استاد گوگل


گوگل انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک سرچ انجن ہے، مگر میں اسے ”استاد“ کہتا ہوں۔ آپ خود استاد گوگل سے کچھ بھی پوچھ کر دیکھ لیں، فوری طور پر جواب آ جائیں گے۔ آپ استاد گوگل سے کچھ اچھا پوچھیں تو استاد گوگل وہ اچھا، آپ کو بہت اچھی طرح سے بتائے گا۔ آپ استاد گوگل سے کچھ برا پوچھیں، تو استاد گوگل وہ برا بھی آپ کو بہت اچھی طرح سے بتائے گا۔ غرض استاد گوگل ہر وقت آپ کے ہر مطلوبہ سوال کا مطمئن کرنے والا جواب دینے کے لیے موجود رہتے ہیں۔ کسی روایتی استاد کے لیکچر میں آپ 45 منٹ سے زیادہ نہیں بیٹھ پاتے، مگر استاد گوگل میں نہ جانے کیا جادو ہے کہ دقیقے گھنٹوں میں بدل جاتے ہیں، مگر اکتاہٹ کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ کہتے ہیں سوال علم کی کنجی ہے اور استاد گوگل کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا ہے۔ جب پوچھیں، جہاں پوچھیں اور جو بھی پوچھیں استاد گوگل اس کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔

آج استاد گوگل کے سحر میں ساری دنیا ہی مبتلا نظر آتی ہے۔ نامور سائنسدان ہوں، ماہرین تعلیم ہوں، محقق ہوں، پروفیسر ہوں یا دنیا کے کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین ہوں، استاد گوگل نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آج دنیا میں کسی بھی موضوع سے متعلق معلومات کی فراہمی کا تیز ترین اور بہترین ذریعہ یہی استاد گوگل ہیں۔ میں ذاتی طور پر استاد گوگل کا پرستار ہوں۔ اب بھلا بتائیے کہ ایک وہ وقت تھا جب کسی بھی علمی مشکل کے حل کے لیے اس علم کے ماہر کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا لازم تھا مگر آج آپ کو کسی بھی موضوع سے متعلق جو بھی معلومات درکار ہوں، صرف لمحے بھر میں استاد گوگل کے توسط سے فراہم ہو جاتی ہیں۔ کوئی بھی استاد ہو وہ صرف کسی ایک شعبے یا پھر ممکن ہے کہ چند شعبوں میں ہی مہارت رکھتا ہو گا، مگر کیا کہنے ہیں استاد گوگل کے کہ ہر شعبے سے متعلق موصوف کی معلومات کے معیار سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ساری دنیا ہی استاد گوگل کو ہر فن مولا مانتی ہے۔ استاد گوگل کی علمی استطاعت کے سامنے بڑے بڑے ماہرین لا جواب نظر آتے ہیں۔

سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ استاد گوگل سے آپ کچھ بھی دریافت کر لیں انہیں نہ غصہ آئے گا اور نا ہی وہ خفا ہوں گے بلکہ خوشی خوشی ہر بات کا جواب دیں گے۔ حتٰی کہ استاد گوگل سے کچھ دریافت کرنے کی کوئی اجرت بھی نہیں دینا پڑتی۔ استاد گوگل تمام مطلوبہ معلومات بالکل مفت فراہم کرتے ہیں۔ اب نا تو زیادہ فیسوں کا بوجھ ہی اٹھانے کی زحمت ہے اور نا ہی کلاس میں حاضر ہونے کی پریشانی باقی ہے۔ فقط آپ کو علم کی پیاس ہونی چاہیے، استاد گوگل آپ کی علمی تشنگی کو گھر بیٹھے ہی فوری طور پر دور فرما دیں گے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسی سہولت اور آسانی ماضی میں کہاں میسر تھی۔ میں تو حیران ہوں کہ ماضی میں انسان کو اپنی علمی تشنگی کو دور کرنے کے لیے جانے کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے، مگر آج انسان اپنے گھر میں بیٹھ کر ہی استاد گوگل کے توسط سے اپنی علمی تشنگی کو دور کر رہا ہے۔ کہاں ماضی کی سختیاں اور کہاں حال کی آسانیاں، واقعی محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔

استاد گوگل کی افادیت اپنی جگہ ضرور ہے مگر استاد گوگل سے کچھ نا جائز فائدے بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ بالخصوص جب کالج اور جامعات کے طلبا و طالبات اپنے اسائنمنٹس گوگل سے کاپی پیسٹ کر کے اساتذہ کو پیش کر دیتے ہیں اور اساتذہ بھی سادگی کے ساتھ ان کی کاپی پیسٹ کی محنت کو قبول کر لیتے ہیں۔ اس کاپی پیسٹ کے عمل سے طلبا و طالبات کو آسانی سے اچھے نمبر تو ضرور حاصل ہو جاتے ہیں، مگر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔ طلبا و طالبات میں کچھ نیا سوچنے یا کچھ نیا کرنے کی فکر باقی نہیں رہتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کچھ نیا سوچ کر کچھ نیا کرنے میں کچھ محنت تو لگتی ہی ہے مگر ہمارے تعلیمی نظام کو در حقیقت آسانی کا مرض لاحق ہو چکا ہے۔ جبھی اس تعلیمی نظام سے پڑھ کر نکلنے والے طلبا و طالبات کے ہاتھوں میں ڈگریاں تو ضرور ہوتی ہیں مگر تہذیب علم و تحقیق نہیں ہوتی۔ قلم رکھنے والے اہل قلم نہیں ہوتے، کتاب پڑھنے والے صاحب کتاب نہیں ہوتے، تصنیف تو دور کی بات ہے تالیف بھی نہیں ہوتی، چرب زبانی تو سنائی دیتی ہے مگر بلاغت نہیں ہوتی۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب استاد گوگل نہ خود پڑھ سکتے ہیں اور نا ہی خود لکھ سکتے ہیں تو ان کے پاس ہر سوال کا جواب دینے کے لیے اتنی معلومات آتی کہاں سے ہیں؟ در حقیقت گوگل انٹر نیٹ کی دنیا میں ایک سرچ انجن ہے۔ سرچ انجن کو آپ سادہ زبان میں سوال کا جواب دینے والی مشین بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ کو جو بھی معلومات درکار ہوں گوگل میں کی ورڈ کی صورت میں تحریر کر دیں، گوگل اس کی ورڈ سے متعلق تمام مہیا مواد ویب سائٹس، تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کر دے گا۔ گوگل آپ کی مطلوبہ معلومات دنیا کی تقریباً 150 زبانوں میں مہیا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس طرح سے استاد گوگل دنیا بھر کی معلومات تو ضرور فراہم کر دیتے ہیں مگر تربیت نہیں کر پاتے ہیں اور علم بغیر تربیت کے خود ایک مشکل ہے جس کا حل تو ابھی تک استاد گوگل کے پاس بھی موجود نہیں ہے۔ لہٰذا اس بات سے انکار کرنا آج بھی ممکن نہیں ہے کہ ایک ایسا استاد جو تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا و طالبات کی تربیت بھی کرتا ہو استاد گوگل سے ہرگز اس کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ گوگل کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ ضرور ہے مگر گوگل ایک اچھے استاد کا نعم البدل ہر گز نہیں ہو سکتا ہے۔

گلزار علی رضوی
Latest posts by گلزار علی رضوی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).