سنہ 1995 کے مقابلے میں گریٹ بیریئر ریف میں مونگوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے


سمندر
ANDREAS DIETZEL
مرتے ہوئے مونگوں کا رنگ ماند پڑ گیا ہے
آسٹریلیا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ 1995 کے بعد سے آب و ہوا میں تبدیلی اور سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافے کے باعث گریٹ بیریئر ریف میں آدھے مونگے ختم ہوگئے ہیں۔

سائنس دانوں کے مطابق اس ماحولی نظام میں ہر قسم کے مونگے ختم ہو رہے ہیں۔

سب سے زیادہ کمی 2016 اور 2017 میں ان پودوں میں ہونے والے قدرتی عمل بلیچنگ کے نتیجے میں واقع ہوئی۔ اس سال بھی بڑے پیمانے پر بلیچنگ ہوئی ہے۔

جب پانی زیادہ گرم ہو جاتا ہے تو مونگے اپنی بافتوں یا ٹیشوز میں موجود ایلگی کو خارج کر دیتے ہیں جس سے ان کی رنگت بالکل سفید ہو جاتی ہے۔ اس عمل کو بلیچنگ کہتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ ’اب وقت بالکل نہیں بچا اور ہمیں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو تیزی سے کم کرنا ہوگا۔‘

جریدے پروسیڈنگس آف رائل سوسائٹی بی میں شائع ہونے والی یہ تحقیق کوئنز لینڈ میں اے آر سی سنٹر آف ایکسیلنس فار کورل ریف سٹڈیز سے وابستہ بحری سائنس دانوں نے کی ہے۔

سائنسدانوں نے 1995 سے لے کر 2017 تک مونگے کی آبادیوں کی حالتِ زار اور جسامت کا اندازہ لگایا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’غیرمعمولی بلیچنگ‘، گریٹ بیریئر ریف کا دو تہائی حصہ متاثر

ماحولیاتی تبدیلی سے زمین انتہائی خطرے میں: اقوام متحدہ

حیاتیاتی تنوع میں زوال سے خوراک کی کمی کا خطرہ

سائنسدانوں کے مطابق تمام قسم کے مونگوں کی جسامت اور انواع کی آبادی میں 50 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے، لیکن خاص طور پر شاخدار اور میز نما مونگوں میں زیادہ کمی ہوئی ہے۔

یہ مونگوں کی وہ اقسام ہیں جو عام طور پر مچھلی اور دیگر سمندری جانوروں کو مسکن فراہم کرتی ہیں۔

سمندر

ANDREAS DIETZEL
زیادہ پیچیدہ مونگوں کی تباہی کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں پائی جانے والی مچھلیوں اور دیگر جانداروں کے مسکن بھی برباد ہوگئے

اس تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر ٹیری ہیوز کا کہنا ہے کہ مونگوں کی یہ قسمیں بار بار بڑے پیمانے پر بلیچنگ سے ’بری طرح متاثر‘ ہوئی ہیں جس نے دو تہائی حصے کو نقصان پہنچا ہے۔

کورل ریف میں مونگوں یا مرجان کی رنگ برنگی چٹانیں ہوتی ہیں، بلیچنگ کے عمل میں آب و ہوا کی تبدیلی اور تپش کے باعث ریف اپنی رنگت کھو دیتے ہیں۔

اور جس عمل کے دوران مونگے کائی کو نکال باہر کرتے ہیں، اسے زویاتھیلائی کہا جاتا ہے۔

اگر صورتحال معمول پر آ جائے تو ریف واپس آ سکتے ہیں لیکن اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

2019 میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتا چلا تھا کہ تباہ شدہ مونگوں کی کالونیوں نے دوبارہ بحالی کی کوشش کی تھی۔

اس تحقیقی مضمون کے سرکردہ مصنف ڈاکٹر اینڈی ڈائٹزیل کا کہنا ہے کہ ’ایک ہشاش بشاش اور متحرک کورل ریف میں لاکھوں چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے مونگے موجود ہوتے ہیں۔‘

’ہمارے نتائج گریٹ بیریئر ریف میں بحالی کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں جو ماضی کے مقابلے میں کم ہو گئی ہے کیونکہ اب کم اور بڑی دونوں عمر کے مونگوں کی تعداد کم ہے۔‘

اب ریف کیسے نظر آتے ہیں؟

پچھلے سال آسٹریلیا کی حکومت کی سرکاری ایجنسی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ریف کی بقا کو سب سے بڑا خطرہ انسانی سرگرمیوں سے پہچنے والی حرارت سے ہے۔

سنہ 1981 میں 2300 کلومیٹر پر پھیلے اس گریٹ ریف کو اس کی ’بے انتہا سائنسی اہمیت‘ کے باعث ورلڈ ہیریٹیج سائٹ (عالمی ورثہ) نامزد کیا گیا تھا۔

لیکن گذشتہ ایک دہائی میں اسے گرم سمندروں نے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے جس نے مونگوں کو ختم کر دیا ہے، سمندری زندگی منتشر ہو گئی ہے اور کائی اور دیگر آلودگیوں کی نشوونما میں تیزی آئی ہے۔

پروفیسر ہیوز کا کہنا ہے کہ ’ہم سمجھتے تھے کہ اپنے سائز کے باعث گریٹ بیریئر ریف محفوظ ہے۔ لیکن ہمارے نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا اور نسبتاً محفوظ ریف بھی تیزی سے زوال کا شکار ہے۔‘

مارچ میں سائنس دانوں نے خبردار کیا تھا کہ پانچ سالوں کے دوران ریف کو تیسری مرتبہ بڑے پیمانے پر بلیچنگ ایونٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور نقصان کے مکمل پیمانے کی تشخیص کی جارہی ہے۔

عالمی درجہ حرارت میں ایک سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ درجہ حرارت 1.5 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تو دنیا کے 90 فیصد مونگوں کا صفایا ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp