ملاوٹ زدہ سچ


طاقت کی وجہ سے خوف پیدا ہوا کرتا ہے اور پھر یہ خوف بڑھتا بڑھتا نفرت میں بدل جاتا ہے۔ یہ نفرت آہستہ آہستہ بغاوت بن جاتی ہے اور بغاوت جب طاقت سے ٹکراتی ہے تو طاقت کے پلے کچھ نہیں رہتا۔ یہ عارضی دنیا جس میں خاک کا بنا نادان انسان، مستقل اور پختہ اقتدار چاہتا ہے۔ چاہے اس کے لئے اسے کوئی بھی حربہ اختیار کرنا پڑے۔

یہاں اقتدار کے ایوانوں کی ہوس اس قدر ہے کہ لوگ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کے اپنے پیاروں کی جان تک لے لیتے ہیں۔ تخت کے نشے میں دھت ہوتے ہیں، یوں کہ خبر نہیں رکھتے ارد گرد کے مکینوں کی۔ روشنیوں کی چکا چوند میں گم ہوتے ہیں، اس قدر کہ اندھیروں کی تاریکی کا سن کر گھبرانے لگتے ہیں۔

خیر باتوں ہی باتوں میں چل نکلتے ہیں میدان سیاست کی طرف، اور دیکھتے ہیں کون کس کو باؤنسر مار کر حواس باختہ کر رہا ہے اور کون کس کو کتنے چھکے مار کر چھکے چھڑا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں چوں کہ پائے جاتے ہیں نامور کھلاڑی، تو اکثر مختلف طرز کے کھیل رہتے ہیں سدا جاری۔

بنیادی طور پہ وطن عزیز میں غیر جانبدارانہ سچ بولنا لکھنا اور سننا تقریباً ممنوع ہی ہے۔ کیوں کہ جب بھی سچ اختلاف کی صورت اختیار کرے گا، تو اپنے پرائے سارے ہی مخالف صفوں میں کھڑے ہو جائیں گے۔ ایسی صورت احوال بہت خوف ناک ہوتی ہے اور یہی اکیلے پن کا خوف تو سچ بولنے کی راہ میں اژدھے کے مانند پھن پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔ ہم لوگ عظیم لوگ سچ کو کہنے سے کترا جاتے ہیں۔

نواز شریف کو آپ چی گویرا بنائیں یا سقراط کا نام دیں، دل کی تسلی کو نام تو دیے ہی جا سکتے ہیں نا۔ مگر یقین جانیے نواز شریف آپ کے دیے گئے ناموں کا بھرم رکھنے سے قاصر رہیں گے۔ نواز شریف جمہوری بالا دستی کا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے۔

بے شک عوام کے دل میں نواز شریف کے لئے محبت ہو گی، مگر یہ محبت ہمیشہ کی طرح یک طرفہ رہے گی۔ اقتدار کی بھول بھلیوں میں اور طاقت کے نشے میں گم ہوں گے، یہ صاحب۔ ایسے کہ جمہوریت کا راگ الاپنا مشکل ہو جائے گا، ان کو۔

یہ سب (نواز، عمران زرداری) اشرافیہ ہی ہیں۔ یہ اس نظام کو کبھی نہیں بدلیں گے۔ یہ جب جب بھی اقتدار میں ہوں گے، تو اسی بوسیدہ نظام کو نا صرف مضبوط کریں گے، بلکہ اس کی حفاظت بھی کریں گے اور جب جب یہ اقتدار سے باہر ہوں گے، تو آدھے سچ بول کر ہیرو بنیں گے۔

فرض کریں، اگر آج بھی نواز شریف ہی تخت پہ ہوتے، تو بتاتے ایسے سچ، اس بھولی بھالی قوم کو؟ اقتدار میں رہتے ہوئے عمران خان بھی نہیں سدھاریں گے، اس نظام کو۔ مگر جونہی اقتدار سے محرومی ہو گی، تو طرح طرح کے انکشافات خان صاحب کی زبان سے ہوں گے (ماضی گواہ ہے اس بات کا)۔

ایکسٹینشن کے ووٹ نے میاں صاحب کو مشکوک ٹھہرا دیا ہے۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے، مگر اکیلے پن کا خوف مجبور کر رہا ہے، سوچ کی سرحدوں پہ پہرے دار کھڑے آنکھیں نکال رہے ہیں۔ اس لئے اس تیز دھار پل صراط پہ قدم رکھنے کا خوف ذہن پہ مسلط ہے۔
کبھی وڈیرے بن کر
کبھی لٹیرے بن کر
کبھی ایوانوں میں جانے کے لئے
کبھی زندانوں میں جانے کے لئے
پروٹوکول کل بھی یہی لیتے تھے
پروٹوکول آج بھی یہی لیتے ہیں
کیوں؟
کیوں کہ اس طاقتور نظام کی کنجی
اسی طاقتور طبقے کے ہاتھ میں ہے
جو وقت پڑنے پہ
انہی وڈیروں اور لٹیروں کو
پورے پروٹوکول کے ساتھ
کبھی ایوانوں میں
اور کبھی زندانوں میں
مقفل کر دیتا ہے۔
(فراست محمود)

ویسے جمہوریت بہترین انتقام ہے، ہر آمریت کا۔ چاہے آمریت کا روپ کوئی سویلین دھارے یا وردی والا۔ اتنی سی بات پہ غداری والے سرٹیفکیٹ جاری کرنا زیادتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).