بانجھ جوڑے اور بن مانگی نیک تمنائیں


پہلی خاتون: شادی کو کتنے سال ہو گئے ہیں؟ پانچ سال؟ ہائے پانچ سال ہو گئے! ابھی تک ایک بچہ بھی نہیں ہوا!؟ اب تک دو بچے ضرور ہو جانے چاہیے تھے! تم علاج نہیں کرواتیں؟ کس گائنا کالوجسٹ کے پاس جاتی ہو؟ ایک ڈاکٹر بتاتی ہوں، اس کے پاس جاؤ۔ وہاں میری بہو جاتی تھی۔ دو سال بعد اللہ نے پوتا دیا۔ تم بھی وہیں سے علاج کرواؤ۔

دوسری خاتون: یوں اداس کیوں بیٹھی ہو؟ سب کے ساتھ گپ شپ کرو۔ یوں الگ تھلگ بیٹھنے سے مزید ڈپریشن ہوتا ہے۔ اللہ نے چاہا، تو بہت جلد تمہیں اولاد کی نعمت سے نوازے گا۔ مایوس نہیں ہوتے۔

تیسری خاتون: تم لوگ اتنے پیسے والے ہو، کسی اچھی جگہ سے علاج کیوں نہیں کرواتے؟ اب تو بانجھ پن کے ہر مسئلے کا حل ہے۔ پھر تم لوگ IVF، UVF کیوں نہیں کروا لیتے! کیا سسرال والے جائز نہیں سمجھتے؟ ویسے مسئلہ تمہارا ہے یا میاں کا؟

چوتھی خاتون: تمہاری ساس کو کتنی دفعہ کہا ہے۔ اپنی بہو کو دم کرواؤ۔ ہمارے پیر جی کے پاس دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ ان کے دم میں بہت اثر ہے۔ اللہ توبہ بھی کروانی چاہیے۔ علاج تو کرواتی ہو گی؟

یہ باتیں سنانے والی خواتین وہ ہوتی ہیں۔ جن کے اپنے لا تعداد مسائل ہوتے ہیں، لیکن انہیں ہر وقت دوسروں کی ہمدردی کا بخار چڑھا رہتا ہے۔ یہ عورتیں نہیں جانتیں۔ ان کی نیک تمنائیں زہر آلودہ ہوتی ہیں۔ ان سے ملاقات کے بعد بے اولاد جوڑا، کس قدر اذیت سے دو چار ہوتا ہے۔ ہم چھے سال سے یہ نیک تمنائیں وصول کرتے تھک گئے ہیں۔ بھابھی ہنستی مسکراتی گھر سے جاتی ہیں۔ واپسی پہ وہی ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں نمی لیے واپس آتا ہے۔ گھر بھی کوئی محفل ہو، مجلس ہو۔ اختتام تک کوئی نہ کوئی نیک تمناؤں والی خاتون رلا کے دم لیں گی۔

اللہ بھلا کرے کورونا کا، جس کی بدولت کچھ دن ہمارے سکون سے گزرے۔ سوشل ڈیسٹنسگ سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور سکون بھی لیا۔ دو ماہ سے جونہی معمولات زندگی رواں ہوئے، ہم پھر وہی اذیت بھری دعائیں لے رہے ہیں۔ کبھی کوئی منت ماننے کا کہتا ہے۔ کبھی کوئی منت کا دھاگا لا کر دے رہا ہے۔ ہمیں احساس دلایا جاتا ہے، جیسے ہمیں اپنی پروا نہیں اور ہم چاہتے نہیں کہ اولاد ہو۔ صرف یہی ہمدرد چاہتے ہیں کہ ہم صاحب اولاد ہوں۔

کل مجلس کے اختتام پر ایک بزرگ خاتون نے، ہماری ایک دوست اور بھابھی سے اولاد نہ ہونے کی وجوہ پوچھنا شروع کیں۔ جب دونوں نے اگنور کیا تو دعائیں دینے لگیں۔ آخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئیں۔ ان دونوں کو دعاؤں کی صورت، اولاد کی کمی کا احساس دلا کر رلا کر شانت ہوئیں۔ اگر ان نیک دل لوگوں کی باتوں کی وجہ سے ہر قسم کی محفل سے دوری اختیار کی جائے۔ تو محفل میں، مجلس میں شریک نہ ہونے پر خوف خدا کا درس دیا جائے گا۔ اپنوں سے دور ہونے کے نقصانات پر روشنی ڈالی جائے گی۔

پتا نہیں لوگوں کو کیا حاصل ہوتا ہے، ہمدردی کی آڑ میں دوسروں کے دکھ تازہ کرنے کا۔ شاید وہ دوسروں کو ہنستا مسکراتا نہیں دیکھ سکتے۔ وہ چاہتے ہیں۔ ہم ہر پل غم کی تفسیر بنے رہیں۔ ایک کمی کی خاطر دوسری خوشیوں کو حرام کر لیں۔

ہمارے معاشرے میں بے اولادی بہت بڑا جرم ہے۔ جس کی سزا آپ کو ہر جگہ، ہر وقت سب کے رویوں سے ملتی رہتی ہے۔ چاہے وہ سزا طنز کے تیر ہوں یا پھر دعائیہ کلمات۔ یوں لگتا ہے، اولاد کہ جگہ تلخ رویے بے اولاد جوڑوں کا نصیب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).