بچھڑنے کا غم


یہ زمانہ طالبعلمی کی بات ہے جب سفر کے لیے بس اور ویگن منزل تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتے تھے مگر زیادہ تر ہم لوگ سڑکوں کو ناپنا اپنا مشغلہ سمجھتے تھے۔ کسی سواری کا کبھی اچھے وقت کی طرح انتظار نہ کیا اور قدموں کو اپنی قسمت کا پہیہ بنا لیتے۔ لیکن چلنے میں شاید بڑے بھائی صاحب زیادہ چیمپئین تھے جن کا مقابلہ کرنا میرے لیے چیلنج ہی رہتا تھا۔ ان کی یہ بات بہت خوبصورت لگتی کہ پیدل چلنے سے صرف فاصلے طے نہیں ہوتے بلکہ ہمیں نئے راستے ملتے ہیں اور نئے لوگوں کو ملنے، دیکھنے، سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اردگرد ہونے والے واقعات لوگوں کی حرکات گفتگو اور اشارے بہت کچھ بتاتے ہیں۔

میں پاس سے گزرتی گاڑیوں کو دیکھتا تھا مگر میرے لیے سب سے زیادہ توجہ کا باعث سواری موٹر سائیکل ہی تھی کیونکہ یہ کسی بھی دور میں نوجوانوں کی اولین ترجیح رہی ہے، ہمیں تو پرانی اور پھٹیچر قسم کی موٹر سائیکل بھی بہت بھلی لگتی تھیں۔

بڑے خواب دیکھتے اور یہ سوتے میں بلکہ چلتے پھرتے کھلی آنکھوں کے خواب تھے جس میں خود کو ایک شاہانہ انداز میں دو پہیوں پر سوار فراٹے بھرتے اور پیدل چلنے والوں کو تیزی سے پیچھے چھوڑتے۔

اس خواب کو ایک عارضی دور کے لیے تعبیر ملی اور بڑے بھائی صاحب نے ایک سیکنڈ ہینڈ کاواساکی خریدی، اگر میں یادداشت پر زور دوں تو مجھے یہ سواری چلانے کی ترغیب میٹرک کے امتحانات کے بعد چھٹیوں میں بڑے ماموں کے بیٹے نے دی اور موٹرسائیکل ڈرائیونگ کا ایک نشہ تھا جسے بھائی کی موٹرسائیکل آنے پر دوبالا کرنے کا موقع ملا۔ اب تو جیسے موج ہوگئی، تین چار سال بعد وہ بھی گئی۔ اب وہ دور تھا جب حقیقی معنوں میں جوانی میں قدم رکھا اور کالج کی بہاریں ہماری منتظر تھیں ویگنوں اور بسوں کا سفر بحال ہوا جسے آج بھی یاد کرتے ہیں کسی طرح بعض اوقات طویل قامت ہونے کے باوجود ویگنوں میں جھک کر کھڑے ہوتے اور لمبی مسافت اسی حالت رکوع میں طے کرتے۔

عملی زندگی کا آغاز ہوا جس میں ایک دور ایسا بھی تھا جس میں صبح اٹھ کر سرکاری دفتر جاتے جہاں سے فراغت کے بعد سیدھے اخبار میں جاکر صحافت کی طبع آزمائی کی جاتی۔ اس سب میں زیادہ پیدل سفر ہوتا، یوں اچانک قسمت نے یاوری کی اور وہ بھی براہ راست ہماری نہیں بلکہ والد صاحب کی، ان کا انعامی بانڈ نکلا جس میں سے انہوں نے ما بدولت کو ایک نیا زیرو میٹر موٹرسائیکل ہونڈا سی ڈی 70 خرید کر دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جسے میں زندگی کے چند بے انتہا خوشی کے لمحات میں شمار کرتا ہوں۔

دس جنوری انیس سو بانوے کا دن آج بھی میری نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ یہ میرا خواب ضرور ہوگا مگر حقیقت پسندانہ طور پر اس کو خریدنے کا خیال اکثر پریشان کردیتا تھا قسمت نے پہلی بار اپنی موجودگی کا نہ صرف احساس دلایا بلکہ اپنے معنی سمجھنے کا ایک موقع دیا۔ ہم نے بھی اس پر رشک کرنے کے ساتھ ساتھ شکر ادا کیا۔

بس جناب اب تو ہر آنے والا دن بڑا خوبصورت لگتا اور بڑے فخر سے نئے ساتھی کی ہمراہی میں آفس جاتے مجھے چند دنوں میں ہی اس دوست سے بڑی انسیت ہوگئی، رات اٹھ اٹھ کر اسے دیکھتا میں صبح اپنی والدہ کو ان کے سکول چھوڑنے جاتا۔

ایک دن میں اپنے کولیگ کے ساتھ واپس گھر آتے سڑک کے کنارے کیچڑ سے پھسل کر گر گیا۔ مجھے چوٹ آئی مگر میری ساری توجہ اس بات پر تھی کہ کہیں میری دوست کو کچھ ہوا تو نہیں۔ بڑے بھائی کے ساتھ بھی آتے ہوئے ایک بار حادثے کا شکار ہوئے اس موقع پر بھی مجھے چوٹیں آئیں۔ لیکن میرا دھیان دوست پر لگا رہا۔

اب تو ایسے ہوگیا تھا جیسے یہ موٹرسائیکل میرے مستقل ساتھی کی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ کیونکہ ہر جگہ جانے کے لیے اس کی رفاقت ہوتی اور جیسے اس کے بغیر میں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ اس نے پیدل چلنے کی عادت سے محروم کر دیا یہ الگ بات ہے کہ جب اس کو کوئی مجبوری (خرابی) درپیش ہوتی تو میں اس کے ساتھ پیدل چلتا۔ اس وقت خیال آتا کہ قدرت مجھے یہ احساس دلا رہی ہو کہ تم پیدل چلنا بھول گئے۔

میری شادی کے بعد دوست کو ایک اور ہمراہی مل گیا۔ اس نے ہمیں شہر کی سڑکوں پر خوب سیر کرائی۔ میری اہلیہ بھی جلد ہی اس سے مانوس ہوگئی اور پھر میرا بیٹا ہوا جس نے حقیقی معنوں میں باپ کے نقش قدم پر چلتے اس سے دوستی کی۔ وہ بھی میری طرح اس کا خیال رکھتا اسے صاف کرنے میں مدد کرتا لیکن میرے آفس سے واپسی پر جب رات کے اڑھائی یا تین بجے ہوتے وہ یہی اصرار کرتا کہ اسے بھی سیر کرائی جائے میں اگر تھکا بھی ہوتا مگر دوست فوری میرے بیٹے کو سیر کرانے کے لیے تیار ہوجاتا پھر ہم تینوں اور کبھی چاروں یعنی میری بیوی بھی شہر کا گشت لگاتے۔

زندگی میں اپنی غفلت کا بے شمار مواقع پر احساس ہوا جس میں کچھ ایسے کام تھے جنہیں بروقت نہ کرنے سے کئی نقصان ہوئے اس میں اپنے دوست کا خیال رکھنا جیسے وقت پر آئل تبدیل کرنا یا اس کی سروس کرانا بھول جاتا، جس کے نتیجے میں اسے تکلیف اٹھانا پڑتی اور پھر مکینک کا ہاتھ لگتا۔ مرمت کراتے ہوئے بڑا دکھ ہوتا جیسے میں نے غفلت برتی ہو اور میرا بیٹا بیمار ہوگیا پھر اسے ڈاکٹر پر دوا کے لیے لایا ہوں۔

بیٹے کو پہلی بار سکول لے جانے میں بھی دوست آگے آگے تھا جیسے اس روز وہ بڑا خوش ہو، وہ میری ہر تکلیف دکھ اور پریشانی کے لمحات میں ساتھ دیتا اس کا یہی ساتھ تھا جو مجھے کہیں پہنچنے اور اپنا کام بروقت مکمل کرنے میں تعاون کرتا۔ میری موٹرسائیکل درحقیقت قسمت کی دیوی تھی اس لیے اچھے برے حالات بھی اسی کے ساتھ تھے۔ جنہیں میں قدرت کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرتا رہا۔ میری زندگی کے سب سے دکھی اور تکلیف دہ لمحے میں جہاں قدرت مجھ سے میری سب سے قیمتی سے چھین کر لے جارہی تھی اس وقت شاید قدرت کا یہی فیصلہ تھا کہ دوست بھی میرے ساتھ نہ تھی۔

میری والدہ ہسپتال میں تھیں دو راتوں تک جاگنے کے بعد جب میں گھر آکر صبح سویا ابھی گہری نیند میں گیا تھا کہ کسی نے اٹھایا وہ شاید یہ اطلاع دینا چاہ رہا تھا کہ لوری سنا کر سلانے والی ہستی تمہیں چھوڑ کر ابدی نیند سو گئی ہے، ہسپتال جانے کے لیے دوست بھی نہیں تھی اس وقت محسوس ہوا کہ قدرت چاہیے تو ایک ہی لمحے میں ہر عزیز بلکہ عزیز ترین ہستیاں بھی آپ سے دور کر سکتی ہے۔ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد میں بہت افسردہ رہتا اور تنہائی میں روتا لیکن اس سب کے بارے میں دوست کو ہی علم تھا۔

اس غم کے بعد منجھلے بھائی کی دنیا سے رخصت کا وقت آیا تو ہسپتال میں پھر تنہا تھا یہ قدرت ہی کا فیصلہ تھا وہاں ایک خونی رشتہ اپنے دنیاوی ناتے توڑ گیا اور میرا ساتھی اتفاقاً پھر میرے ہمراہ نہیں تھا۔ جہاں اپنے دو قیمتی رشتوں سے محرومی پر دلبرداشتہ تھا وہیں ایسے لگتا تھا کہ دوست بھی میری رفاقت کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک گیا یا تنگ آ گیا تھا۔ اس کی ناراضی میرے لیے تکلیف کا باعث بنتی جارہی تھی راستے میں اچانک بند ہوجانے کا عمل اب خطرناک صورت اختیار کرتا جا رہا تھا دو مرتبہ بڑے حادثے سے بچ گیا ایک دن ایسے ہی ایک بس کو اوپر آتے دیکھ کر خوف آیا اور پھر غصے میں دوست کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ دوبارہ اس کو ہاتھ نہیں لگایا۔ کسی نے کہا دو مرتبہ حادثے سے بچ گئے قسمت ہر بار ساتھ نہیں دیتی۔ انہی دنوں گاڑی کی خریداری کا سنجیدگی سے سوچا اور پھر وہ دن آ گیا جب میں نے ایک جاننے والے کو اپنا دوست چند ہزار کے عوض سونپ دیا۔

یہ لمحات بھی مجھے کبھی نہیں بھولیں گے جب میں اس کی رفاقت سے دستبردار ہونے کے بعد سائیکل سٹینڈ میں کھڑا دیکھتا رہا۔ وہ جیسے شکوہ کررہی ہو کہ میرا ساتھ نبھانے کا یہ صلہ دیا کہ پلٹ کر نگاہ بھی نہ ڈالی اور کسی دوسرے کے سپرد کر دیا۔ جاتے جاتے کم از کم ہاتھ ہی لگا دیتے۔

میری آنکھ بھر آئی ایک بار پھر اپنے کسی کے جانے کا دکھ ہوا۔ لیکن کبھی کبھار دیکھ کر تسلی ہوجاتی تھی کہ چلو کسی دوسرے کا ساتھ نبھا رہی ہے۔ میرے لیے یہ نمبر 7769 جہاں ہمیشہ توجہ کا مرکز رہتا بلکہ ایک مضبوط رشتے کی علامت کے طور پر بھی یاد آتا۔ کسی بھی گاڑی پر یہ نمبر دیکھ کر نگاہیں وہیں ٹک جاتی ہیں۔ یہ نمبر نہ جانے مجھے کہاں لے جاتا ہے۔

آہ 7769

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar