آئی ایم ایف کی ’ورلڈ اکنامک آؤٹ لک‘: انڈیا کے جی ڈی پی میں ’تاریخی کمی‘ کا امکان اور چینی تجارت میں اضافے کا راز


معیشت انڈیا
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والے سنہ 2020-21 اور سنہ 2021-22 کے معاشی جائزے سے چند حیران کُن باتیں سامنے آئی ہیں۔

جہاں ایک جانب سوشل میڈیا پر انڈین معیشت کی گرتی ہوئی حالت پر بحث ہو رہی ہے تو دوسری طرف دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی تجارت میں وبا کے دنوں میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

منگل کو صارفین نے ’آئی ایم ایف‘ ٹرینڈ کرتے دیکھا اور پھر بدھ کو اسی سلسلے سے ’بنگلہ دیش‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں تو انڈیا میں بنگلہ دیش کا ٹرینڈ اپنے آپ میں حیران کُن ہے۔

دراصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ آئی ایم ایف نے دو سال کا جو ’آؤٹ لک‘ جاری کیا ہے اس کے مطابق فی کس مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے معاملے میں بنگلہ دیش ممکنہ طور پر رواں مالی سال میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا بنگلہ دیشی انڈین شہریت لینا چاہیں گے؟

انڈیا پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے

بنگلہ دیش اور انڈیا میں زیادہ خوش حال کون؟

’انڈیا کی معیشت صفر کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے‘

ورلڈ اکنامک آؤٹ لک میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟

تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی فی کس جی ڈی پی میں سنہ 2020 میں چار فیصد اضافے کا امکان ہے جس کے تحت یہ 1888 امریکی ڈالر ہو سکتا ہے جبکہ اسی مالی سال میں انڈیا کی فی کس جی ڈی پی میں 10.3 فیصد کمی کا اندازہ لگایا گیا ہے اور اس اس کے باعث یہ گر کر 1887 ڈالر کی سطح پر آ سکتی ہے جو کہ گذشتہ چار برس میں سب سے کم ہے۔

انڈیا میں رواں مالی سال کے لیے پہلے نصف میں آئی ایم ایف نے 5.2 فیصد کمی کا امکان ظاہر کیا تھا لیکن اس نے اپنے تازہ تخمینے میں اسے بڑھا کر 10.3 فیصد کر دیا ہے جو کہ سنہ 1947 میں ملک کے وجود میں آنے کے بعد کسی مالی سال میں سب سے بڑی گراوٹ ہے۔

خیال رہے کہ سنہ 22 – 2021 کے لیے آئی ایم ایف نے انڈیا میں ترقی کی شرح آٹھ فیصد سے زیادہ بتائی ہے۔

اس نے رواں مالی سال کے لیے انڈیا کو جنوبی ایشیا کا تیسرا غریب ترین ملک بتایا ہے اور اس کی فی کس جی ڈی پی صرف پاکستان اور نیپال سے زیادہ ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے جبکہ بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک انڈیا سے آگے ہوں گے۔

مودی اور شیخ حسینہ

’کیا یہی آپ کے اچھے دن ہیں؟‘

اسی خبر کی بنا پر سوشل میڈیا پر شور برپا ہے اور اسے مودی حکومت کی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔

اگرچہ آئی ایم ایف نے اس گراوٹ کی وجہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کو قرار دیا ہے لیکن ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ انڈیا کی معیشت میں اس سے پہلے بھی گراوٹ اور سست روی کے آثار ظاہر تھے۔

حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور لکھا ہے کہ ‘گذشتہ چھ سالوں میں حکومت نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ بنگلہ دیش بھی انڈیا سے آگے جانے کے لیے تیار ہے۔’

وکاس پانڈے نامی بی جے پی رضاکار نے راہل گاندھی کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘اگر آپ نقل کرنا چاہتے ہیں پوری بات نقل کریں۔ یہاں پوری رپورٹ دی جا رہی ہے جہاں سے آپ نے یہ گراف لیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ‏عارضی اثرات ہیں سنہ 2021 میں انڈیا پھر سے بنگلہ دیش سے آگے ہوگا۔’

ترنامول کانگریس کے رکن پارلیمان اور آل انڈیا یوتھ ترنامول کانگریس کے صدر ابھیشیک بینرجی نے این ڈی ٹی وی کی خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ’انڈیا کی معیشت اس قدر خستہ حال ہو گئی ہے کہ آئی ایم ایف کے ورلڈ اکانومک آؤٹ لک کے مطابق فی کس جی ڈی پی کے معاملے میں بنگلہ دیش بھی اس سے آگے جانے کو تیار ہے۔ غور سے سنیں کہ یہ ان کی ترقی نہیں ہے بلکہ ہماری بڑی گراوٹ ہے جو کہ نریندر مودی جی کے پانچ کھرب کے خواب کی تلاش میں ہوئی ہے۔’

کانگریس کے روہن گپتا نے طنز کرتے ہوئے لکھا: ‘یہ ممکن ہی نہیں کہ بنگلہ دیش جی ڈی پی میں انڈیا سے آگے نکل جائے! یہ مودی کی قوم پرست حکومت کے خلاف بین الاقوامی سازش ہے۔ گودی میڈیا اس کی جانچ کر رہی اور جلد ہی نتائج کے ساتھ سامنے آئے گی۔’

بہت سے صارفین نے پوچھا کہ انڈیا کا بنگلہ دیش سے پیچھے رہ جانا، کیا یہی وہ ’اچھے دن‘ ہیں جن کا وعدہ کیا گیا ہے؟

معروف صحافی سواتی چترویدی نے اس کے متعلق لکھا: ‘ڈیئر امت شاہ جن لوگوں کو آپ نے ‘دیمک’ کہہ کر بیان کیا وہ انڈیا سے آگے ہیں۔ سی اے اے اور این آر سی بڑا قدم تھا۔ پی ایم او انڈیا شاباش آپ نے ہماری معیشت کو ڈوبا دیا۔’

وبا کے باوجود چینی تجارت میں بڑا اضافہ کیسے ممکن ہوا؟

کورونا وائرس کے باعث جہاں دنیا بھر کی معیشتیں مندی کا شکار ہیں وہیں چینی تجارت میں شاندار اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ستمبر میں برآمدات میں 9.9 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں 13.2 فیصد اضافہ ہوا۔

درآمدات کی تعداد میں اضافے کے باعث تجارت میں اضافی زر مبادلہ 59 ارب ڈالر سے گھٹ کر 37 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ لاک ڈاؤن اور خوف کی وجہ سے عوام کے کم خرچ کرنے کے رجحانات کے باعث بیشتر دوسری بڑی معیشتوں کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

لیکن اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ وبائی مرض کی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والے آرڈرز میں ابتدائی کمی کے بعد چین نے بہت تیزی سے یہ خسارہ پورا کر لیا۔

چین کوورنا وائرس کی زد میں آنے والا پہلا ملک تھا جہاں پچھلے سال کے آخر میں پہلے کیس سامنے آئے تھے۔

جولائی میں معیشیت میں ہونے والی بہتری سے قبل 2020 کے پہلے تین ماہ میں سخت لاک ڈاؤن کے باعث دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت میں زبردست مندی دیکھنے میں آئی تھی۔

چین

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے تجارت میں بحالی کی وجہ گھریلو الیکٹرانکس، طبی آلات اور ٹیکسٹائل کی بین الاقوامی طلب میں اضافہ ہے جس میں ذاتی حفاظتی سامان یا پی پی ای بھی شامل ہے۔

تاہم انھوں نے متنبہ کیا کہ ان اشیا کی مانگ میں سے بھی کچھ عرصے بعد کمی آنا شروع ہو جائے گی۔

چین کی معیشت اتنی تیزی سے کیسے سنبھلی؟

ستمبر کے آخر تک چین اور دیگر ممالک کے ساتھ چین کی کُل درآمدات اور برآمدات میں 0.7 فیصد یعنی 120 کھرب یوآن سے زیادہ اضافہ ہوا اور اس طرح کورونا وائرس کے باعث ابتدائی دنوں میں ہونے والے نقصان کا ازالہ ممکن ہوا۔

اگست میں جاپانی معیشت میں تیز ترین گراوٹ دیکھی گئی تھی۔ اس کی ایک وجہ برآمدات میں کمی تھی۔ اسی طرح امریکی معیشت میں بھی جولائی میں کئی دہائیوں بعد سب سے تیز ترین مندی دیکھی گئی۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) عالمی معیشت کے لیے جون میں دیکھی گئی مندی کے مقابلے میں قدرے کم گراوٹ کی پیش گوئی کر رہا ہے۔

container

تاہم آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت اب بھی گہری کساد بازاری کا شکار ہے اور تازہ ترین پیش گوئی کے باوجود ’بڑے پیمانے پر بدترین نتائج‘ کا خطرہ برقرار ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اس برس عالمی معیشت میں 4.4 فیصد کمی آئے گی تاہم یہ ائی ایم ایف کی جانب سے چار ماہ قبل کی گئی پیش گوئی سے بہتر صورتحال ہے۔

اس سال اپریل تا جون والی سہ ماہی میں متعدد بڑی ترقی یافتہ معیشتوں میں، آئی ایم ایف کی توقعات کے برخلاف، شدید بحران دیکھنے میں نہیں آیا۔

چین، جہاں سے کورونا کی بیماری شروع ہوئی اور جہاں سب سے پہلے اس کے اثرات دیکھے گئے، کی معیشیت میں بہتری بھی توقعات کے بالکل خلاف تھی۔

چین کا سب سے بڑا تجارتی حلیف ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز ہے، جس میں ملائیشیا اور سنگاپور شامل ہیں۔ چین کے کسٹمز حکام کے مطابق اس کے بعد ان کے سب سے بڑے گاہک یورپی یونین اور امریکہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32545 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp