انڈین کپتان کے ہاتھوں جنگی قیدی بننے والا پائلٹ جو پاکستانی فضائیہ کا سربراہ بنا


یہ کہانی 21 نومبر سنہ 1971 کی ہے۔ انڈیا پاکستان جنگ کے باضابطہ آغاز سے 11 دن پہلے کی بات ہے۔ دو دن پہلے ہی '4 سکھ رجمنٹ' کے فوجی کچھ ٹینکوں کے ساتھ مشرقی پاکستان کے قصبے چوگاچھا کی طرف بڑھے تھے۔

فوج کی ایک ٹکڑی ٹینکوں پر سوار تھی اور مزید تین کمپنیاں اس کے پیچھے پیدل چل رہی تھیں۔ پاکستان کی ‘107 انفینٹری بریگیڈ’ کے فوجی انھیں الجھانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن انڈین فوجی جوش و خروش سے پر تھے۔ مقامی لوگ ان کا خیرمقدم ‘جوئے بنگلہ’ کے نعرے کے ساتھ کررہے تھے جس کے جواب میں 4 سکھ رجمنٹ کا نعرہ ‘جو بولے سو نہال’ گونج اٹھتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

را کے بانی کاو: ’آپ نہ ہوتے تو 1971 بھی نہ ہوتا‘

65 کی جنگ اور پاکستانی پائلٹ کا افسوس

کیا انڈیا کے ’54 لاپتہ‘ فوجی پاکستان کی قید میں ہیں؟

مجموعی طور پر ہالی وڈ کی فلم ‘بیٹل آف دی بلج’ جیسا منظر تھا۔ شام تک انڈین فوجی چوگاچھا میں دریائے کباڈک کے ساحل تک پہنچ چکے تھے۔ 4 سکھ رجمنٹ کی ٹینکوں کے ساتھ چلنے والی ڈی کمپنی نے پُل تک پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی پاکستانی فوجیوں نے پُل کو اڑا دیا۔

پل کے مغربی کنارے پر ایک ہندوستانی ٹینک ریت میں پھنس گیا تھا اور اسے نکالنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔

چار سیبر جیٹ طیاروں نے حملہ کیا

فور سکھ رجمنٹ کے ایڈجوٹانٹ کیپٹن ایچ ایس پناگ نے، جو انڈین فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ‘دی انڈین آرمی، ریمینیسنس، ریفارم اینڈ رومانس’ میں لکھا: ’22 نومبر کو جیسے ہی دھند چھٹی، پاکستانی فضائیہ کے چار سیبر جیٹ طیاروں نے فور سکھ رجمنٹ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کردیے۔ ان کی کوشش تھی کہ پل کے قریب پھنسے ہوئے انڈین ٹینک کو کسی طرح تباہ کر دیا جائے۔’

‘ہم اپنی فضائیہ سے بار بار ایئر کور کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن ہمارا مطالبہ قبول نہیں کیا جا رہا تھا، کیونکہ جنگ کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا تھا۔ ہم لائٹ مشین گن جیسے ہلکے ہتھیاروں سے ہی طیاروں پر گولیاں چلا رہے تھے۔’

کچھ ہی منٹوں میں سیبرس سے لڑنے کے لیے نیٹ طیارے پہنچے

اسی وقت دم دم ائیر پورٹ پر فلائنگ آفیسر ڈان لزاروس فلائنگ آفیسر سونیتھ سواریس کے ساتھ سکریبل کھیل رہے تھے۔

دو بج یر 37 منٹ پر دم دم ائیر بیس کا سائرن بجنے لگا۔ لزاروس اور سواریس سکریبل کا کھیل چھوڑ کر اپنے نیٹ طیاروں کی طرف دوڑ پڑے۔

دوسری طرف فلائٹ لیفٹیننٹ رائے میسی اور ایم اے گنپتی بھی اپنے طیاروں کی طرف لپکے۔

جہاں پاکستانی سیبر جیٹ طیارے 4 سکھ رجمنٹ پر حملہ کر رہے تھے وہ علاقہ دم دم ائیربیس سے تقریبا 50 میل شمال مشرق میں تھا۔ ان چار نیٹ طیاروں کو وہاں پہنچنے میں 8 سے 9 منٹ لگے۔ دوسری طرف کیپٹن پناگ اپنے ٹھکانوں پر رسد کا معائنہ کرنے کے بعد اپنی جیپ سے لوٹ رہے تھے۔

پناگ یاد کرتے ہیں: ‘میں نے دیکھا کہ تین بجے کے قریب تین سیبر طیارے 1800 فٹ کی اونچائی پر گئے اور پھر بم گرانے کے لیے 500 فٹ تک نیچے آگئے۔ پھر میری نظر ان چار طیاروں پر گئی جو درخت کی اونچائی پر اڑتے ہوئے میرے سر سے گزر گئے۔ وہ اتنی تیزی سے گزرے کہ میری جیپ لڑکھڑا گئی۔’

’ایک لمحے کے لیے مجھے خیال آیا کہ کہیں پاک فضائیہ نے ہمیں روکنے کے لیے اپنا سارا سکواڈرن تو نہیں لگا دیا ، لیکن پھر یہ چاروں جنگی طیارے ایک سیبر طیارے کے تعاقب میں لگ گئے۔ سیبرز کو پتہ ہی نہیں چلا کہ نیٹ میدان جنگ میں کود پڑے ہیں۔ لیکن مجھے اندازہ ہو گیا اور میں جیپ روک کر اس فضائی لڑائی کو دیکھنے لگا۔’

میسی نے پہلا برسٹ فائر کیا

فضائیہ کے معروف مورخین پی وی ایس جگن موہن اور سمیر چوپڑا اپنی کتاب ‘ایگلز اوور بنگلہ دیش’ میں لکھتے ہیں: ‘ سب سے پہلے سیبرز پر سواریس کی نظر پڑی جو سب سے دور تھے۔ میسی اور گنپتی ان سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر فائٹنگ پوزیشن میں اڑ رہے تھے۔ سواریس نے ریڈیو پر چیخے ‘کانٹیک’ اور پھر کوڈ ورڈ میں ‘گانا ڈونی’ کہا یعنی سیبر آپ کی دائیں طرف 4000 فیٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے۔ لیکن گنپتی پھر بھی سیبر کو نہیں دیکھ پائے۔سواریس پھر ریڈیو پر چیخے، ایئرکرافٹ ایٹ ٹو او کلاک، موونگ ٹوون او کلاک، تھری کلومیٹرز اہیڈ’۔

اسی دوران، میسی نے سیبر کو دیکھا اور اس نے 800 گز کے فاصلے سے سیبر پر اپنا پہلا گولہ داغا۔

لزاروس نے 150 گز کے فاصلے سے سیبر پر نشانہ لگایا

نیٹ سے حملہ کرنے والے ان چار افراد میں سے ایک فلائنگ آفیسر اس وقت ملائشیا میں مقیم ہیں اور انھیں یہ لڑائی اس طرح یاد ہے گویا یہ کل کی بات ہو۔

لزاروس بتاتے ہیں: ‘اسی وقت میری نظر تیسرے سیبر پر گئی۔ میں نے اپنا نیٹ اس کے تعاقب میں لگا دیا۔ میں نے اس پر 150 گز کے فاصلے سے فائر کیا۔ یہ ایک چھوٹا برسٹ تھا۔ میری توپ سے صرف 12 گولے نکلے ہوں گے کہ سیبر میں آگ لگ گئی۔ میں ریڈیو پر چلایا ‘آئی گاٹ ہِم! آئی گاٹ ہِم! میرے نیٹ کے راستے میں ہی سیبر میں ایک دھماکہ ہوا۔ دھماکا اتنا قریب تھا کہ سیبر کے ملبے کے کچھ حصے میرے نیٹ سے ٹکرا گئے اور اس کے ‘نوز کون’ اور ‘ڈراپ ٹینکس’ سے چپک گئے۔’

دوسری طرف ، جب میسی نے اپنا دوسرا برسٹ فائر کیا تو ، اس کی توپ جام ہو گئی۔ لیکن ان کا تیسرا برسٹ سیبر کے ‘پورٹ ونگ’ میں لگا اور اس میں سے دھواں نکلنا شروع ہو گیا۔ میسی نے اپنے ریڈیو پر طیارہ گرانے کا کوڈ ورڈ ‘مرڈر، مرڈر’ کہا۔

پناگ نے پاکستانی پائلٹ کو پیٹنے سے بچایا

ادھر زمین پر یہ منظر دیکھنے والے پناگ نے دیکھا کہ دو سیبر جیٹ نیچے گر رہے ہیں اور ان میں دو پیراشوٹ کھل گئے ہیں اور وہ ان کے فوجیوں کی طرف آرہے ہیں۔

پناگ نے بتایا: ‘ہمارے فوجی اپنے بنکروں سے باہر آئے اور گرتے ہوئے پیراشوٹ کی طرف بھاگے۔ مجھے لگا کہ لڑائی کے جذبے سے سرشار ہمارے فوجی پاکستانی پائلٹ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پہلے میں نے اپنی جیپ اس طرف کی اور پھر جیپ کو روک کر جس قدر تیزی سے دوڑ سکتا تھا دوڑا۔ جب میں ان سے 50 گز دور تھا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے سپاہی پائلٹ کو گرا چکے ہیں اور رائفل کے بٹ سے اس کو پیٹ رہے ہیں۔ میں چیخ اٹھا اور انھیں رکنے کو کہا۔ میں اس کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنے جوانوں سے اسے بچایا۔’

بٹوے میں اہلیہ کی تصویر

اس پائلٹ کو مارچ کراتے ہوئے بٹالین ہیڈ کوارٹر لایا گیا۔

پناگ کا کہنا ہے کہ ‘میں نے پائلٹ کی پیشانی پر لگنے والی چوٹ کی مرہم پٹی کرائی۔ پائلٹ کا نام فلائٹ لیفٹیننٹ پرویز مہدی قریشی تھا۔ وہ ایک لمبا خوبصورت فوجی تھا۔ وہ یقینا 6 فٹ سے بھی دراز قد تھا۔ پہلے تو وہ تھوڑا سا گھبرائے ہوئے تھے کیونکہ ان کی تھوڑی پٹائی ہوئی تھی۔ لیکن بعد میں وہ بہت حوصلے کے ساتھ پیش آئے۔ وہ ڈھاکہ میں مقیم پاکستان ایئر فورس کے 14 ویں سکواڈرن کے سکواڈرن کمانڈر تھے اور انھیں پاکستان ایئر فورس اکیڈمی کی جانب سے سب سے گرانقدر اعزاز ‘سوارڈ آف آنر’ مل چکا تھا۔

‘میں نے ان کے بٹوے کی تلاشی لی۔ اس میں ان کی اہلیہ کی تصویر تھی۔ میں نے اسے وہ تصویر اپنے پاس رکھنے کے لیے دی۔ پھر میں نے اس کے پاس موجود سامان کی ایک فہرست بنائی، جس میں ان کی ایک گھڑی، 9 ایم ایم پستول، 20 گول گولیاں اور ان کی سروائول کٹ تھی۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ اب آپ جنگی قیدی ہیں اور آپ کے ساتھ جنیوا معاہدے کے تحت سلوک کیا جائے گا ۔ جب اسے ہمارے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر لے جایا جارہا تھا اس نے ایک لفظ نہیں کہا۔ لیکن اس کی آنکھوں سے میں صاف پڑھ سکتا تھا کہ گویا وہ میرا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔’

اس واقعے کے اگلے روز پاکستانی صدر جنرل یحییٰ خان نے پاکستان میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا۔

دو دن بعد 25 نومبر کو انھوں نے ایک بیان دیا: ‘دس دن کے اندر ہماری افواج انڈیا کے ساتھ جنگ کر رہی ہوں گی۔’

جنرل پناگ کے ساتھ بی بی سی کے ریحان فضل

جنرل پناگ کے ساتھ بی بی سی کے ریحان فضل

دم دم ائیربیس پر پائلٹوں کا خیر مقدم

یہ پوری فضائی لڑائی محض دو یا ڈھائی منٹ میں ختم ہوگئی۔ جب انڈین نیٹ طیارے دم دم ائیرپورٹ پر اترے تو ان کا استقبال کرنے کے لیے پورا ائیربیس موجود تھا۔

لزاروس نے بتایا: ‘ہمارے فارمیشن کا کال سائن- کاک ٹیل تھا۔ انھوں نے پوچھا ‘کاک ٹیل 1؟’ اس نے کہا ‘مرڈر مرڈر’ جس کا مطلب ہے کہ اس نے ایک طیارہ گرا دیا۔ کاک ٹیل 2 نے کہا ‘نیگیٹو’۔ کاک ٹیل 3 نے کہا ‘مرڈر مرڈر’ اور میں نے بھی کہا ‘مرڈر مرڈر’۔ ہماری لینڈنگ سے پہلے ہی یہ معلومات ان تک پہنچ چکی تھی۔’

‘جب ہم وہاں اترے تو ہمارے طیارے کو لوگوں نے گھیر لیا۔ عام طور پر پائلٹ سیڑھی سے نیچے اترتا ہے۔ نیٹ طیارہ بہت چھوٹا ہے۔ عام طور پر ہم اس سے نیچے کود جاتے ہیں، لیکن ہمیں اس دن نیچے نہیں اترنے دیا گیا۔ ہمارے ساتھیوں نے اپنے کاندھوں پر ہمیں نیچے اتارا۔’

اس کے بعد وہ پائلٹ سب کے ہیرو بن گئے اور جہاں بھی گئے لوگوں نے انھیں گھیر لیا۔ انڈین فضائیہ کے چیف ایئر چیف مارشل پی سی لال خاص طور پر ان ایئر مینوں کو مبارکباد دینے کے لیے کولکتہ پہنچے۔

انھوں نے کہا: ‘ہم نے حقیقی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہوائی جنگ جیت لی۔’

کچھ دنوں بعد وزیر دفاع جگجیون رام اور مشرقی فضائیہ کمان کے چیف ایئر مارشل دیوان بھی ان چاروں پائلٹوں، فلائٹ کنٹرولر کے بی باگچی اور ان کے کمانڈنگ آفیسرز کو مبارکباد دینے دم دم ائیربیس پہنچے۔

انھوں نے ان سب کو پھولوں کے ہار پہنائے اور نیٹ طیارے میں سوار ہو کر ان کے ساتھ تصاویر کھینچوائیں۔

پرویز قریشی مہدی پاک فضائیہ کے چیف بنے

اس جنگ میں حصہ لینے والے پائلٹس میسی، گنپتی اور لزاروس اور فلائٹ کنٹرولر باگچی کو ویر چکر سے نوازا گیا۔

فلائٹ لیفٹیننٹ پرویز قریشی مہدی ڈیڑھ سال تک گوالیار میں قیدی کی حیثیت سے قید رہے۔

سنہ 1997 میں پرویز قریشی کو پاک فضائیہ کا سربراہ بنا دیا گیا۔

اس عہدے پر وہ تین سال تک فائز رہے۔ 1999 میں جب اٹل بہاری واجپائی پاکستان تشریف لائے تو وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں واجپائی سے ملوایا۔

بعد میں یہ خبر آئی کہ کارگل جنگ کے معاملے پر اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف سے ان کا اختلاف تھا اور انھوں نے کارگل جنگ میں پاکستانی فضائیہ کو شامل کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ایئر مارشل مہدی کی کاک پٹ سیٹ، ان کا پیراشوٹ اور سیبر طیارے کے کچھ حصے ابھی بھی 4 سکھ رجیمنٹ ہیڈ کوارٹرز میں میمنٹو کے طور پر رکھے گئے ہیں۔

مہدی سنہ 1971 کی جنگ کے پہلے جنگی قیدی تھے اور انھیں 4 سکھ رجمنٹ کے کیپٹن ایچ ایس پناگ نے جنگی قیدی بنایا تھا۔

کیپٹن پناگ انڈین فوج میں بطور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر ہوئے۔ اس سے پہلے وہ شمالی اور مرکزی کمان کے چیف جنرل آفیسر کمانڈنگ بھی رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp