اقلیت کا درد


میں جب پہلی بار برطانیہ گیا اور کام شروع کیا، تو ہمیں با جماعت نماز کے لئے بہت کم مواقع ملتے تھے۔ برمنگھم برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں پر ایک مرکزی مسجد بنی ہوئی ہے، لیکن یہ میری قیام گاہ اور اسپتال دونوں سے دور تھی۔ میں چوں کہ ٹراما سنٹر میں کام کر رہا تھا، اس لئے ہر وقت بس آپریشن تھیٹر کے کپڑے پہن کر ہی دن رات گزرتے تھے۔ جمعہ کو بھی خال خال ہی موقع ملتا کہ ایک طرف سیریئس مریض ہوتے تھے اور دوسری طرف ایک مذہبی ذمہ داری تھی۔

ہمیں حلال گوشت بھی صرف چند دکانوں پر ملتا تھا۔ جب تک میں اکیلا تھا، تو ایک نزدیکی مسلمان کے ریستوران سے کھانا لیتا تھا۔ تاہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ صرف چکن اور چپس بناتا تھا۔ مجھے ان چند مہینوں میں چکن اور آلو سے اتنی نفرت ہو گئی تھی کہ کئی سال میں نے ان کا بائیکاٹ کیے رکھا۔ خیر یہ تو وہ وقت تھا، جب حلال کھانا پھر بھی مل جاتا تھا۔ چار پانچ سال گزار کے میں واپس پاکستان آ گیا۔

کوئی بیس سال بعد، میں کچھ عرصہ پھر وہاں کام کرنے گیا۔ لگ بھگ ایک سال کام کیا۔ تاہم ان بیس برسوں میں مسلمانوں کے لئے اچھی خاصی تبدیلی آ گئی تھی۔ اب ہمیں اسپتال کے کینٹین میں بھی حلال کھانا مل جاتا تھا۔ اسپتال کے اندر ہی ایک چھوٹا سا چرچ بنا ہوا تھا۔ چوں کہ وہ صرف اتوار کو استعمال میں آتا تھا، اس لئے ہفتے کے باقی دن وہاں با قاعدہ جماعت ہوا کرتی تھی۔ اسی مختصر سے احاطے میں ہندو مذہب کے لئے بھی ایک چبوترے پر بھگوان کی مورتی رکھی ہوتی تھی۔ اور تو اور کے ایف سی نے حلال چکن کی سپلائی شروع کر دی تھی اور اب ہم بھی دھڑلے سے وہیں جا کر کھانا کھا سکتے تھے۔

یاد رہے کہ برطانیہ کی ساڑھے چار فی صد سے کم آبادی مسلم ہے۔ مسلمانوں کی اس سے کہیں زیادہ آبادی پرانے روس (سوویت یونین) اور چین میں ہے۔ تاہم اب تک ان کو کھل کر نہ مذہبی آزادی تھی اور نہ وہ حلال کھانا کھا سکتے تھے۔ ایک اقلیت کے طور پر کسی بھی غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کو اتنی آزادی آج بھی صرف مغرب کی جمہوریتوں میں حاصل ہے۔

ہندوستان کا بٹوارا صرف اکثریت کی ہٹ دھرمی کی وجہ ہوا۔ ورنہ مسلم لیگ اور قائد اعظم نے تو سر کرپس پلان پر نا صرف رضا مندی ظاہر کی تھی، بلکہ مشترک حکومت میں بھی شمولیت اختیار کی تھی۔ بقول مولانا ابو الکلام آزاد، یہ سردار پٹیل اور نہرو کی پریس کانفرنس تھی، جس میں انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ کرپس پلان انگریزوں کے جانے کے بعد ختم کر کے پارلیمنٹ کی اکثریت سے حکومت کریں گے۔ اس پر لیاقت علی خان اور قائد اعظم نے گاندھی تک سے درخواست کی کہ یہ بیان واپس لیا جائے۔

جب وہ اس ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے، تو مسلم لیگ ایک الگ ریاست بنانے پر مجبور ہوئی۔ یہ سب ابو الکلام کی سوانح ”آزادی ہند“ میں بتصریح لکھا ہے۔ تاہم پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم کی پہلی تقریر یہی تھی کہ پاکستان بننے کے بعد یہ ملک صرف مسلمانوں کا نہیں ہو گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہاں ہر مذہب کے باشندوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔ ہر شخص کو اپنے مذہبی رسوم ادا کرنے کی آزادی ہوگی۔ پاکستان کا پہلا ترانہ بھی ایک ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد کا لکھا ہوا تھا (جگن ناتھ نے پاکستان کا پہلا قومی ترانہ لکھا، اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملتا: مدیر)۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ تمام پارٹیاں جو پاکستان کے وجود کے خلاف تھیں اور یا تو کانگریس کو ووٹ دیا تھا اور یا ووٹ ہی نہیں دیا، وہ پاکستان بننے کے بعد اس کے مامے چاچے بن گئے اور ”اسلام خطرے میں ہے“ کے نعرے لگا کر مذہبی رواداری کے خاتمے کے ذمہ دار بن گئے۔ پاکستان کی اولین معیشت میں پارسی تاجروں کا بڑا ہاتھ تھا۔ ہندووں کی آبادی بھی اچھی خاصی تھی۔ کراچی میں تو یہودیوں کی ایک نسل آباد تھی جن کے لئے مختص قبرستان شاید اب بھی تجاوزات سے بچا ہوا ہو۔

خیبر اور دوسری ایجنسیوں میں خاصے ہندو اور سکھ آباد تھے۔ تاہم مذہبی رواداری ختم ہونے کے بعد تمام غیر مسلم یکے بعد دیگرے پاکستان چھوڑتے گئے۔ جوں جوں پاکستان میں مسلمانوں کی شرح بڑھتی گئی، اور ان کے ٹارگٹ یعنی دوسرے مذاہب کے لوگ کم ہوتے گئے، مسلمانوں کو نئے ٹارگٹ اپنے ہی میں سے چننے پڑے۔ چناں چہ شیعہ جلوسوں میں دھماکے ہونے لگے۔ سنیوں میں بھی دیو بندی اور بریلوی آپس کے دشمن ہیں۔ کراچی میں جہاں زبان کی بنیاد پر مسلمانوں ہی کی جتھا بندی ہونے لگی تھی، وہاں مختلف مکتبہء فکر کی مذہبی جماعتیں آج بھی بھتے لیتی ہیں۔

پنجاب میں تو کئی مساجد کے دروازوں پر لکھا ہوا ہے کہ فلاں مسلک کے علاوہ کسی کو مسجد میں آنے کی اجازت نہیں۔ یہ تمام نفرتیں بنیادی طور پر معاشی پہلو رکھتی ہیں۔ ہر مسلک اور ہر طبقہ اپنی قوت سے اپنا معاش بنانے پر زیادہ زور دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ڈنمارک میں گستاخانہ خاکے چھپے تو ڈائیوو کی بسوں کو دوسری ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی طرف سے اسی آڑ میں آگ لگا دی گئی۔ ظاہر ہے ڈائیوو کا نہ تو ڈنمارک سے تعلق ہے اور نا ہی ان کا مذہب ایک ہے۔

اسلام آباد کی ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسوں کو قادیانی کا ٹھپا لگا کر نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ اب بھی جب گرمی کا موسم قریب آنے لگتا ہے تو فضا اینٹی قادیانی نعروں سے گونجنے لگتی ہے کیوں کہ ایک مشروب کے بارے مشہور ہے کہ کسی قادیانی کا ہے۔ میرے چند دوست جو ہندو ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، ان کو نا تو داخلہ کی وزارت منہ لگاتی ہے اور نہ خارجہ وزارت میں ان کی شنوائی ہوتی ہے۔ ایک دوست میرے ساتھ ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے بھارت گئے۔ اس کے کئی سال تک انٹیلی جنس کے ادارے ان سے پوچھ گچھ کرتے رہے۔

اب جو اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر کا اعلان ہوا ہے۔ گویا قیامت آ گئی ہے۔ میرے اچھے خاصے پڑھے لکھے دوست، ڈاکٹر اور سائنسدان، فیس بک پر ایسی پوسٹیں لگا رہے ہیں، گویا بس پاکستان کو دوبارہ بھارت میں ضم کیا جا رہا ہے۔ کسی کو بابری مسجد یاد آ رہی ہے اور کسی کو مسجد اقصیٰ۔ اس مملکت خداداد کو کسی محمد بن قاسم نے فتح نہیں کیا اور نا ہی یہاں کی غیر مسلم آبادی ذمی قرار دی گئی ہے کہ ان سے جذیہ لیا جا رہا ہو۔ پیغمبر ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے دور میں تو باہر سے آئے ہوئے غیر مسلم وفود کو عین مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی گئی تھی۔

کنویں سے ذرا باہر آ کر عالمی سطح پر ہی دیکھا جائے، تو مسلمانوں کو کسی غیر مسلم ملک میں مذہبی اقدار منع نہیں ہیں۔ اسی طرح سے اب عرب ممالک مذہبی آزادی کی تھوڑی بہت اجازت دینے لگے ہیں اور کئی عرب مسلم ممالک میں مندر اور کلیسا بننے لگے ہیں۔ اس گلوبل ویلیج کے دور میں مذہبی تنگ نظری نہیں چلے گی۔ اس ملک میں مذہب کے نام پر جتنا تشدد ہوا اور بالخصوص اسے افغانستان کی جنگ کو ”غزوہ ہند“ کے ساتھ نتھی کرنے کا جو نتیجہ ہماری اپنی تباہی کی شکل میں نکلا، اسی سے سبق حاصل کر لیں۔

کوئی مذہب بھی ظلم، دشنام طرازی، بد دیانتی یا قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ اعمال صالحہ سب کے سب عالمی سچائی پر مشتمل ہیں۔ عبادات مختلف ہیں اور ان پر ایک ہی مذہب میں بھی لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ پانچ دہائیوں سے اسلام کے نام پر ہمارے ساتھ جو جو کھیل ہوئے وہ سبق حاصل کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مسلمان تو ہم سبھی ہیں، تھوڑا سا اب انسان بن کر بھی دکھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).