کراچی: جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا عادل اور ان کا ڈرائیور فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک


کراچی میں دیوبند مسلک کے نامورعالم اور جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا عادل اپنے ڈرائیور سمیت ایک حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔

یہ واقعہ اتوار کی شب ساڑہ سات اور آٹھ بجے کے درمیان میں پیش آیا، شاہ فیصل پولیس کے مطابق مولانا عادل کی گاڑی شاہ فیصل کالونی میں شمع شاپنگ پلازہ کے قریب رکی، جہاں موٹر سائیکل پر سوار حملہ آور نے ان پر فائرنگ کردی، جس میں مولانا عادل اور ڈرائیور مقصود زخمی ہوگئے جن میں سے مولانا عادل کو لیاقت نیشنل ہسپتال اور ڈرائیور اور جناح ہسہتال پہنچایا گیا۔

مولانا عادل زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوگئے جبکہ جناح ہسپتال حکام کا کہنا ہے کہ ڈرائیور کو مردہ حالت میں لایا گیا تھا۔

ایس پی سی ٹی ڈی راجہ عمرخطاب کا کہنا ہے کہ ایک موٹرسائیکل پرتین حملہ آوروں آئے۔

’موٹرسائیکل چلانے والے ملزم نے دو حملہ آورں کومولاناعادل کی گاڑی پیچھے اتارا اور موٹرسائیکل دوسرے روڈ پر لے جا کر کھڑی کی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ دوحملہ آوروں نے نائن ایم ایم پستول سے فائرنگ کی اور ملزمان مولانا عادل کی گاڑی کی ریکی کررہے تھے۔ حملہ آورکن راستوں سے فرارہوئے اور حملے میں ایک ہتھیاراستعال ہوا یا ایک سے زائد اس کی تفتیش جاری ہے۔‘

اس سے قبل وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو آئی جی سندھ مشتاق مہر کی جانب سے دی گئی ابتدائی رپورٹ کے مطابق جس گاڑی کو نشانہ بنایا گیا اس میں ڈاکٹر مولانا عادل، مقصود اور عمیر سوار تھے، شمع شاپنگ سینٹر پی ایس شاہ فیصل کورنگی کے پاس مولانا عادل اپنی ویگو کے ساتھ رُکے تھے اس دوران ان کا ایک ساتھی کچھ خریدنے گیا تھا۔ پولیس کو جائے وقوع سے گولیوں کے پانچ خول ملے ہیں۔

مولانا عادل کونے تھے؟

مولانا عادل جامعہ فاروقیہ کے صدر تھے، یونیورسٹی کا درجہ رکھنے والے جامعہ فاروقیہ میں عربی اور اسلامیات میں ایم اے کے علاوہ پی ایچ ڈی سطح کی تعلیم دی جاتی ہے۔

وہ اس سے قبل جامعہ فاروقیہ کے سیکریٹری جنرل کے منصب پر فائز رہے، جہاں سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا چلے گئے جہاں معارف الوحی اور علم انسان فکیلٹی سے وابستہ رہے۔

مزید پڑھیے

مفتی تقی عثمانی قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے

وہ کراچی جہاں سبیل کا شربت صرف میٹھا ہوتا تھا، شیعہ یا سنّی نہیں

مولانا عادل کے والد مولانا سلیم اللہ تھے جو دیوبند مسلک کے نامور عالم اور استاد رہے اور ایک بڑے عرصے تھے وفاق المدراس العربیہ کے صدر رہے، اس سے قبل وہ تحریک سواد اعظم کے بنیادی قائدین میں شامل تھے۔

مولانا سلیم اللہ خاں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے اور 1955 میں پاکستان آئے تھے، دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ کے مطابق مولانا سلیم اللہ کا تعلق آفریدی پٹھانوں کے خاندان ملک دین خیل سے تھا ان کے قبیلے کے کچھ افراد مظفرنگر یوپی کے قصبہ حسن پور لوہاری میں آبسے تھے۔

2017 میں والد کے انتقال کے بعد مولانا عادل ملائیشیا سے وطن واپس آگئے اور جامعہ فاروقیہ کی ذمہ داری سنبھالی۔

فرقہ وارانہ کشیدگی

ایس پی سی ٹی ڈی راجہ عمرخطاب کا کہنا ہے کہ مولانا عادل پرحملہ فرقہ واریت پھیلانے کی سازش ہے۔

کراچی میں محرم الحرام کے بعد فرقہ ورانہ کشیدگی پائی جاتی ہے، شیعہ اور دیوبند مسلک سے وابستہ افراد پر مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں، جبکہ سنّی جماعتوں کی جانب سے بڑی بڑی ریلیاں بھی نکالی گئیں تھیں۔ پیغمبر اسلام کے نواسے اور ان کے جانثاروں کے چہلم کے دو روز کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے۔

مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ باقر عباس زیدی نے مولانا عادل پر قاتلانہ حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حملہ شہر کے امن تباہ کرنے کی سازش ہے۔

اہلسنّت والجماعت پاکستان کے صدر علامہ اورنگزیب فاروقی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سمیت پاکستان کی تمام ایجنسیز 24 گھنٹے کے اندر اندر مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان کے قاتلوں کو گرفتار کرکے منظر عام پر لائے بصورت دیگر کروڑوں لوگوں کو روکنا ان کے بس کی بات نہیں۔

پی ڈی ایم اے کے جلسے سے قبل حملہ

پاکستان کی متحدہ اپوزیشن پی ڈی ایم اے نے 18 اکتوبر کو کراچی میں جلسہ عام کا اعلان کیا ہے، اس جلسے سے ایک ہفتہ قبل یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے پولیس حکام کو قاتلوں کی گرفتاری فوری عمل میں لانے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ کچھ شدت پسند شہر کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں پولیس ٹیکنالوجی کی مدد سے فوری قاتلوں تک رسائی حاصل کرے۔

کراچی میں ایک سال کے اندر حملے کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے، اس سے قبل گذشتہ سال مارچ میں دارالعلوم کورنگی کے سربراہ مفتی تقی عثمانی پر حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ محفوظ رہے لیکن دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32535 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp