امریکی نظام خطرے میں؟


ا مریکہ میں تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں تقریباً اٹھائیس دن باقی ہیں مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ پینڈورا باکس کھول دیا ہے۔ کہتے ہیں : ”صدارتی انتخابات اگر میں ہار گیا تو میں پرامن انتقال اقتدار کا وعدہ نہیں کرتا۔ وقت آنے پر دیکھا جائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔ ووٹنگ میں یقیناً دھاندلی ہوگی۔ پوسٹل بیلٹ تباہ کن اور دھوکہ ہے۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ انتخاب شفاف ہوگا“ ۔

اس سے پہلے انہوں نے پچھلے انتخابات سے پہلے 19 اکتوبر 2016 کو ڈیلاویئر اوہیو میں ایک جلسے سے خطا ب کرتے ہوئے بھی کہا تھا۔ ”میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں انتخابات کے نتائج قبول کرلوں گا“ ۔ پھر تھوڑا رک کر بولے۔ ”اگر میں جیت گیا“ ۔

صدر ٹرمپ کو اپنے ڈیموکرٹیک حریف جو بائیڈن کے مقابلے میں اپنی شکست نظر آ رہی ہے۔ جوبائیڈن اکثر ریاستوں، بشمول چار سوئنگ ریاستوں اور ویس کونسن کے جن میں پچھلے انتخابات میں صدر ٹرمپ جیت چکے تھے، جیت رہے ہیں۔ جارجیا میں دونوں کا مقابلہ برابر اور صرف ٹیکساس میں ٹرمپ کو تھوڑی لیڈ حاصل ہے۔

بظاہر ٹرمپ کا ارادہ یہ ہے کہ وہ دھاندلی کے الزامات لگا کر نتائج قبول نہیں کریں گے اور گنتی کی درخواست کریں گے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کی ایک ترقی پسند اور انسانیت نواز جج جسٹس روتھ بیڈر برگ، جو پچھلے ہفتے وفات پائی، کا جانشین جج مقرر کرنے کے لیے صدر ٹرمپ بڑی تیزی دکھا رہے ہیں باوجود اس کے کہ روتھ نے اپنے جانشین جج کا تقرر تین نومبر کے انتخابات میں منتخب ہونے والے نئے صدرتک ملتوی کرنے کی وصیت کی تھی۔

جج کی توثیق کے لیے سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں اپنی پارٹی کو حاصل اکثریت سے صدر ٹرمپ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ پھر ان کا خیال ہے کہ انتخابات کے نتائج سپریم کورٹ میں چیلنج ہوں گے جہاں وہ ایک اور قدامت پسند جج کی جلد ازجلد تعیناتی کر کے اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اس کے ہم خیال ججوں کی وہاں اکثریت ہو تاکہ وہ وہاں جیت سکیں۔

ریپبلکن پارٹی کے سینئر رہنما صدر ٹرمپ کی باتوں سے پیداہونے والے آئین و قانون سے تنفر کا تاثر ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ ان کانام نہ لے کر اور کچھ ان کی طرف نفیس اشارہ کر کے کہتے ہیں ہم ملک میں آئینی اور جمہوری روایات کے امین ہیں اور ان کی پاسداری کریں گے۔

سینیٹ میں اکثریتی رہنما میچ میکونل نے ٹرمپ کے بیان کے بعد کہا۔ ”1772 سے اب تک جس طرح انتقال اقتدار ہوا ہے اب بھی اسی طرح ہوگا۔ بیس جنوری کو نیا صدرحلف اٹھائے گا“ ۔

ان کے بیان کے بعد امریکہ کے ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے ٹرمپ کو کہا کہ آپ شمالی کوریا، روس، سعودی عرب اور ترکی میں نہیں۔ آپ امریکہ میں ہیں۔ یہ ایک مثالی جمہوریت ہے۔ بجائے اس طرح کی باتیں کرنے کے آپ اپنے عہدے کے امریکی آئین کی وفاداری کے حلف کا لحاظ کیوں نہیں کرتے۔

ایک امریکی پروفیسر کرس ایڈلسن کے بقول یہ ایک غیر معمولی صورت حال ہے جس کی امریکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں۔ اس صدر نے اپنے مخالفین کو قید کرنے کا کہا مگر ہم کچھ نہ بولے۔ اب وہ صدارتی انتخابات کے نتائج کو قبول نہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ غیر معمولی اور خطرناک نشانات ہیں۔

صدارتی مورخ ڈوگلس برینکلے کہتے ہیں ”امریکی جمہوریت کے ساتھ یہ سب سے بڑا نقصان دہ عمل ہوگا جو صدر ٹرمپ نے اب تک کیا ہے۔“ ۔ امریکہ میں آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ صدر ٹرمپ اناپسند فاشسٹ ہیں وہ اپنی فتح کے بغیر نتائج قبول نہیں کریں گے۔ وہ کسی بھی قیمت پر اپنی تسلسل چاہتے ہیں۔ ان کی موجودگی نظام کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے ان پر استعفیٰ کے لیے دباو بڑھانا ہوگا۔

مخالفین کے بقول ٹرمپزم کا مطلب سٹالنزم ہے۔ سٹالن کی طرح یہ بھی سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر وقت ہرجگہ میرے خلاف سازشیں ہورہی، جوبائیڈن انقلابی بائیں بازو کے قبضے میں ہیں، ملک کے بڑے شہروں پر انتشار پسندوں کا قبضہ ہے وغیرہ۔

صدر ٹرمپ کے مخالفین انہیں نرگسیت کا شکار سمجھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ ماہرین اور امریکی اداروں کے خلاف بولتے رہتے ہیں۔ دوسرے امریکی صدور کے برعکس یہ مسلسل ٹویٹر استعمال کرتے ہیں۔ امریکی میڈیا سے ان کی جنگ جاری ہے۔ رنگ ونسل پر مبنی جملے کسنا بھی ان کی عادت ہے اور الحان عمر، راشدہ طلیب، الیگزینڈرا اوکیسو کورٹز اور ایانا پریسلے جیسی غیر سفید فام افراد کے خلاف جب انہوں نے نسل پرستانے جملے کسے توایوان نمائندگان نے ان کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی لیکن اب وہ وہی باتیں جلسوں میں کر رہے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو غیر ملکی ایجنٹ کہتے ہیں۔ جو بائیڈن کے بارے میں کہہ رہے کہ یہ امریکہ کے دشمنوں کا ساتھی ہے اور اس کی فتح شمالی کوریا اور ایران کی فتح ہوگی۔

صدر ٹرمپ کوشش کر رہے ہیں کہ انتخابات کے دوران بحث و مباحثہ کے اہم نکات کچھ بھی ہوں مگر کورونا وائرس، صحت اور انسانی حقوق پر ان کی حکومت کی کارکردگی نہ ہو۔ کوویڈ 19 کو انہوں نے میڈیا کی پیداروارقراردیا اور سائنسدانوں اور عالمی اداروں کی ہدایات کے برعکس انہوں نے اپریل ہی میں بازاروں اور دفتروں کو کھولنے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ امریکہ دو لاکھ سے زیادہ اموات اور تقریباً ستر لاکھ متاثرہ افراد کے ساتھ کورونا وائرس کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک بن چکا۔

صدر ٹرمپ کی لاپروائی کا اب بھی یہ حال ہے کہ وہ خود عوامی جلسے کر رہے ہیں جبکہ جو بائیڈن ایسا نہیں کر رہے۔ امریکہ کے ڈرگ اور فوڈ ادارے نے پچھلے دنوں کورونا وائرس ویکسین منظور کرنے کے لیے کچھ رہنما اصول بھیجے تو صدرٹرمپ نے ان کو سیاسی اقدام قرار دے کر نامنظور کرنے کا عندیہ دے دیا۔

اس سے پہلے ان کے خلاف طاقت کے غلط استعمال اور کانگریس کا راستہ روکنے کے الزامات پر مواخذے کی کارروائی ایوان نمائندگان میں منظور لیکن سینیٹ میں معمولی اکثریت سے مسترد ہو گئی۔ ان کے خلاف نیو یارک میں ٹیکس سے بچنے اور من لانڈرنگ کے الزامات پر بھی تحقیقات جاری ہیں اور روس کے ساتھ ساز باز اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ کے الزامات بھی ہیں جن میں ان کے ماضی اور حال کے بیس کے قریب سٹاف اور خاندان کے افراد کو نوٹس جاری ہوچکے۔ ان سب عوامل کا ردعمل جمہوریت پسند امریکی عوام کی طرف سے کیا ہوگا، تین نومبر کو واضح ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).