افغان مذاکرات: مشکلات اورخدشات


طالبان، افغان حکومت اور افغان سول سوسائٹی کے مابین قطر میں مذاکرات جاری ہیں۔ سب کی خواہش اور کوشش ہے کہ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں امن و استحکام کے لیے جلد معاہدہ ہو جائے مگر کئی مشکلات اور خدشات کی وجہ سے جلد ایسا ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

فریقین کے درمیان فکر اور ترجیحات کا اختلاف، عدم اعتماد اور بدگمانیاں بہت زیادہ ہیں۔ امریکہ اور افغان حکومت کو طالبان پر پورا اعتبار ہے نہ طالبان کو ان پر۔ یہ اختلافات اور بدگمانیاں فریقین کے درمیان بھی ہیں اور خود ہر گروہ کے اندر بھی۔ مثلاً مذاکرات کے کوڈ آف کنڈکٹ کے تئیس نکات میں شامل مذاکرات کا مقصد جب لکھا جا رہا تھا تو حکومت جنگ کا اختتام جبکہ طالبان جہاد کے لفظ کے حق میں تھے۔ کسی نے مسئلوں کا اختتام کا کہا لیکن بڑی بحث کے بعد تنازعات کے اختتام کے الفاظ پر اتفاق ہوا۔

یا جب فریقین مذاکرات کے لیے آمنے سامنے بیٹھ گئے تو افغان مذاکرات کاروں کے اہم رکن معصوم ستانکزئی نے کہا بائیں طرف سے تعارف شروع کریں۔ اس پر طالبان مذاکرات کاروں کے ڈہٹی چیف عباس ستانکزئی بولے ”آپ لوگ ہر کام بائیں طرف سے جبکہ ہم مجاہدین ہمیشہ دائیں جانب سے شروع کرتے ہیں“ ۔ یعنی آغاز ہی میں بات چالیس سال پہلے کے ماحول تک جاپہنچی جب دائیں بائیں کی تقسیم گہری اور کمیونسٹوں اور اسلام پسندوں کے درمیان کشکمش برپا تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سیاسی مفاد کے لیے تین نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انثخابات سے قبل افغانستان میں جنگ بندی اور افغان امن معاہدہ چاہتے ہیں۔ افغان حکومت بھی جنگ بندی یا تشدد میں وقفہ اور کمی چاہتی ہے مگر طالبان فی الحال اس کے لیے آمادہ نہیں۔ وہ جنگ بندی سے پہلے مستقبل کے حکومتی نظام کے خد وخال اور عبوری حکومت کی تفصیلات طے کروانا چاہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس عبوری حکومت میں کون کون شامل ہوں گے اور آئندہ حکومت منتخب کرنے کا طریقہ کیا ہوگا؟ کیا طالبان جمہوریت اور موجودہ جمہوری انتظام کو قبول کر لیں گے اور خود ایک سیاسی گروہ کے طور پر انتخابات میں شریک ہوں گے؟ اگر وہ جمہوریت اور انتخابات کی راہ اختیار کریں گے تو اس صورت میں کیا وہ اپنے سخت گیر رہنماؤں اور حامیوں کو مطمئن کرسکیں گے؟ عورتوں کی تعلیم و روزگار اور اقلیتوں اور دیگر مذہبی فرقوں کے حوالے سے کیا وہ سب افغانوں کو قابل قبول پالیسی دے سکیں گے؟

القاعدہ، داعش، حقانی نیٹ ورک اور گلبدین حکمت یار وغیرہ کا کیا کردار ہو گا؟ موجودہ افغان فوج اور سابق مجاہدین اور ان کے کمانڈرز کا کیا ہوگا؟ کیا انہیں عام معافی ملے گی، انہیں فوج میں مدغم کیا جائے گا یا ان کے خلاف کارروائی ہوگی؟ طالبان کہتے ہیں شریعت کے مطابق عورتوں اور اقلیتوں کو تمام حقوق دیے جائیں گے لیکن وہ فقہ حنفی کو ملک کا قانون بنانا چاہتے ہیں۔ کیا افغانستان کے موجودہ آئین میں اس کی گنجائش ہے یا دوسرے گروہ اس پر راضی ہوں گے؟

علاوہ ازیں قانون کی حکمرانی، مستقل اور عبوری عدلیہ، دیگر اداروں کی تشکیل و استحکام، احتساب، وسائل کی تقسیم وغیرہ جیسے امور بھی طے کرنا باقی ہیں۔ پھر کیا علاقائی اور عالمی طاقتوں کا کردار تعمیری ہوگا یا تخریبی؟ تمام افغانیوں کو قابل قبول مشترکہ افغان کلچر کی تعریف بھی نہیں ہوئی۔ اور اگر صدر ٹرمپ انٹخابات ہارگئے تو ان کی پالیسی کو انے والا صدر اپنائے گا یا پھر سلسلہ رک جائے گا؟

انتیس فروری کے طالبان امریکی معاہدے میں طالبان نے امریکہ اور اتحادیوں کے لیے خود خطرہ نہ بننے، ایسے مسلح گروہوں سے تعاون نہ کرنے اور افغان حکومت اور گروہوں سے مذاکرات کرنے کا وعدہ کیا۔ امریکہ نے طالبان کی طرف سے مندرجہ بالا وعدوں کی تکمیل کے بعد اپنی فوج سمیت تمام غیرملکی افواج نکالنے، طالبان پر پابندیاں ختم کرنے، افغانستان کی تعمیرنو کے لیے تمام اتحادیوں اور اقوام متحدہ کے تعاون سے وسائل دینے اور آئندہ افغانستان میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کیا۔

اس کے بعد امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان ایک چارنکاتی اعلامیہ پر دستخط ہوئے جن میں طالبان کے دہشت گردی مخالف وعدے، غیر ملکی افواج کا انخلا، بین الافغان مذاکرات، جنگ بندی اور افغانستان کی سرزمین کو آئندہ القاعدہ داعش وغیرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کا گڑھ نہ بننے دینے کے نکات شامل تھے۔ یہ نکات باہمی طور پر مربوط اور منحصر ہیں۔ لیکن ان کے باہمی ربط کی تفصیلات پر ابھی تک کوئی مشترکہ دستاویز سامنے نہیں آئی۔ چنانچہ کل اگر طالبان جنگ بندی کریں تو کیا اس کے سب کمانڈرز یہ فیصلہ مان لیں گے؟ یا امریکہ کہے کہ انخلا کی شرائط پوری نہیں ہوئیں اس لیے امریکی فوج نہیں نکلے گی اور طالبان پر پابندیاں برقرار رہیں گی تو طالبان کا ردعمل کیا ہوگا؟

مستقبل کی افغان حکومتی نظام بارے ملک کے اندر اور باہر خدشات ہیں۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ افغانستان پھر علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ بن جائے گا۔ لیکن ان پریشانیوں اور خدشات کو تعمیری مذاکرات میں رکاوٹ نہیں ہونا چاہیے۔ انتیس فروری کے طالبان امریکہ معاہدے اور جاری بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے طالبان، امریکہ اور افغان حکومت کو اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا اور دوسرے فریق کو رعایتیں دینی پڑیں۔ تحمل، مفاہمت، قربانی اور خلوص نیت و عمل کے بغیر ائندہ بھی مذاکرات میں کامیابی مشکل ہے۔

امید ہے سب افغان گروہ بیرونی قبضے اور مداخلت سے پاک ماحول اور رواداری پر مبنی بات چیت سے یقینی بنائیں گے کہ افغانستان عالمی برادری کا ایک ذمہ دار ملک ہو، امن و استحکام کا مرکز ہو اور یہاں سے کسی ملک کو خطرہ نہ ہو۔ بحالی اور تعمیر نو میں بین الاقوامی برادری کا مسلسل تعاون ضروری ہے۔ دوسرے ممالک بھی اس کی آزادی اور سالمیت کا احترام کریں اور اسے تعاون نہ کہ مقابلے اور تنازعے کا میدان بنائیں۔ فی الحال مذاکرات اور تشدد ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ خدشہ ہے کوئی بڑا حملہ کسی بھی وقت مذاکرات ملیا میٹ کر سکتا ہے جنانچہ مذاکرات کی کامیابی واسطے فریقین تشدد کم یا ختم کریں۔

اور جب تک افغانستان کے تمام اہم نسلی، سیاسی اور مذہبی گروہ کسی متفقہ افغان امن معاہدے تک نہیں پہنچ پاتے اور افغانستان کی اپنی افواج پورے ملک کو محفوظ رکھنے کے قابل نہیں ہو جاتیں یہاں غیرملکی افواج موجود رہنی چاہئیں ورنہ افغانستان پھر خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).