مطالعہ، سوالات کو جنم دیتا ہے


ہر سال اے پی جے عبد الکلام کی یوم پیدائش 15 اکتوبر کو یوم تحریک مطالعہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ طلبا میں مطالعے کے رواج کو عام کرنا ہے۔ بچوں میں مطالعے کا شوق پیدا کرنا ہے۔ مطالعہ کرنے سے انسان میں سوچنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اچھے برے کی تمیز ہوتی ہے۔ حرام و حلال کو سمجھتا ہے۔ مطالعہ، انسان کی زندگی کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسی سے انسان کو تحریک ملتی ہے۔

موجودہ حالات کے پیش نظر، ذاتی اور ملت کے اہم ترین تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، انہیں حل کرنے کے لئے، راہ تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسی قوم کو مردہ کہا گیا ہے، جو حاکم وقت کے غلط فیصلوں اور غلط قوانین کو عوام پر نافذ کرنے کے با وجود احتجاج نہ کرے، یا اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے سے بھی محروم رہے۔ مطالعہ کرنے سے شعور بیدار ہوتا ہے اور مطالعہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ جس معاشرے میں تعلیم یافتہ افراد پائے جاتے ہوں، وہ غلط اور صحیح میں فرق کو محسوس کرتے ہیں۔

آج مسلمانوں میں دیگر کتابوں کے مطالعے کا شوق تو دور، مذہبی کتابوں کو پڑھنے کا رواج بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ساری انسانیت کے لئے راہ نمائی فراہم کرنے والی کتاب اللہ کو پڑھنے کے لئے مسلمانوں کے پاس وقت نہیں۔ یا پھر ان مسلمانوں نے خود کو اتنا نا اہل اور نا پاک سمجھ لیا ہے، جو قرآن کو چھونے سے بھی ڈرتے ہیں۔ اسے صرف طاقوں میں سجا کر رکھتے ہیں اور جسے برکت کی اور مرنے والوں کی روح نکالنے والی کتاب سمجھ بیٹھے ہیں۔ جب کہ یہ قرآن انسان کی دنیوی زندگی سے لے کر آخرت کی لا محدود زندگی میں کامیابی کی دلیل ہے۔ لیکن اس وقت جب اس کا مطالعہ کیا جائے اسے سمجھ کر پڑھا جائے اور پھر ان احکامات پر عمل در آمد کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر پہلی وہی اقراء نازل فرمائی، جس میں پڑھنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ آج ہمارے لیے افسوس کا مقام ہے کہ وہ قوم آج تعلیم سے دوری اختیار کیے ہوئے ہے، جسے سب سے پہلے پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ آج بھی وقت ہے کہ مسلمان اس طرف متوجہ ہو جائیں، جس میں ان کی کامیابی ہے۔

مطالعے کو روح کی غذا بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھنے کا شوق اس قدر ہوتا ہے کہ وہ بغیر مطالعے کے اپنے آپ کو بھوکا پیاسا محسوس کرتے ہیں۔ انہیں جہاں بھی اچھی کتاب اور رسالہ، معلوماتی لٹریچر پڑھنے کو مل جائے، وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ مطالعہ کرنے والے اپنی پسند کے مطابق الگ الگ مضامین میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ کوئی کہانیوں، افسانے، ناول، اخلاقی ادبی مضامین پڑھنے کا شوقین ہوتا ہے۔ مضمون نگار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے قاری کو ایسے عجیب سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کبھی وہ کسی کہانی کے اہم کردار میں خود کو محسوس کرتا ہے۔ کبھی کسی افسانے میں اپنے آپ کو عاشق کے کردار میں، کبھی کسی سیاحتی سفر نامے میں خود کو سیاح کے طور پر محسوس کرتا ہے۔ مطالعہ قاری کو اپنے سحر میں جکڑ کر رکھتا ہے۔ یہاں تک کے جب تک اس کتاب یا مضمون کے آخری صفحے کو پڑھ نہ لے۔

موجودہ حالات میں مسلمانوں کو ملکی اور عالمی سطح کے حالات سے با خبر رہنے کے لئے مطالعے کے رواج کو عام کرنا از حد ضروری ہے۔ آج ہماری قوم کا یہ احوال ہے کہ ہمیں اپنے مسائل تک معلوم نہیں ہے۔ وقت اور حالات کا کیا تقاضا ہے، وہ ہم سے کیا مطالبہ کر رہے ہیں، ہم اس سے آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں۔ دنیا کے حالات ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس کوئی لائحہء عمل تیار ہے، نا ہی تیار کرنے کی فکر ہے۔ ہماری تنظیموں کو جلسہ جلوسوں سے فرصت نہیں مل رہی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے زمینی حقائق کے پیش نظر عملی اقدامات کیے جائیں۔ اب منصوبے بنانے کا نہیں، بلکہ موجودہ تقاضوں پر عمل کرنے کا وقت ہے۔ ایسے اقدامات کیے جانے چاہیے جس سے فوری طور پر نتائج مل سکیں۔

آج اگر اپنے بچوں کی صحیح تربیت پر توجہ دی جائے، تو ہماری نسلوں کا مستقبل روشن اور تاب ناک ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے بچوں کو صحیح تعلیم و تربیت دی جانی چاہیے۔ ان میں پڑھنے کا شوق پیدا کیا جانا چاہیے۔ خود اعتمادی، ہمت و شجاعت بہادری پیدا کرنی چاہیے۔ انہیں حوصلہ فراہم کرنا چاہیے۔ انہیں قابل ہنر مند شخصیت کا مالک بنانا چاہیے۔ جب یہ قوم جدید تعلیمی اسلحے سے لیس ہو گی، تو پھر موجودہ تقاضوں سے واقف ہو گی اور آئندہ مستقبل کے خطرناک ترین حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو گی‌۔ یہی وقت ہے کچھ کر گزرنے کا اب اپنی مدد آپ کرنے کا وقت ہے۔ کسی کا انتظار کرنا فضول ہے۔ خود کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اپنے حصے کی محنت کیجیے۔ حالات ضرور تبدیل ہوں گے اور ہماری موافقت میں خدا کے فیصلے نازل ہوں گے‌۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).