آؤ اسلامی ”ایڈ“ بنائیں!


ہمارا ملک ”پیارا پیارا، اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے۔ لیکن بد خواہان اسلام و پاکستان نے کچھ دہائیاں قبل، ایک سازش کے تحت نصابوں اور کتابوں میں صرف ”پاکستان“ ڈال کر ہمیں یعنی موجودہ نسل کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔ اور تو اور میڈیا آیا تو اس نے بھی ایک کسر نہ چھوڑی اور ایسے ایسے گانے، فلمیں، اشتہار بنائے کہ ہم گمراہی کے دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ مرحوم جنید جمشید جیسے روشن ضمیر انسان بھی اس سازش کا شکار ہو گئے تھے اور قومی نغمے کے نام پر ”دل دل پاکستان، جان جان پاکستان“ گا لیا۔

زندگی نے انہیں مہلت نہ دی ورنہ وہ ضرور اپنی اس غلطی کا ازالہ کرنے کے لئے نیا اصلی اور اسلامی قومی نغمہ ”دل دل اسلامی جمہوریہ پاکستان جان جان اسلامی جمہوریہ پاکستان“ تیار کر کے دشمنان اسلام و پاکستان کے عزائم کو مٹی میں ملا دیتے (اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے ) ۔

جنید جمشید مرحوم کو تو مہلت نہ ملی لیکن بھلا ہو انصار عباسی صاحب کا، انہوں نے اس سازش کو بے نقاب کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ انصار صاحب نہ خود سوتے ہیں اور نا ہی قوم کو خواب غفلت سونے دیتے۔ چوبیس گھنٹے فحاشی پر نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔ یوں انہوں نے فحاشی کو یک ٹک دیکھنے کا بیڑا اٹھا رکھے ہیں۔ بڑا جگرا ہے ان کا۔ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

حال ہی میں ان کی ایک ٹویٹ نے دشمنان ملک و ملت میں تہلکہ مچا دیا۔ اسلام و پاکستان دشمنوں کی سازش تو دیکھیں سازش! بسکٹ بیچنے کے لئے بھی مجرا۔ توبہ توبہ! میں تو اس فحش اشتہار کا متن بھی نہیں بتا سکتا۔ کیسی کیسی بے حیائی، کیسی کیسی فحاشی کے مناظر تھے، اس اشتہار میں۔ انصار عباسی نے بھی کسی کی پروا نہیں کی۔ دو ٹوک کہہ دیا، بھائی! اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ غیر اسلامی اور فحش چیزیں نہیں چلیں گی۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، یہاں اسلامی طریقے سے بسکٹ بیچو۔

میں نے سوچا میڈیا کا طالب علم ہوں۔ پیارے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری ہوں۔ انصار عباسی صاحب کا فین بھی ہوں۔ اس لئے کچھ فرض تو میرا بھی بنتا ہے کہ اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالوں، تو میں نے اپنا حصہ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

کیوں کہ ملک کے معاشی حالات بہت خراب ہیں، اس لئے بسکٹ بیچنا بھی ضروری ہے۔ اور بیچنے کے لئے اشتہار بنانا بھی۔ لیکن اشتہار فحش تو بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایسا ہونا چاہیے جس میں ہماری عظیم روایات و تاریخ کا عکس جھلکتا ہو۔ بسکٹ کے اشتہار کے لئے کچھ آئیڈیے پیش خدمت ہیں :

مغلیہ دربار کی طرز کا سیٹ۔ اورنگزیب عالمگیر تخت نشیں ہیں۔ ہاتھ سے ٹوپیاں بنانے میں مصروف۔ اچانک سپاہی زنجیروں میں جکڑے دارا شکوہ کو پیش کرتے ہیں۔ بادشاہ سلامت ٹوپیوں کا سامان ایک طرف رکھ کر۔ دارا شکوہ کو لے جا کر سزا دینے اشارہ کرتے ہیں اور سپاہی ایک طرف لے جا کر بادشاہ کے باغی بھائی کا سر قلم کر دیتے ہیں۔ دربار میں ظل سبحانی، ظل الہی کی واہ وا کی صدائیں گونجنا شروع ہو جاتی ہیں اور بادشاہ سلامت فرط جذبات سے چیخ اٹھیں، ”گالا لاؤ“ اور پورا دربار گالا کے مزے اڑانے لگے۔

اگر یہ آئیڈیا تھوڑا پرانا یا اچھا نہ لگے تو ایک اور بھی ہے :

ترکی کی عثمانی سلطنت کی شاندار عمارتوں سے ہوتے ہوئے کیمرا سلطان سلیمان کے حرم سرائے میں داخل ہو، جہاں حورم سلطان ٹہلتے ہوئے کسی چیز کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہیں۔ اچانک دروازہ کھلتا ہے۔ کنیز دوڑتی ہوئی آ کر حورم سلطان قدموں میں کر کر بتانے لگتی ہے، سلطان سلیمان حترم نے اپنے جانشین شہزادہ مصطفیٰ کے قتل کا فرمان جاری کر دیا ہے۔ حورم سلطان کی بے انتہا خوشی کا اظہار ان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ ہونے لگتا ہے۔ اتنے میں وہ زیر لب فرماتی ہیں، ”گالا“ کنیزیں قطار در قطار طشتریوں پر بسکٹ سجائے نمودار ہوں۔

ایک اور آئیڈیا:

اسلامی لباس میں ملبوس ایک نوجوان افغانی نا بھی ہو، لیکن حلیہ ویسا ہی پو۔ سر پر پگڑی، لیکن چہرے پر کامیابی کی چمک جیسے اسے دونوں جہان ملنے والے ہوں، لیکن آنکھوں میں ہلکا سا خوف، الجھے ہوئے بال، پسینے میں شرابور جسم، سخت گرمی میں جیکٹ پہنے دوڑتا ہوا بازار کی طرف جا رہا ہے۔ بازار کے بیچ میں پہنچ کر اپنے جیکٹ سے ایک تار کھینچتے ہوئے زوردار نعرہ لگاتا ہے، ”گالا ا ا ا ا۔“

آئیڈیے اور بھی ہیں۔ جیسے بہت سے بچے آپس میں کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف ان کی چپلیں پڑی ہیں۔ وہیں تھوڑی دور کچھ چھوٹے بچے انتہائی عقیدت سے بیٹھے کچھ پڑھ رہے ہیں۔ ان کے بالکل سامنے آلتی پالتی مارے ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا ہے، جو بچوں کو دیکھ کر اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ پھیرنے لگتا ہے اور ہلکے ہلکے مسکراتے ہوئے، وہ جیسے خیالوں میں کھو کر رال ٹپکاتے ہوئے، بڑبڑانے لگتا ہے، ”گالا۔ گالا۔ گالا۔“

انصار صاحب درست فرماتے ہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ، روایات، اقدار کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہماری فلموں، ڈراموں اور اشتہاروں کو ان کا امین ہونا چاہیے۔ باقی میرا وعدہ ہے، پیارے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی نہیں چلنے دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).