وقت سیاست ہے آیا
جیالے کہتے ہیں کہ ہماری حکومت کے دوران ہم پر افتخار چوھدری کو چڑھا دیا گیا جن کے تھلے آنے کی وجہ سے ہم قوم کی مناسب طریقے سے کر نہ سکے۔ ظاہر ہے خدمت کا ہی ذکر کر رہے ہونگے۔ جیالے جب اپنی پارٹی سکیڑ کر سندھ تک محدود ہوئے بیٹھے ہیں تو رینجرز نے انہیں نشانے پر رکھ لیا ہے۔
جیالوں کا کہنا ہے کہ یہ فوج نہیں ہے جو سندھ میں آپریشن کر رہی ہے یہ نوازشریف ہیں جنہوں نے ہماری مٹی پلید کرا رکھی ہے رینجرز کے ہاتھوں۔ اگر معاملہ کرپشن ہوتا تو یہی رینجرز باقی پاکستان خاص کر پنجاب میں بھی آپریشن کرتے دکھائ دیتے اگر یہ نوازشریف کی بجائے فوج ہوتی تو بھی ہر جگہ ایک سا حسن سلوک ہو رہا ہوتا ہمارے ساتھ ن لیگ کی بھی مالش برابر ہو رہی ہوتی۔
نوازشریف نے وزیرداخلہ چن کر ایسا لگا رکھا ہے جس کو جیالوں سے جنم جنم کا بیر ہے۔ اس کی شکایت لگائی جائے تو میاں صاحب آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ نثار میری وی نہیں سن دا (یعنی میری بھی نہیں سنتا) کوئی ہور کم اے تے دسو (کوئی اور کام ہے تو بتاؤ)۔ کپتان کے خلاف نوازشریف کی حمائت کرنے سے پہلے جیالوں نے اعتزاز احسن کے ذریعے چوھدری نثار سے اپنا حساب برابر کیا تھا۔ اس میں فنکاری یہ کی گئ تھی کہ چوھدری نثار کو جواب تک نہ دینے دیا گیا اس اچانک حملے کا۔
چوھدری نثار نے سارے بدلے سندھ حکومت سے لئے۔ مکمل خاموشی کے ساتھ اس کی جڑوں میں گرم پانی ڈالتے رہے۔ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ ہوا تو ان دنوں چوھدری نثار شدید علیل تھے اور ڈٓاکٹروں نے انہیں بیڈ ریسٹ بتا رکھا تھا جس کی وجہ سے وہ منظر سے غائب تھے۔ چوھدری نثار کو شدید کمر درد اس وجہ سے ہو رہا تھا کہ پنڈی کا میئر اور چیرمین ضلع کونسل شیخ ارسلان اور شاہین خان بنتے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اب درد کو آدھا سا آرام آتا دکھائی دے رہا کہ شائد ان دونوں میں سے کوئی ایک کسی عہدے پر لگ ہی جائے خیر۔
جیالوں نے موقع مناسب دیکھ کر چڑھائی ہی کر دی چوھدری نثار پر لیکن اس کا جواب یوں ملا کہ ایک تو پی پی کا حکومت کے ساتھ مک مکا مان لیا چوھدری نثار نے ساتھ ہی عزیر بلوچ کی گرفتاری ظاہر ہو گئی۔ جیالوں پر بجلی ہی نہیں گری انہیں سکتہ ہی ہو گیا۔ جیالوں کے حالات اتنے مزاحیہ ہو گئے کہ رینجرز کی تعیناتی میں توسیع کے لئے قائم علی شاہ نے چوھدری نثار سے ٹیلی فون پر بات چیت کر کے صوبائی حکومت کے بہت اچھے بچے ہونے کا بلاوجہ تاثر قائم کیا۔
پی پی اور ن لیگ جب بھی آمنے سامنے آتے ہیں، آپس میں گھول شروع کرتے ہیں تو نقصان پی ٹی آئی کا ہوتا ہے وہ اکھاڑے سے باہر نکلتی دکھائ دیتی ہے۔ نجکاری کے عمل کو ہو کر رہنا ہے جس کے لئے پی پی کو میدان میں آنا ہی پڑے گا کہ اس کی سیاست قومی اداروں میں نوکریاں دینے کے گرد گھومتی ہے یہ اس کا حلقہ اثر ہے۔ پی آئ اے کی نجکاری کی اسے ہر صورت مخالفت کرنی ہے اس لئے بھی کرنی ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر ایسا نہ کر کے وہ اپنا ووٹ بنک کیوں خراب کرے گی اس میں اس کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے صرف فائدہ ہے۔
کپتان کے ساتھیوں میں اہم ترین وزیراعلی کے پی کے ہیں ۔ پرویز خٹک حلقے کی سیاست کے ایک ماہر کھلاڑی کی حیثیت سے یہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اب کارکردگی دکھانے کا انکے پاس ٹائم نہیں ہے اور اپنے حلقہ انتخاب کے پاس کچھ لے کر جانے کو زیادہ کچھ ہے بھی نہیں ایسے میں انہوں نے اپنے اندر سے ایک انقلابی سا قوم پرست نکال کر پیش کر دیا ہے جس کو وہ ووٹر کھینچنے کے لئے استعمال کرینگے۔انکی یہ حکمت عملی پی ٹی آئی کو فائدہ دے سکتی ہے۔
کپتان نے صورتحال کا بروقت اندازہ لگا لیا ہے (اللہ ہی جانے کس طرح لگایا ہے) کہ اب جیالے سرگرم ہوں گے۔ پی پی اور ن لیگ کا ڈھیلا ڈھالا اتحاد اب قائم نہیں رہے گا تو ایسے میں کپتان اگر آگے نہ آیا تو اس کو سیاسی نقصان ہو گا۔ اس لئے کپتان نے کنٹینیر کو پھر رگڑ کر چمکانے کا حکم دیا ہے احتجاج کے لئے کمر باندھ لی ہے۔
کپتان نے آج کل ایک طلسمی انگوٹھی بھی پہن رکھی ہے اسے دھرنے کے دنوں کی یاد بھی ستاتی ہے کس شان سے اس کی برات لاہور سے روانہ ہوئ تھی کتنے دن ڈی چوک میں بھنگڑے ڈالے جاتے رہے تھے ہر چینل پر وہی ہوتا تھا۔ اگر اس نئے احتجاج کا نتیجہ بھی ایک اور شادی کی صورت نکلے تو ہرگز برا نہیں ہے۔ سیاست کو بھی فائدہ ہی ہو گا۔
رولا صرف ایک ہے کہ کپتان اس بار لاہور میں احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہاں شاید اس کا احتجاج برداشت کرنا اور اس کو چلنے دینا شریف حکومت کے لئے ممکن نہ ہو تو کپتان کے معصوم ساتھیوں کو اپنی ٹکور کے لئے تیار رہنا ہو گا۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).