گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر


کشمیر میں پانچ سال اپنے قیام کے دوران میں گلگت اور کشمیر کے دوستوں سے مل کر معلوم ہوا کہ خوبصورت وادیوں، دل کش جھیلوں، بلند پہاڑوں اور امن پسند لوگوں کی سر زمین گلگت بلتستان، تاریخی طور پر بہت سی راج گیریوں پر مشتمل تھا۔ تاریخ کے طلبا بتاتے ہیں کہ تیسری صدی عیسوی میں پلولا نامی سلطنت قائم تھی، جو کہ محققین کے نزدیک چترال، گلگت اور بلتستان پر پھیلی ہوئی تھی۔ آٹھویں صدی ہجری میں یہاں ایرانی مبلغین کے ذریعے اسلام پہنچا۔ یہ علاقہ آزاد ریاستوں پر مشتمل تھا، جہاں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر الگ الگ حکومت ہوا کرتی تھی۔ 1840 سے پہلے یہ علاقے مختلف ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔

انیسویں صدی کے وسط میں کشمیر کے ڈوگرہ راجا نے بلتستان پر حملہ کر کے، وہاں کے مسلمان راجا احمد شاہ کو شکست دی۔ اس طرح یہ خطہ ڈوگرہ راجا کے زیر تسلط آیا، لیکن پھر بھی پورا گلگت و بلتستان کبھی ریاست جموں کشمیر کا حصہ نہیں رہا۔ 1947 ء میں جب دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہندوستان کو تقسیم کیا گیا، تو ڈوگرہ راجا نے کشمیر سمیت گلگت بلتستان کو بھی ہندوستان میں شامل کر لیا، لیکن یہاں کے لوگوں نے غیرت مندی کا ثبوت دیا اور اپنی مدد آپ کے تحت آزادی کی جنگ لڑ کر، اس علاقے کو آزاد کر لیا۔ ابتدائی دور میں اس کو ریاست آزاد جمہوریہ گلگت کہا گیا، لیکن بعد میں پاکستان سے الحاق کر لیا۔

اپریل 1949 ء پاکستانی اور کشمیری سیاستدانوں کے درمیان معاہدہ کراچی ہوا، جس کے تحت گلگت بلتستان کو بھی لوگوں کی مرضی کے بغیر مسئلہ کشمیر کے ساتھ ملحق کر دیا گیا۔ مسئلہ کشمیر سے جوڑ دیا گیا۔

اگر ہم ڈوگرہ راجا کی کشمیر پہ حکومت کو نا جائز مان کر اس کے ہندستان سے الحاق کے عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں، تو اس کے گلگت بلتستان پر قبضے کو (جو کہ انگریزوں کے جاتے ہی آزاد کرا لیا گیا تھا) کیسے تسلیم کر سکتے ہیں؟

اب کسی ریاست کے حکمران کا کسی علاقے پہ قابض ہونے کا مطلب یہ تو نہیں ہوا کرتا کہ وہ قیامت تک اس کا دعویدار رہے گا۔ کیا ہم ریاست ہندستان کا حصہ نہیں تھے؟ کیا ہندوستان ملکہ برطانیہ کے زیر تسلط نہیں تھا؟ کابل بھی کشمیری ریاست کا حصہ تھا، کیا اس کے لیے بھی تحریک چلائی جائے گی؟

ریاست عوامی رائے کے احترام سے قائم ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ قیمتی انسان ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ زمین کا ٹکڑا کس کے پاس ہے اور اسے کون چلا رہا ہے۔ بس انسان کو خوش ہونا اور انسانیت زندہ رہنی چاہیے۔

میری دعا ہے کہ کشمیر آزاد ہو جائے، سری نگر کے لوگوں کو اور قربانی نہ دینا پڑے۔ وہاں کے لوگوں پر مزید مظالم ختم ہوں۔ وہاں کے انسان آزاد ہو جائیں۔ وہاں بچے مزید یتیم نہ ہوں۔ وہاں مائیں اپنے بچوں کی لاشیں مزید نہ دیکھیں۔ وہاں بوڑھے والدین کی آنکھوں کے تارے مزید لاپتا نہ ہوں۔ وہاں کے چنار پھر سے پرندوں، کوئل سے آباد ہو جائیں۔

آج ہمیں گلگت کے آزاد لوگوں کے بجائے، سری نگر والوں کی بات کرنی چاہیے، جن کو ڈوگروں کے بعد بھی ستر سال سے سخت ترین ریاستی جبر کا سامنا ہے۔ پہلے سری نگر کو تو آزاد کرنا ہو گا۔ باقی یہ آپس کی باتیں ہیں، کوئی حل نکل آئے گا۔ آپس میں لڑنے سے بہتر ہے جو اصل مسئلہ ہے اس پر توجہ دی جائے۔

گلگت الگ ملک بن جائے۔ کشمیر کا حصہ بن جائے، یا پاکستان کا صوبہ بن جائے، ہمیں بس اس بات سے سروکار ہونا چاہیے کہ کبھی ہمارے ساتھ ڈوگروں کا ظلم و ستم برداشت کرنے والا میرا گلگت کا بھائی آج آزاد فضا میں اپنی مرضی کی زندگی گزار رہا ہے۔ گلگت بلتستان کو مسئلہ بنا کر، کیوں ہم ایک پوری نسل کو جنگ و بے امنی میں تباہ ہونے دیں۔ سری نگر میں ستر سال سے ایک نسل کو تاریک راہوں میں مارتا دیکھ کر، اس ایک دکھ سے تو نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک پوری نسل کو مزید تباہی سے بچانا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).