تعلیمی نظام، کمرشلائزیشن اور شخصی دانش


یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے انفرادی و اجتماعی نفسیات پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں، لیکن قابل غور صورت احوال یہ ہے کہ شخصی دانش نے بلوغت کے مدارج طے کرتے ہوئے بتدریج ترقی کی ہے۔ سوشل میڈیا اور اینڈرائیڈ اور دیگر پلیٹ فارم نے معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ مہیا کیا ہے اور ساتھ ہی اس معلومات کا بہاؤ بھی بہت تیز ہے۔ اس عرصے میں ماس کمیونیکیشن کے ساتھ ساتھ ٹیلی کمیونیکیشن میں بھی خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام، جو کچی اور پکی سے ہوتا ہوا، بی اے اور ایم اے پر ختم ہوتا تھا، وہ بھی اب قصۂ پارینہ ہوا اور اب یہ نظام پہلے مونٹیسوری پھر پلے گروپ پھر نرسری پھر کے جی اور پھر ون ٹو سے ہوتے ہوئے سولہ، اٹھارہ یا بیس سالہ تعلیم پر مشتمل ہے۔ بلا شبہ یہ نظام اپنے اندر کئی شعبوں کو سموئے ہوئے ہے۔ کئی نئے ڈسپلن متعارف ہوئے ہیں اور مزید نئے شعبے بھی متعارف ہو رہے ہیں۔ سولہ سالہ تعلیم کے بعد یہ مزید ایم فل، پی ایچ ڈی کی سطح پر طلبا و طالبات کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتیوں کو نکھار رہا ہے اور کچھ بہت قابل نو جوان لڑکے لڑکیاں اپنے میدان میں خاطر خواہ قابلیت حاصل کر کے نمایاں مقام حاصل کر لیتے ہیں۔

ہمارے یہاں اس ضم میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال رافع بلوچ کی ہے، جنہوں نے بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس سافٹ ویئر انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ گوگل، پے پال وغیرہ نے ان کی قابلیت کا اعتراف کیا اور انہیں جاب کی آفر اور نقد انعامات سے بھی نوازا۔ بی ایس کے فوراً بعد وہ ایک کتاب بھی لکھ چکے تھے، جو ہیکنگ اور سائبر سیکیورٹی کی دنیا میں نہایت اہم اضافہ ہے اور مختلف اداروں میں پڑھائی بھی جا رہی ہے۔

یہاں جو بات قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ رافع بلوچ جو ایک ایوریج سٹوڈنٹ تھے، لیکن اپنے میدان کے ماہر تھے اور غالباً دوسرے یا تیسرے سمیسٹر ہی میں انہوں نے پے پال کو ہیک کر لیا تھا۔ کیا وہ ڈگری اوریئنٹڈ قابلیت رکھتے ہیں یا اسے پریفر کرتے ہیں؟ ڈگری کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن انسانی دانش کھلی آنکھوں سے اس صورت احوال کا مشاہدہ کر سکتی ہے کہ آنے والا وقت کیا ہو گا۔ کیا آنے والے وقت میں ڈگریوں کی کوئی حیثیت باقی رہ جائے گی یا پھر صلاحیت یا قابلیت ہی معیار ٹھہرے گا، کسی بھی کام کے سر انجام دینے میں؟

اس سوال کا جواب، آج ہمیں کمرشلزم کے فروغ سے ملتا ہے۔ آنے والا وقت اتنا عجیب ہے، ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز رفتار سے جدت پیدا ہو رہی ہے۔ مذکور صورت احوال ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ آنے والے میں ڈگریاں سکڑ جائیں گی، کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اس کام کا ابتدائی علم اور اس کی مختصر تاریخ بھی کوئی معنی نہیں رکھیں گی، بلکہ اس کام کو بہتر انداز میں کرنے کی خوبی ہی اصل چیز ہو گی۔ گوگل کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اس میں ملازمین کی ایک بڑی تعداد ہے، جن کے پاس ڈگری نہیں، لیکن وہ اپنے کام میں ماہر ہیں۔

آنے والا وقت ڈگری سے سکڑ کر سرٹیفیکیشن تک رہ جائے گا۔ سکلڈ لوگ ہی اس دنیا میں سروائو کر پائیں گے۔ جب میں سماج میں نظر دوڑاتا ہوں، تو مجھے رافع بلوچ جیسے کئی نوجوان دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ایسے ہی نو جوان سے پچھلے دنوں ملنے کا اتفاق ہوا، جس کی ایف ایس سی پارٹ ون میں دو مضامین میں سپلی آئی ہے، لیکن وہ ہیکنگ اور کمپیوٹر پروگرامنگ میں مہارت رکھتا ہے اور اس حوالے سے کچھ سرٹیفیکیٹ بھی لے رکھے ہیں۔ یہ باتیں اور صورت احوال بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں، ہمارے حال، ہمارے ماضی، ہمارے تعلیمی نظام اور ہمارے مستقبل پر۔ آپ بھی سوچیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).