وضاحتوں پر وضاحتیں، آخر کیوں؟


گزشتہ دوتین دہائیوں سے قوم سخت اذیت کا شکار ہے کہ آخر پاکستان میں کتنے پاکستان ہیں اور ہر پاکستان کتنا آزاد و خود مختار ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی یہ دعویٰ کر رہا ہوتا ہے میں ہی کل پاکستان ہوں اور پھر کچھ ہی دیر یا دن بعد پاکستان کے کسی ادارے کے سامنے کہنے والا بے بسی کی تصویر بنا نظر آ رہا ہوتا ہے۔ پاکستان کے ادارے تو پھر ادارے ہیں اور اپنا اپنا دائرہ عمل بھی رکھتے ہیں یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ مختلف مافیائیں اس حد تک خود مختار اور طاقتور ہو چکی ہیں کہ ان کے سامنے حکومت ہی نہیں، طاقتور ادارے تک بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔

عالم یہ ہے کہ اگر حکومت عوام کی سہولت کے لئے پٹرول جیسی چیز سستی کرکے عوام کی اشک شوئی کرنا چاہے تو پٹرول پمپ بند کر دیے جاتے ہیں اور ڈپوز اپنی سپلائی روک لیتے ہیں۔ ان کے اس غیر قانونی عمل پر حکومت کے نوٹسوں کا ذرہ برابر بھی اثر نہیں ہوتا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ چینی، چاول اور آٹا مافیا ذخیرہ اندوزی پر اتر آئیں تو پورا پاکستان ان کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر ان اشیا کو بازار میں لانے کے لئے کتنی ہی خوشامد کیوں نہ کرے، مجال ہے کہ وہ ان اشیا کو مارکیٹ میں لے آئیں۔

ان کے سامنے خود حکومت اور ادارے اتنے بے اختیار دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے گوداموں میں پڑی لاکھوں ٹن چینی، چاول اور آٹے کو ہاتھ بھی نہیں لگا پاتے اور نہ ہی ان کے کارخانوں کو بحق سرکار ضبط کر سکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر حکومت خود ساختہ بڑھی ہوئی قیمت میں چند روپوں کی کمی کا حکم بھی دے تو قیمتیں کم کرنے کی بجائے مزید بڑھا کر حکمتی احکامات کا مزید مذاق اڑا دیا جاتا ہے۔

ایک جانب ہر پاکستان کی خود مختاری کا یہ عالم ہے تو دوسری جانب حکومت کی جانب سے ہر دوسرے تیسرے دن یہ اعلان سامنے آتا ہے کہ ”افواج پاکستان اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہمارے ساتھ ہے“ ۔ تازہ ترین خبر کے مطابق جمعہ کو وزیر اعظم کی زیرصدارت پارٹی قیادت اور ترجمانوں کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی صورتحال پر حکومتی حکمت عملی طے کی گئی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ قوم اداروں کے ساتھ کھڑی ہے، سول ملٹری تعلقات میں کوئی تناؤ نہیں۔

حکومت اور افواج پاکستان ایک پیج پر ہیں یا پاکستان کے تمام ادارے ایک پیج پر ہیں، جیسی وضاحتیں دہرائے جانا ایک عرصے سے ایک ایسا معمول بن گیا ہے جس کو عوام سن سن کر عاجز آ چکے ہیں۔ ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس وضاحت کو بار بار دہرانے کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے۔ کیا تمام ادارے آئینی اور قانونی طور پر حکومتوں ہی کے تحت نہیں ہوا کرتے۔ کیا کوئی ادارہ حکومت کے احکامات سے ہٹ کر اپنا کوئی الگ عمل اختیار کر سکتا ہے اور اگر کوئی بھی ادارہ آئین و قانون سے ہٹ کر کوئی پروگرام رکھتا ہے تو کیا اس کا یہ عمل بغاوت کی زمرے میں نہیں آتا۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام ادروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یا حکومت کے قدم سے قدم ملا کر چلا کرتے ہیں۔ حکومت آمرانہ ہو یا جمہوری، عوام ہمیشہ حکومت کے ساتھ ہوا کرتے ہیں اور تمام ادارے حکومت کے تحت اپنی اپنی آئینی حدود میں اپنے فرائض ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

بار بار ایک پیج کا ذکر تو کیا جاتا ہے لیکن یہ بات پھر بھی ہمیشہ وضاحت طلب ہی رہ جاتی ہے کہ آخر وہ پیج ہے کس کا۔ آیا وہ پیج عوام کی رائے سے منتخب ہونے والی حکومت کا ہے یا کسی ادارے کا۔ یہ اور بہت سارے اسی قسم کے سوالات ہیں جو پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں ایک خلفشار برپا کیے ہوئے ہیں۔

ایک اور اذیتناک بات اس دوران یہ بھی ہوئی ہے کہ ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے کہ جو شخص، گروہ یا پارٹی بھی افواج پاکستان کے خلاف کوئی ایسی بات کرے گی جس کی وجہ سے اس کی ساکھ متاثر ہو تو اس کے خلاف کارروائی کرکے اسے قید بھی کیا جائے گا اور جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کی افواج نہ صرف پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہیں بلکہ ریاست کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ ان کی ساکھ کو نقصان پہچانا ریاست کے لئے نہایت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن آج سے 73 برس قبل تک کسی بھی ایسے قانون کے بغیر کیا ہماری پاک افواج قابل احترام نہیں رہیں۔

کیا عوام نے کسی بھی مارشل کے خلاف کبھی سڑکوں پر آنا پسند کیا اور کیا ملک کے طول و عرض میں جاری کسی بھی قسم کے آپریشنوں کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند کی؟ یہ سب باتیں اس بات کی ضمانت ہیں کہ عوام اپنی افواج سے والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ اس دوران پاک افواج کی جانب سے ایسا کیا ہو گیا کہ عوام میں ان کے احترام میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی۔ ایسا ہر گز بھی نہیں کہ لوگوں کی نظر میں ان کی عزت و احترام میں کوئی کمی ہوئی ہو البتہ ایسے اقدامات نے ان کے احترام کو ضرور مشکوک بنا دیا ہے۔

بار بار کی وضاحتیں، بیانات اور خوامخواہ کی قانون سازیاں حکومتی کمزوریوں کی غمازیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں اس لئے ایک جانب تو حکومت کو وضاحتوں در وضاحتوں اور فضول قانون سازیوں سے گزیر کرنا چاہیے تو دوسری جانب اپنی کمزوریوں پر جتنی جلد ممکن ہو قابو پالینا چاہیے ورنہ ریاست سے بڑھ کر کوئی بھی چیز مقدم و مقدس نہیں ہوا کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).