طالبان کی مشکل: امن مذاکرات پر جہادی گروہ منقسم


طالبان
قطر کے دارالحکومت دوحا میں 12 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات پر جہادی حلقوں اور مبصرین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

حقیقت پسند جہادی عناصر طالبان کی مدح سرائی کر رہے ہیں اور انھیں قابل تقلید مثال قرار دے رہے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کو اسلام کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ جبکہ جارحانہ سوچ والے جہادی عناصر خبردار کر رہے ہیں کہ مذاکرات کا راستہ دشوار ہے اور یہ راستہ اختیار کرنے سے طالبان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

یہ بحث اس خلیج کو ظاہر کرتی ہے جو مستقبل میں دفاعی اور عملی کارروائیوں کے فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور دونوں دھڑوں کے لوگ ان فیصلوں کو ایک سمت یا دوسری سمت موڑ سکتے ہیں۔ خاص طور پر با اثر جہادی مولویوں میں پائے جانے والے اختلاف رائے سے اقتدار کے حصول کی جدوجہد میں جارحانہ یا اعتدال پسندانہ پالیسی میں توازن کے بارے میں ان گروہوں میں جاری فکری کشمکش کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

افغان امن معاہدے کی ’سادگی‘ پیچیدگیوں کا باعث بنے گی؟

طالبان رہنما امن معاہدے کی تقریب میں مرکزِ نگاہ

وہ افغان عورت جس نے طالبان سے مذاکرات کیے

طالبان کے امن مذاکرات پر جہادیوں کے خیالات بھی معنی رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر ملکوں میں جہادی گروپ طالبان کی تقلید کرتے نظر آتے ہیں اور ان کو مثال بناتے ہوئے سیاسی مذاکرات شروع کرنے کی اپنی کوششوں کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ جہادی گروہوں کے لیے یہ ایک ایسا پرخطر راستہ ہے جو با آسانی ان کی ساکھ کو تباہ کر سکتا ہے۔

اس سال فروری میں مذاکرات کے پہلے دور کو، جس کے نتیجے میں طالبان اور امریکی قابض فوجوں کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا، متفقہ طور جہادیوں کی طرف سے سراہا گیا تھا۔ القاعدہ نے اسے مسلمانوں کے لیے ایک تاریخی فتح قرار دیا تھا گو کہ چند انتہا پسند سوچ رکھنے والوں نے اس پر بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

لیکن اب حکومت سے ہونے والے کسی بھی معاہدہ کی کیا صورت بنتی ہے اس پر زیادہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔

طالبان

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ طالبان کے سب سے بڑے حریف نام نہاد دولت اسلامیہ (آئی ایس) نے ان مذاکرات کو طالبان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور ان کو 'بکاؤ' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان کے پیچھے چلا جائے۔

اہم تحفظات

آئی ایس کے علاوہ جن کی طالبان کے بارے میں نفرت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، دیگر سخت گیر جہادیوں نے مذاکرات پر طالبان کی مذمت تو نہیں کی لیکن انھوں نے ان پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مذاکرات طالبان کو ایسے راستے پر ڈال سکتے ہیں جہاں انھیں شرعیت کے منافی سمجھوتے کرنے پڑ جائیں۔

سب سے زیادہ تشویش اس بات پر پائی جاتی ہے کہ شراکت اقتدار کا کیا طریقہ کار طے کیا جاتا ہے۔ سخت گیر عناصر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ طالبان نے ہمیشہ سے یہ موقف اختیار کیے رکھا ہے کہ امریکی سرپرستی میں قائم کابل حکومت ‘مرتد’ ہے جس کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

کسی قسم کے اتحاد یا سمجھوتے کی صورت میں جہادیوں کی نظر میں ایک جائز طاقت کے طور پر طالبان کی ساکھ تباہ ہو جائے گی۔

تنازع کی ایک اور بڑی وجہ تمام افغان شہریوں کو برابری کا درجہ دینے سے متعلق ہے۔

سخت گیر سوچ کے حامل بااثر مولوی ابو محمد المقدسی نے دوحا میں طالبان کے رہنما اور دوحا میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر اخوند سے ملاقات میں کہا کہ افغانستان میں اسلامی شرعی نظام حکومت ہونا چاہیے جہاں تمام قبائل اور ملک میں بسنے والے تمام لسانی گروہوں کے درمیان کوئی امتیاز نہ کیا جائے اور اپنی زندگیاں یکجہتی اور ہم آہنگی سے بسر کر سکیں۔

المقدسی نے کہا کہ انھیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ جس ملک میں اللہ پر ایمان رکھنے والے راسخ العقیدہ مسلمانوں اور شرعیت پر عمل نہ کرنے اور باطل قوتوں کو ماننے والوں کو کسی طرح برابری کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔

عموماً سخت گیر جہادی رہنما کو اس پر تشویش ہے کہ طالبان 20 سال کے جہاد کے بعد دنیاوی سیاسی مفاد کے لیے اپنے ہتھیار رکھ دیں گے۔

سرکردہ ناقد: المقدسی

اردن میں مقیم ابو محمد المقدسی وہ سخت گیر مذہبی شخصیت ہیں جو طالبان کے امن مذاکرات کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔

ان کے اس موقف کو القاعدہ کے کٹر حامیوں میں وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل ہے جو گاہے بگاہے اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں لیکن حقیقت پسند جہادی اس موقف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

دوحا میں مذاکرات شروع ہونے کے دوسرے دن ستمبر کی 13 تاریخ کو پیغام رسانی کی ‘ایپ’ ٹیلی گرام پر اپنے ایک پیغام میں المقدسی نے اپنی اس وارننگ کی یاد دہانی کرائی جو انھوں نے فروری میں امریکہ سے مذاکرات سے پہلے جاری کی تھی اور کہا کہ ان کی وہ وارنگ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

المقدسی نے کہا تھا کہ ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن امریکہ سے مثبت تعلقات اور اقتصادی تعاون تشویش، شکوک و شبہات اور تحفظات کو جنم دیتا ہے۔ ہم چیزوں کو چھپائیں گے نہیں اور نہ ہی یہ کہیں گے کہ یہ صرف سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں (طالبان کے) مسلمانوں کے اجتماعی اور وسیع تر مفاد کے لیے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘مجھے سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ طالبان کن شرائط پر معاہدہ کرتے ہیں۔۔۔ کیا وہ اپنے ہتھیار ڈال کر افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے میز پر آئیں گے؟ اور پھر کیا ہو گا؟ اور اس کے بعد کیا ہو گا اس پر ہمیں سب سے زیادہ تشویش ہے۔’

المقدسی کا استدلال ہے کہ اگر طالبان نے جہاد کی راہ چھوڑ دی اور اپنے ہتھیار رکھ دیے تو پھر ان کے پاس کچھ نہیں رہے گا۔

مائیک پومپیو اور طالبان رہنما

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ مسائل کس طرح حل ہوں گے۔ 'میں حیران ہوں کہ بندوق کے خوف کے بغیر صرف مذاکرات سے یہ سب کچھ کیسے ہو گا۔'

امن مذاکرات کے باوجود طالبان افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ستمبر کی 14 تاریخ کو طالبان کی سفارتی کوششوں کو رد کرتے ہوئے المقدسی نے لکھا کہ ‘یہ سب جانتے ہیں کہ جب کوئی مرتدوں اور ان کے ایجنٹوں سے مذاکرات کی دلدل میں اترتا ہے اور وہ بھی ایجنٹوں اور مرتدوں ( قطر) اور صلیبیوں (امریکہ) کی زیرِ سرپرتی تو وہ اس دلدل کی کیچڑ میں بھر جاتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ آلودگی کی بھی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کے عقائد کمزور ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگوں جب کیچڑ میں اترتے ہیں اس سے نکلنا ان کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اس صورت میں انسان کا ماضی، اس کی لمبی داڑھی، عمامہ اور جبا پھر اس کی ساکھ بحال نہیں کر سکتے۔’

بلاشبہ یہ دوسرے جہادیوں کے لیے ایک پیغام تھا جو دوحا مذاکرات میں روایتی لباس پہن کر شرکت کرنے پر طالبان کی تعریفیں کر رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے اپنے روایتی لباس میں مذاکرات کر کے اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے اور اپنی روایت پر فخر کرنے کا مظاہرہ کیا ہے۔

المقدسی نے البتہ اس بات کا اعتراف کیا کہ اب تک مذاکرات کی تفصیلات کے بارے میں انھیں علم نہیں اور وہ اس بارے میں کوئی حتمی بات اس وقت تک نہیں کہیں گے جب تک انھیں مذاکرات میں طے ہونے والی شرائط اور نکات کا مکمل طور پر علم نہیں ہو جاتا۔

اس سال جولائی میں طالبان کے ماہنامہ جریدے السمود میں مغرب میں شخصی آزادیوں کے بارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون پر المقدسی نے شدید احتجاج کیا۔ المقدسی نے اس جریدے کے مدیر سے اس مضمون کو واپس لینے اور اس کو شائع کرنے پر قارئین سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔

گزشتہ ماہ ستمبر کی 30 تاریخ کو المقدسی نے طالبان کو کویت کے امیر کی وفات پر تعزیت کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

دیگر سخت گیر عناصر

القاعدہ کے سخت گیر عناصر نے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر المقدسی کے خیالات کی تائید کی اور ان کا دفاع کیا۔

القاعدہ کے سرکردہ حامی وارث القاسم نے طالبان کے امن مذاکرات کو تذلیل قرار دیا۔ مذاکرات کی مخالفت کرنے والے ایک جلاد المرجیحا ہیں۔ ٹیلی گرام پر ایک پیغام میں 16 ستمبر کو انھوں نے المقدسی کا دفاع کیا۔ انھوں نے کہا کہ طالبان غلطیوں سے پاک نہیں ہیں اور علما کو چاہیے وہ ان کی رہنمائی کریں۔

تاحال القاعدہ اور نہ ہی خطے میں اس کے اتحادیوں نے سرکاری طور پر طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات پر کوئی تبصرہ کیا ہے گو کہ فروری میں امریکہ سے طالبان کے مذاکرات پر انھوں نے طالبان کی تعریف کی تھی اور اسے طالبان کی فتح قرار دیا تھا۔

تاہم یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ بین الافغان مذاکرات کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور فریقین کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں اور اب تک ہونے والی بات چیت کے بارے میں کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔

حیات التحریر الاشام کی تعریف

دریں اثنا جہادی قوتوں کے حامی اور طالبان کو مبارک باد دینے والے کم از کم انٹرنیٹ کی حد تک اکثریت میں ہیں۔

اس سوچ کے لوگوں میں مذہبی حکام اور شمالی شام میں با رسوخ جہادی گروہ جیسے حیات التحریر الاشام (ایچ ٹی ایس) بھی شامل ہیں۔

ایچ ٹی ایس کے سرکردہ مذہبی رہنما عبد الرحیم نے، جن کو عبد عبداللہ الشامی بھی کہا جاتا ہے، 13 ستمبر کو اپنے ایک پیغام میں طالبان کو اس جدید دور میں فخر کی علامت قرار دیا۔

طالبان کی سیاسی حکمت کی تعریف کرتے ہوئے اصل میں انھوں نے اپنے گروہ کی ان کوششوں کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جو وہ شمالی شام میں جاری تنازع کا ایک سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔

شمالی شام میں القاعدہ کے حامی عناصر ایچ ٹی ایس کی اتحاد کی کوششوں کی مخالفت کر رہے۔ ان عناصر پر طنز کرتے ہوئے عبد عبداللہ الشامی نے کہا کہ انھیں طالبان کی مثال سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ‘اتحاد اگر کامل نہ بھی ہو تب بھی بہتر ہے۔ تحفظات جو کسی کے متحدہ ہونے میں ہو سکتے وہ بہتر ہیں ان مفادات سے جو تقسیم یا انتشار میں نظر آتے ہیں۔’

ایچ ٹی ایس کے ایک سرکردہ ناقد یحییٰ الشامی نے عبد عبداللہ الشامی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایچ ٹی ایس کے مخالفین جہادی قوتوں کے اتحاد کے مخالف نہیں ہیں لیکن وہ کسی ایک گروہ کی برتری کے مخالف ہیں جس کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ قیادت کرنے کا سب سے زیادہ اہل اور قابل ہے۔

ایچ ٹی ایس کے حریف گروہ اس پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ شمالی شام میں طاقت، ہتھیاروں اور وسائل پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے اور القاعدہ اور دیگر چھوٹے گروہوں کو زبردستی جھکنے پر مجبور کر رہا ہے۔

ایچ ٹی ایس کے دیگر کرتا دھرتا لوگوں نے طالبان کو مبارک باد دی ہے۔

مذہبی رہنما مظاہر الواعظ نے کہا کہ طالبان کی مثال سب کے لیے قابل تقلید ہے اور انھیں سیاست اور جہاد کے میدان میں مشعل راہ قرار دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ طالبان نے بڑی حکمت سے بیرونی اور اندرونی قوتوں میں ایک توازن قائم کیے رکھا۔

ایچ ٹی سی کی سرکردہ شخصیت ماریا القطانی نے کہا کہ طالبان کی فتح اسلام اور مسلمانوں کی فتح اور کامیابی ہے۔

طالبان کی تعریفیں کرنے والے دیگر لوگ

شام میں دیگر بہت سے جہادی مولویوں نے طالبان کی تعریف کی ہے۔ ان میں سب سے کرشماتی شخصیت کے مالک شام میں مقیم سعودی مولوی عبداللہ المحسنی شامل ہیں۔

المحسنی نے دوحا میں طالبان کے وفد کی ایک تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ انھوں نے طالبان کی طرف سے واشگاف الفاظ میں مستقبل میں افغانستان میں شرعیت نافذ کرنے کے اعلان پر بھی ان کی تعریف کی۔

انھوں نے دیگر گروہوں پر بھی زور دیا کہ وہ طالبان سے سبق سیکھیں۔

ابو قتادا کی وارنگ

اردن میں مقیم جہادی مولوی ابو قتادا الفسطینی بتدریج مختلف معاملات میں حقیقت پسند جہادی حلقے میں چلے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ وہ طالبان کی حمایت کریں گے۔

طالبان

طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغان حکومت سے اپنے قیدیوں کی رہائی پر بات چیت کے لیے تیار ہیں

ابو قتادہ نے طالبان کی طرف سے اپنے قیدیوں کو رہا کروانے میں کامیابی کو سرہاتے ہوئے کہا کہ یہ جدید دور میں ایک تاریخی مثال ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے دوحا مذاکرات کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ابوقتادہ نے کہا کہ افغان حکومت سے شراکتِ اقتدار کے کسی معاہدے سے طالبان کی اسلامی ریاست کی امارت کے لیے ساکھ بری طرح متاثر ہو گی۔

ابوقتادہ نے کہا کہ دوحا کے مذاکرات کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔

یہ سب کچھ کیوں اہم ہے؟

القاعدہ سے وابستہ یمن اور مالی میں گروہوں نے اس سال فروری میں امریکہ سے مذاکرات پر طالبان کی تعریف کی تھی اور اسے ایک قابل تقلید مثال قرار دیا تھا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ بھی اس طرح کی حکمت عملی اپنانے پر غور کر رہی ہے جس میں فوجی دباؤ کے ساتھ ساتھ گفت و شنید کرنے پر رضا مندی کے اشارے بھی دیئے جائیں تاکہ کچھ حاصل کیا جا سکے۔

طالبان کے اقدامات سے متاثر ہو کر مالی میں القاعدہ سے منسلک گروہ جماعت النصرت السلامی ولمسلمین (جے این آئی ایم) نے مارچ میں مالی کی حکومت سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔

اطلاعات کے مطابق اکتوبر کی پانچ تاریخ کو جے این آئی ایم نے حکومت کے قیدیوں کے ایک تبادلے میں اپنے دو سو جنگجوؤں کو رہا کروا لیے جیسا کہ طالبان نے افغانستان میں کیا ہے۔

فروری میں طالبان کے امریکہ سے مذاکرات پر طالبان کی جہادیوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر تعریف کی بنا پر ایچ ٹی ایس کے حامیوں نے جہادی انتہا پسندوں پر دوھرے معیار کا الزام عائد کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور سخت گیر عناصر جنھوں نے طالبان کی سیاسی کامیابیوں پر تعریف کی تھی وہ ایچ ٹی ایس کو وہی راستہ اپنانے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

القاعدہ کے بارے میں ایک اور معاملہ طالبان کے موقف کا ہے۔

القاعدہ اور اس کے حامی اب تک باہمی اختلافات پر بات کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ طالبان نے اس معاہدے کے تحت عالمی جہادی گروہوں سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کا یقین دلایا ہے۔

افغانستان میں امریکی فوج

القاعدہ کی طرف سے اس بارے میں مکمل خاموشی اس کی پرانی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ کچھ معاملات پر بالکل نظریں بند کر لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے دوسرے اہداف حاصل کر سکیں۔ یہ القاعدہ کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ کھلے عام طالبان کو تنقید کا نشانہ بنائیں جنہوں نے ماضی میں ان کو اپنے ملک میں پناہ دی تھی۔

لیکن طالبان جن نکات پر متفق ہو گئے ہیں یا جو اقدامات کرنے پر انھیں مجبور کر دیا گیا ہے وہ القاعدہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے اور اس سے طالبان کے بارے میں جہادی شدت پسندوں کے نظریات پر اثر پڑے گا۔

طالبان کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے۔ اگر وہ سیاسی اہداف حاصل کرنے کے لیے کچھ لچک دکھاتے ہیں تاکہ وہ کچھ حاصل کر سکیں تو ان کے جہاد کرنے کے عزم اور استقلال کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ سختی سے شرعی اصولوں پر ڈٹے رہیں تاکہ جہادی ان سے خوش رہیں تو اس صورت میں دوحا مذاکرات میں مشکالات پیش آ سکتی ہیں۔

جہادی تنظیموں اور حلقوں میں جاری اس بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کس قدر مشکل صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں اور جہاد کرنے کی اپنی ساکھ بچاتے ہوئے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp