فرصت


سلام سناؤ کیسے ہو، کئی دنوں سے تم سے بات کرنے کا من تھا مگر فرصت ہے کہ ملتی ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ تم یاد نہیں ہو مگر اب حالات اور اپنی ذات کے گرداب میں ایسا الجھ گیا ہوں کہ تمہیں فرصت سے یاد کرنے کی فرصت نہیں۔ یوں تو حالات نارمل ہو رہے ہیں مگر جانتے ہو اب حالات کے نارمل ہونے سے بھی ڈر لگتا ہے، اس ابنارمل زندگی کی عادت سی ہو گئی ہے اب تو یہی نارمل ہے۔ عجب حالات و واقعات ہیں باہر بھیڑیوں کی حکومت ہے جو چیر پھاڑ کرنے کو ہر لمحہ تیار ہیں، کوئی محفوظ نہیں سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔

۔ ۔ ہر کوئی ڈر رہا ہے۔ سب گونگے بہرے ہیں بس اندھا دھند بھاگ رہے ہیں کس لیے اور کیوں کسی کو معلوم نہیں، ہم بھی دیکھا دیکھی بھاگ رہے ہیں، کہاں جانا ہے، کس سے ملنا کچھ معلوم نہیں۔ ۔ ۔ پاس ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بہت دور ہیں۔ ساتھ رہتے ہوئے بھی بالکل تنہا ہیں۔ روز اک حادثہ ہوتا ہے کوئی مرتا ہے اور کوئی مار دیا جاتا ہے۔ کہیں آگ لگتی اور کہیں لگا دی جاتی ہے۔ اب تو عادت سی ہوگئی ہے اس لیے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔

۔ ۔ اندھوں کا راج ہے کانوں کی حکومت ہے اور گونگی عوام ہے سب عام ہے۔ سب دیکھتے رہتے ہیں مگر بولتے نہیں، بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اور جو بولتا ہے اسے کوئی سنتا ہی نہیں وہ چیختا چلاتا رہتا ہے، پکارتا ہے، آوازیں دیتا ہے مگر سب کان بند کیے ہوئے ہیں۔ سبھی کو اصلاح کرنی ہے مگر دوسروں کی۔ ہر کوئی بے بس ہے مجبور ہے، جانے کس کا قصور ہے۔ بس اک آس ہے کب سے ساتھ ہے، دلاسے دیتی رہتی ہے۔ میں تو ہر روز مایوسیوں کے وار سے تھک کر سو جاتا ہوں مگر یہ آس ہر روز اٹھاتی ہے، مایوسی کے بستر سے لا کھڑا کرتی ہے، امید کی یونیفارم پہناتی ہے، دلاسوں کے حوالے کر کے پھر سے نئے سفر پر آمادہ کرتی ہے اور میں بے وقوف روز اس کی بات مان کر نکل پڑتا ہوں اس کے جھانسے میں آ جاتا ہوں۔ ساری دنیا اسی کے دم سے تو قائم آباد ہے اس کا تو بس ایک ہی کہنا ہے کہ جب تک سانس ہے تب تک آس ہے، اسی کے بھروسے ہی یہ جیون ہے۔

آخر میں امن محبت کا پیغام ہے اور بس یہی کہنا ہے ہوا میں گھٹن ہے، سانس لینا بھی دشوار ہے مگر پھر بھی جینے کی آس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).