جنسی جرائم، ہمارا سماج اور قانون


ہمارے سماج کی فرسٹریشن کا یہ حال ہے کہ ہم لوگ لباس، تصویر، مجسمے، جانور، کسی بھی اوبجیکٹ سے جنسی حظ اٹھانے کا طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ باتوں سے، سنجیدہ بحث سے بھی ہم ڈارک ہیومر کے نام پہ اس فرسٹریشن کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک اے لیول کے سٹوڈنٹ سے بات ہو رہی تھی اس نے ریپ کا مذاق اڑایا اور جب میں نے ٹوکا تو اس نے اس بات پہ اسرار کیا یہ تو محض ڈارک ہیومر ہے۔ بات یہ ہے کہ ایسا نہیں کہ یہ فرسٹریشن صرف انہی لوگوں میں پائی جاتی ہے جنہیں جنسی آزادی نہیں ملتی بلکہ یہ ان لوگوں میں بھی موجود ہے جو اوپن ریلیشن میں ہوتے ہیں۔

اس کا تعلق کسی ایک سماجی فیکٹر سے نہیں ہے بہت سے عوامل ہیں جو اس کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بات بھی قطعاً غلط ہے کہ اب ایسا ہونے لگا ہے یہ ہمیشہ سے معاشرے میں موجود ہے۔ حال میں ہونے والے پے در پے واقعات کے بعد میرا حوصلہ نہیں تھا کہ میں فیس بک کو دیکھ بھی سکوں۔ اس معاملے کو جیسے ڈسکس کیا گیا اور اس پہ جس طرح لوگوں کا ری ایکٹ آیا وہ انتہائی خوف ناک ہے۔ آپ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ یہ سب اس معاشرے میں ہو رہا ہے اور قانون اس قدر بے اثر ہے کہ مجرم ایسا جرم کرتے ہوئے ڈرتا تک نہیں۔

پھر معاشرہ کس قسم کا ہے جو جرم کو جرم تسلیم نہیں کر رہا بلکہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کے اسے جسٹیفائی کر رہا ہے۔ اس گھناونے جرم کی کوئی قانون سازی ہوئی ہی نہیں اور سزاوں کے بحث ہو رہی کہ کہ یہ ہونی چاہیے وہ نہیں ہونی چاہیے۔ میں لرز جاتی ہوں کہ کس قسم کے لوگوں میں رہ رہی ہوں۔ جنہیں کسی کے مال، جان اور عزت کی حرمت کا پاس ہی نہیں ہے۔ ایک ریپ سروائیور اس معاشرے میں بھی نہیں جی سکتا وہ اس کا خاندان اس سے جڑے لوگ اس معاشرے کے لیے ایک تماشے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

مجھ جیسے لوگ معاملات پہ بیٹھ کے نفسیاتی باریک بینیاں نکالتے ہیں اب مجھے سمجھ آ رہا ہے یہ یہ ذہنی معاملہ نہیں ہے ہم ایک ایسی سر زمین پہ رہ رہے ہیں جہاں ہر طاقتور کمزور کا فائدہ اٹھاتا ہے اور ہر طرح سے اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے پھر وہ چاہے کسی کی جان ہو مال ہو یا عزت اس کو پرواہ نہیں ہوتی۔ ہمیں انسانیت سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم سیکھ لیں گے کہ انسان کس قدر اہم ہے تو پھر ہی سمجھ سکیں گے کہ ہمیں ایک دوسرے کو عزت کیسے دینا ہے۔

ریپ، جنسی ہراسمنٹ، ڈاکہ، چوری، قتل مذاق نہیں ہیں ساری دنیا انہیں جرائم مانتی ہے اور ان پہ قانون سازی کرتی ہے۔ اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کر کے اپنی گندگی کو کارپٹ کے نیچے نہیں ڈھانپتی۔ مجرم اور مجرم ذہنیت لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں یہ نہیں کہا جاتا کہ حضور آپ نے اپنی ہوس کے لیے کسی کا ریپ کیا تو درست ہے آئیے آپ کی کونسلنگ کرتے ہیں، اسے جرم کی سزا ہی دی جاتی ہے کیونکہ یہ جرم ایک دوسرے انسان کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ ہمارے لوگ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ بنیادی طور پہ آپ انسان کی حیثیت کو ڈینائی کر رہے ہیں۔ لیکن نہ تو سمجھتے ہیں نہ ہی ماننے کو تیار ہیں

جہاں قانون کے رکھوالے یہ بتا رہے ہوں کہ ریپ ہونا جرم نہیں ہے بلکہ ویکٹم ہی ریپ کی وجہ ہے وہاں کیسا انصاف اور کیسا قانون۔ یہ ایک بیمار ذہنیت کا اظہار ہے جس میں اپنی کوتاہی کی پردہ پوشی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے معاشروں کے لوگ جنہیں انصاف نہیں ملتا وہ کسی مکافات عمل کے منتظر رہتے ہیں یا یہ سوچنے پہ مجبور ہوتے ہیں کہ کوئی بیرونی نادیدہ طاقت انہیں انصاف دلوائے گی۔ اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔

ریپ کا مجرم پورا معاشرہ ہے۔ اس کی سوچ پھر اگر ریپ سروائیور ہے تو اس سے ہونے والا سلوک مختار مائی کی مثال سامنے ہے جسے اٹھارہ برس گزرنے کے باوجود انصاف نہیں ملا۔ پھر یہ تصور کہ ویکٹم عزت سے محروم ہو گیا ہے۔ اس کے خاندان اور اس سے جڑے سب لوگوں پہ سماجی دباؤ یہ سب عوامل حالات کو اور بھی برا کر دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ایک مردہ معاشرہ ہے جسے انسان کی زندگی کی اہمیت کا احساس ہے نہ انسانی حقوق کا ایک واقعہ ہوتا ہے اس پہ شور ہوتا ہے لوگ نکلتے ہیں احتجاج کرتے ہیں۔

سزا دینے نہ دینے پہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کے ڈسکشن کرتے ہیں اور سب بھول جاتے ہیں۔ پھر ایک اور واقعہ اور پھر یہی قصہ لیکن نہ کوئی عملی اقدامات ہوتے ہیں نہ ہی وحشت کا یہ رقص رکتا ہے۔ اسی معاشرے کی خواتین، بچے، نوجوان خود کو اپنے ساتھیوں اردگرد کے لوگوں سے غیر محفوظ سمجھتے ہیں انجانے خوف کا شکار رہتے ہیں اس پہ کوئی نہیں سوچتا کہ کس طرح کی بے یقینی معاشرے میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اس معاملے پہ لوجیکل ہونے کی ضرورت ہے۔

باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے یہ بحث اس کے بعد ہی ہو سکتی ہے کہ سزا کی نوعیت کیا ہو۔ اس سے پہلے گلہ پھاڑ کی تقاریر کرنے، فضول بحث کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایک غیر محفوظ سماج میں آپ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ ٹھوس بنیادوں پہ کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے ایسے معاشرے میں دباؤ کے تحت جذباتی اور وقتی فیصلے ہوتے ہیں جو بے اثر رہتے ہیں۔ ، ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).