مس شازی بنام مسمی عبدالرشید


ڈیئر عبدالرشید، سلام خلوص!

عرصے بعد تمھارا بے ہنگم جذبات سے معمور اور املا کی غلطیوں سے بھر پور مراسلہ ملا، جسے تم بڑے فخر، بلکہ ڈھٹائی سے ”محبت نامہ“ کہتے ہو۔ پڑھ کر کوئی مسرت نہیں ہوئی، بلکہ تمھاری مزید حماقتیں جان کر دھچکا پہنچا۔

رشید! خدارا، اگر خود تمھیں صحیح لکھنا نہیں آ رہا، تو کسی سے لکھوا لیا کرو۔ کم از کم مجھے تو خواندگی میں اتنا سر نہ کھپانا پڑے۔ کہتے ہیں کہ خط سے آدھی ملاقات ہو جاتی ہے، مگر تم سے یہ آدھی ملاقات اس قدر درد ناک بلکہ عبرت ناک ہوتی ہے کہ بس! میری درخواست ہے کہ اختصار نویسی اپناؤ اور خود بھی مختصر الفاظ سے اصل مدعا سمجھنے کی کوشش کیا کرو۔ میں نے لکھا تھا، ”تاریخ آنے والی ہے، اک نیا امتحان در پیش ہے، دیکھیں کیا ہوتا ہے“۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم دونوں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن میں لیکچرار اردو کے لیے اپلائی کر رکھا ہے۔ میری مراد صاف ظاہر تھی کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کی طرف سے لیکچرار اردو کے لیے تحریری امتحان کی تاریخ آنے والی ہے۔ مگر تم نے اپنی کج فہمی کے باعث مجھے نانیوں، دادیوں والا پند نامہ لکھ بھیجا، تاریخ کے دنوں میں ٹھنڈی چیزیں استعمال نہ کرنا، ہو سکے تو دودھ میں دیسی گھی ملا کر پینا۔ پھر گھر کی پسی ہوئی ہلدی کے خواص پر تم نے آدھا صفحہ لکھ ڈالا۔

اور سنو میں نے تمھاری بہتری کے لیے تمھیں لاہور جانے کا مشورہ اس لیے دیا تھا کہ تسلی سے تم تحریری امتحان کی تیاری کر سکو گے اور کوئی رہنمائی کی ضرورت پیش آئے تو بھی تمھیں دشواری نہ ہو۔ جس طرح کہ تم ایم اے، اردو کے پرائیویٹ امتحان کی تیاری کے لیے لاہور چلے گئے تھے، مگر تمھارے خط سے پتا چلا کہ اس بار تم نے کرائے کا کمرا لینے کی بجائے سرکاری کالج کے کسی ہاسٹل میں واقفیت کا سہارا لے کر کسی کے ساتھ سر چھپا لیا اور اب سینگ بھی پھنسا لیے ہیں۔ اب کہتے ہو کہ جس کے ساتھ تم رہتے ہو، وہ تمھیں اپنا تولیا استعمال نہیں کرنے دیتا اور کبھی تم اس کے رات کو لائٹ بند کرنے سے نالاں ہو، خدا کے لیے کچھ تو عقل کرو، تمھارے بقول پہلے اس روم میٹ سے تمھارا جھگڑا اس بات پر ہوا تھا کہ تم نے اس کے ٹوتھ برش سے شلوار میں ازار بند ڈالا تھا۔ سمجھ نہیں آتی میں تمھیں کیا کیا سمجھاؤں۔ اور ہاں، اس میں اللہ کے شکر والی کون سی بات ہے کہ چائے تم پیتے نہیں اور کھانا روم میٹ کے ساتھ کھا کر اسے آدھے پیسے دے دیتے ہو۔

میں نے اپنے خط میں رسماً تم سے خیریت پوچھی تھی مگر تم نے جواباً پہلے اپنے جگر کی گرمی کا احوال لکھا جس سے میں قطعاً ًنہیں سمجھ پائی کہ یہ کون سی بیماری ہے۔ پھر اپنے پاؤں پر چنبل اور اس سے ہونے والی تکلیف اور حکیموں کے علاج کی تفصیل سے خوام خواہ میرا وقت ضائع کیا۔ یہی نہیں علاج پر اٹھنے والے اخراجات بے وجہ لکھ کر اپنی روایتی غربت کا ثبوت دینے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ آئندہ میں کبھی غلطی سے خیریت پوچھ بھی لوں تو اللہ اپنی جسمانی بیماریوں کا اس قدر تفصیل سے ذکر نہ کرنا۔ اور ہاں یہ جو تم نے میری شان میں شعری مدح سرائی کرنے کی خواہش میں قصیدہ لکھنے کی فضول کوشش کی ہے، یہ قصیدہ نہیں بلکہ ایک پرانا فلمی گانا ہے، جسے پڑھ کر تمھارے اندر کی بوڑھی روح مجھے چڑیل کی طرح ڈرا رہی ہے۔ تم نے یہ بھی لحاظ نہیں رکھا کہ فلم میں یہ گانا ہیرو اپنی ماں کے لئے گاتا ہے۔

اور سنو! پان کم کھایا کرو اور سموکنگ تو بالکل ترک کر دو۔ خط میں جگہ جگہ پان کے دھبے صاف نظر آتے ہیں۔ اگر پان نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم خط لکھتے وقت ہاتھ ہی دھو لیا کرو۔ خط کے کاغذ سے بیڑی کی بو، میرے دماغ کو شل کر رہی ہے۔ ٹھیک ہے تمھارا ملنے کو دل چاہتا ہو گا، مگر تم نے ملاقات کی خواہش کا اظہار انتہائی بھونڈے انداز میں کیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی مفلوک الحال یتیم بچہ اپنی ظالم سوتیلی ماں سے برف والے رنگین گولے کی فرمائش کر رہا ہو۔ وہ بھی اس مایوسی اور بے چارگی کے ساتھ کہ وہ اسے لے کر نہیں دے گی۔

ایک بات تم سے اور کہنا تھی کہ کم از کم اپنا نام تو صحیح لکھا کرو۔ یہ ”چھیدا“ کیا ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی قصاب یا دودھ سبزی والے کا نام ہو۔ مختصر نام لکھنے کا شوق ہے تو صرف ”رشید“ لکھ دیا کرو۔ آئندہ خط لکھنے سے احتراز برتو تو بہتر ہے، اگر اپنی زور طبع سے مجبور ہو جاؤ تو خیال رکھنا کہ خط میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔

اچھا ذرا یہ سوچو کہ خط کا خاتمہ کیا شعر پر کرنا ضروری تھا۔ تمھیں پتا نہیں کہ جو شعر تم نے لکھا ہے، اس کے دو مصرع الگ الگ شاعروں کے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ میں نے تمھیں ایم اے، اردو کے پرچوں کی تیاری کے لیے اپنے تیار کردہ جو نوٹس دیے تھے، ان میں میر تقی میر کی اسائن منٹ میں حوالے کے جو شعر لکھے تھے وہ سب میر کے ہیں۔ تم مجھے شعر سے پہلے لکھ رہے ہو، ”جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا“، بھلا میر کی اشعار میرے کیسے ہو گئے؟ اور پھر مصرع کیا بے وزن لکھ رہے ہو:
نازکی آپ کے لبوں کی کیا کہیے
جیسے رخ پر چراغ روشن ہوں
یہ بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے کہ دوسرا بے تکا مصرع پتا نہیں کہاں سے اڑا لائے ہو۔

رشید، محسوس نہ کرنا تم سے تعلق اب مجھے بوجھ محسوس ہونے لگا ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری تمہاری پہلی ملاقات پنجاب یونیورسٹی میں حبیب بنک کے باہر ہوئی تھی۔ میں جب ایم اے، اردو کے پرائیویٹ امتحان کے لیے داخلہ فیس جمع کروانے کے لیے بنک کے باہر چلچلاتی دھوپ میں لگی لمبی لائن سے پریشان تھی، اور اس دن بغیر لیٹ فیس داخلے کی آخری تاریخ تھی۔ تم بنک کی کھڑکی کے سامنے دسویں بارہویں نمبر پر لائن میں پھنسے ہوئے تھے۔ پاس سے گزرتے ہوئے تم نے سہولت کاری کے جذبے سے مجھے پکارا اور پیش کش کی میں اپنا چالان فارم مع فیس کی رقم کے، تمہیں دے دوں۔ میں نے غنیمت جانتے ہوئے فوراً ًفارم اور پیسے تمہارے حوالے کر تو دیے مگر فارم دیتے ہوئے پتا چلا کہ تم نے پہلے ہی مختلف لوگوں کے چھے سات فارم پکڑ رکھے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد مجھے اس وقت کچھ عجیب سا لگا جب تم ہر نئے آنے والے کو فیس جمع کروانے کی آفر کرتے تھے اور ساتھ بیس روپے اضافی سہولت کاری کے لے رہے تھے۔

بنک کے گارڈ نے مجھے ایک طرف کھڑے دیکھا، تو شفقت کا اظہار کرتے ہوئے بنک کے اندر جا کر پیسے جمع کروانے کی سہولت فراہم کی۔ مگر تم فارم واپس کرنے کو تو تیار تھے لیکن دوسرے لوگوں سے چالان فارم اور فیس کی رقم وصول کرتے، بقایا دیتے، اب تمھارے پاس کھلے پیسے نہیں تھے کہ میری فیس پوری مجھے لوٹا سکتے۔ نا چار کوئی پون گھنٹہ انتظار کے بعد تم کھڑکی تک پہنچ ہی گئے۔ اور بیس پچیس چالان فارم مع داخلہ فیس بنک والے کے حوالے کیے۔ ظاہر ہے اتنے فارم کی وصولی کی رسیدیں لینے میں کچھ وقت درکار تھا۔ اس اثنا میں تمھارے پیچھے کھڑے لوگوں نے تمھیں جن جن القابات سے پکارا، خدا کی پناہ، اور پھر کسی نے ٹھڈا مارنے کی کوشش کی تو کسی نے تمھارے کالر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ بہر حال تم چرڑ مرڑ رسیدیں لے کر پسینے سے شرابور ایک طرف آئے تو لوگ آپ کی طرف لپکے، میں بھی انتظار میں تھی۔ آپ کے ہاتھ میں آخری رسید میری تھی، جو تم نے دونوں ہاتھوں پر رکھ کر مجھے پیش کی۔ گو کہ یہ انداز اچھا نہیں تھا مگر میرے منہ سے بے اختیار نکلا: ”آپ ایک محبت کرنے والے انسان ہیں“ ۔ اس جملے کا خمیازہ آج تک بھگت رہی ہوں، تم نے تعریفی جملہ سن کر فوراً کہا تھا، ”آپ سے بیس روپے اضافی بھی نہیں لیے“ ۔ ہر چند کہ میں نے تمہیں ادا کرنے کی کوشش کی، مگر تم نے کہا، ”پھر کبھی سہی“ ۔

نہ جانے کیوں میں اس بوجھ سے سبک دوش ہونا چاہتی تھی، کہ پاس ہی نکڑ پر گنے کے رس کی دکان دکھائی دی۔ جس پر موٹے حروف میں لکھا تھا۔ پچیس روپے کا گلاس۔ ہم دونوں نے وہاں سے رس پیا، میں نے فوراً ًپچاس روپے دکاندار کو دیے، مگر تم نے بے ہودہ سی ایمان داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ روپے کا سکہ میرے پرس میں پھینک دیا۔ میں کچھ نہ کہہ سکی، کہتی بھی کیا!

ابھی بمشکل ایک ہفتہ گزرا تھا کہ حیران کن طور پر تمھارا جوابی خط ملا، جس پر ایڈریس بعینہ وہی تھا جو میں نے بنک چالان پر درج کیا تھا۔ یہ ہمارے گھر میں میرے نام پر آنے والا پہلا خط تھا۔ جس کی مجھے کئی وضاحتیں کرنا پڑیں۔ طویل اور بے ربط خط کے ہر پیراگراف میں تم نے مجھے یہ یاد کروا کر کہ میں نے تمھیں محبت کرنے والا انسان کہا تھا، میری انسان شناسی کی داد دی، اور آخر میں ایمانی وعدے سے تا دم آخر محبت کرنے کا یقین دلایا تھا۔ جوابی لفافے کا لحاظ کرتے ہوئے میں نے تمھیں چند سطریں بطور تشکر لکھ بھیجیں۔

اس کے بعد ایم اے، اردو کے نوٹس کی ترسیل سے لے کر خط کے فوری جواب کا فریضہ محض اس لیے ادا کرتی رہی کہ ہر خط میں تم لکھتے تھے کہ ”اگر مناسب سمجھو تو میں حاضر ہو جاؤں گا“ ۔ انتہائی بوجھل دل کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اب میں تمہاری محبت اور اس کے اظہار کی تاب لانے سے عاجز آتی جا رہی ہوں۔ لیکن واضح کر دوں کہ میں ہر گز ترک محبت کا نہیں کہہ رہی، مبادا پہلے کی طرح تم پھر میرے گھر کے باہر خود کشی کا سندیسہ لکھ بھیجو۔ البتہ ساحر لدھیانوی کی نظم ”خوبصورت موڑ“ بار بار سننے کی درخواست ضرور کروں گی۔ اس دعا اور خواہش کے ساتھ کہ اللہ تعالی ان مصرعوں کی تاثیر سے مجھے فیض یاب کرے:
تعارف روگ ہو جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
والسلام
اجنبیت کی خواہاں
شازی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).