ کمیونٹی پر مرکوز حل پر اچھی طرح سے تحقیق اور مالی اعانت کی جارہی ہے، کیوں کہ واقعتا کسی بھی کمیونٹی تک پہنچنا اب مشکل نہیں ہے۔’

یہاں لندن کے 25 سالہ آتما اپنا تجربہ بتا رہے ہیں کہ کس طرح ذہنی صحت نے ان کو متاثر کیا ہے اور انھیں اس کے متعلق جو تبصرے سننے کو ملے اس کی وجہ سے انھیں کس قدر تکلیف پہنچی اور وہ کتنے پریشان ہوئے۔

آتما لندن میں رہتے ہیں

آتما لندن میں رہتے ہیں

‘بہانے مت بناؤ، تم سننا ہی نہیں چاہتے’

برطانیہ میں مقیم ایک پنجابی کی حیثیت سے مجھے اپنی معاشرے میں ہر جگہ شرمندگی اور کلنک کا احساس نظر آتا ہے۔ خواہ وہ ٹیلیفون کالز ہوں، یوٹیوب پر سیلف ہیلپ ویڈیوز ہوں، یا پھر ہر فیملی میں موجود واٹس ایپ گروپس کے ان جھوٹے واٹس ایپ پوسٹوں میں ہوں ہر جگہ یہ نظر آتا ہے۔

ذہنی صحت کے بارے میں گفتگو کرنا آسان ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ اب بھی کلنک منسلک ہے جو کہ پرانی نسلون سے چلا آ رہا ہے۔ اپنے گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہمیشہ یہ سننے کو ملتا ہے کہ بڑے بہتر جانتے ہیں۔

بچپن سے مجھے بتایا گیا کہ مجھ میں ‘بوڑھی روح’ ہے۔ میرے خیال میں بڑے اور ہمارے ہم عمر کے حساب سے یہ ایک تعریف ہے، اعزاز کی بات ہے کہ مجھ میں اپنی عمر سے زیادہ والی بات ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ ایک تعریف ہے۔

لیکن مجھے احساس ہوا کہ ایسا نہیں تھا کہ میں اپنے ساتھیوں سے زیادہ سمجھدار تھا۔ بات یہ تھی کہ میں ان کی بہ نسبت اندرونی طور پر زیادہ پریشان تھا اور یہ بات ظاہر ہونے لگی تھی۔

‘ظالمانہ مرکب’

مجھے لگتا ہے کہ میں ہمیشہ سے ہی ذہنی صحت کے مسائل کا شکار رہا ہوں۔ برطانیہ میں پیدا ہونے کے بعد بچپن میں ہی امریکہ منتقل ہوا جہاں مجھے اپنے گھر جیسا محسوس ہوا۔

پھر برطانیہ واپس آنے پر مجھے شدت سے گھر کی یاد ستانے لگی۔ کسی ایسے مقام کی عدم موجودگی میں جسے میں اپنا گھر کہہ سکوں مجھ میں ایک قسم کا اکیلاپن پیدا ہونے لگا۔

جب میں نوعمر تھا تو میری پریشانی یہ تھی کہ میں اپنی نسلی، روحانی اور تخلیقی شناخت کے درمیان پھنسا ہوا تھا کیونکہ میرا معاشرہ اور میری ثقافت مجھ سے کچھ اور ہی چاہتے تھے۔

میری ذہنی صحت پچھلے دو برس سے ایک غیر مستحکم سطح پر رہی ہے۔ اور اگر میں یہ کہوں کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب وہ مجھ پر نہ چھایا ہو تو میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں گا۔ اور اس چیز نے بغیر جدوجہد کے مجھے کسی کام کو کرنے کی صلاحیت کو کم کیا ہے۔

ان پچھلے دو برسوں میں تشویش لاحق رہی اور اس کے ساتھ ڈپریشن جڑ گیا۔ یہ ظالمانہ امتزاج ہیں۔ آپ کا ایک رخ ہمیشہ چوکس اور خوف زدہ رہتا ہے جبکہ دوسرا سب چیزوں اور تجربات سے بے حس ہوتا ہے۔

آتما کہتے ہیں کہ وہ اس سے لڑنے کے لیے شعر کہتے ہیں

آتما کہتے ہیں کہ وہ اس سے لڑنے کے لیے شعر کہتے ہیں

افسردگی کے پردے کو چیر کر کم چیزیں مجھ تک آتی ہیں لیکن جب وہ آتی ہیں تو میں ان لمحوں کو جذب کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اور یہی چیزیں تاریک ترین اوقات میں میری مدد کرتے ہیں اور طوفان میں مجھے عارضی پناہ دیتے ہیں۔

میرے ایک قریبی دوست نے کہا کہ میں ‘دوسروں کی صحبت میں سب سے زیادہ بحال رہتا ہوں’۔ اور وہ غلط نہیں ہے۔ مجھے خود کو ریچارج کرنے کے لیے کبھی کبھی تنہائی کی ضرورت ہے لیکن جب میں اپنے دوستوں اور کنبہ کے ساتھ ہوتا ہوں تو مجھے زیادہ اچھا، محفوظ اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔ وہ میرے لیے ایک پناہ گاہ ہیں اور مجھے اس طرح محسوس کرنے کے لیے دونوں حصوں کی ضرورت ہے۔

کووڈ کے زمانے میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے کے لیے لندن سے باہر منتقل ہونے نے میری پناہ گاہ کے نصف کو مجھ سے دور کر دیا اور اس کا ایسا سخت اثر ہوگا میں نے سوچا نہیں تھا۔

میری پریشانی اور بڑھ گئی ہے، مجھ پر زیادہ بار گھبراہٹ کے حملے ہوتے ہیں۔ افسردگی کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتی، لیکن اپنے دوستوں سے دور رہنے کی سبب پیدا ہونے والی تنہائی مزید بڑھ گئی ہے جسے کبھی کبھی میسج یا پھر شاذ و نادر فیس ٹائم کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

‘اس تاریکی کو دور کرو’

یہ پہلے کے مقابلے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے اور غیر یقینی صورتحال کی اضافی پرت میرے لیے صورتحال کو مزید خوفناک بنا رہی ہے۔ میں اس مستقبل کے لیے پر امید کیسے ہو سکتا ہوں جسے دیکھ نہیں سکتا۔

علاج بہت مہنگا ہے اور اس حقیقت کا سامنا کرنا مزید خوفناک ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ غلط ہے۔ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آپ ٹھیک ہوجائیں گے۔ یہ خوفناک ہے۔ یہ بے چینی سے دو چار لوگوں کے خوف میں مزید اضافہ کرتا ہے۔

اس دوران میں صرف کوشش کرتا رہتا ہوں۔ خود کو ان حالات سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو میری پریشانی کو متحرک کرتے ہیں۔ میں آس پاس کے دیہی علاقوں میں دور تک پیدل نکل جاتا ہوں اور اور اپنے پسندیدہ نغمے سنتا ہوں۔

میں شاعری کرتا ہوں جو 14 سال کی عمر سے ہی میری ذہنی صحت کی پریشانیوں سے نمٹنے کا ایک ذریعہ رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس نے مجھے میرے احسال سے کہیں زیادہ بچایا ہے۔ میں گیمز کھیلتا ہوں، میں نقل اتارتا ہوں، میں اسکرپٹ اور مختصر کہانیاں لکھتا ہوں۔ میں یہ یقینی بنانے کے لیے تمام چیزین کرتا ہوں کہ میں خود نہیں ہوں، کیوں کہ میں خود کا سامنا کرنے اور میرے اندر چھائی تاریکی کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

میرے خیال سے ہمارے معاشرے میں شامل اس کلنک کے ساتھ جو بات زیادہ مایوس کن ہے وہ سماج میں پیوستہ منافقت ہے کہ ایک ہی وقت جب ہم پنجابی کاشتکار برادریوں میں خودکشی کی شرح میں اضافے کی سرخیاں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ‘ذہنی صحت ایک مسئلہ ہے جس کے لیے ہمیں زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے’ اور اسی کے ساتھ ہم اپنے گھر کے کسی آدمی کو سزا دیتے ہیں جب وہ یہ کہتا ہے کہ وہ اس چیخ پکار اور بے عزتی کو برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ اس سے ان میں خوف و اضطراب پیدا ہوتا اور ان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔

میں نے اپنے ایک بڑے عزیز کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ‘بہانے مت بناؤ، تم سننا ہی نہیں چاہتے۔’ وہ مجھ سے بحث کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو میں وہاں سے نکل آیا کیونکہ میں اپنا حواس کھونے والا تھا۔’

جس کے بارے میں آپ کا یہ خیال ہو کہ وہ غیر مشروط طور پر آپ کو چاہتا ہے اس سے اس طرح کی بات سننا ایسا ہے جیسے اس نے ایک بیلچہ کالی گندگی آپ پر پھینک دی ہے اور وہ آپ کو اس گہرائی میں مزید دھنسا دیتا ہے جو ذہنی صحت کے مسائل نے اپ کے اندر پیدا کی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp