تقریر سے تقریر تک



پی ڈی ایم کے جلسے میں میاں صاحب اپنی تقریر میں کہی بھی کہہ گئے، ان کہی بھی اور ان ہونی کے اشارے بھی دے گئے۔

وطن عزیز میں جب کبھی اپوزیشن کی جماعتوں کا اتحاد ہوا، ہم نے سیاست کی بساط الٹتے دیکھی۔ پکڑ دھکڑ بھی دیکھی، مار پیٹ بھی ہوئی، جیل بھرو تحریکیں بھی اٹھیں اور کوئی بھی حکومت سوا پچھلی دو حکومتوں کے، اپنا دور پورا نہ کر سکی۔

اس تیسری حکومت کو بھی جیسی بھی لولی لنگڑی جمہوریت سمجھ لیں، لیکن کم سے کم اتنا تو ہے کہ سامنے آنے سے اجتناب کیا گیا مگر گوجرانوالے کی تقریر میں میاں صاحب نے ’کھینچ لینا وہ میرا پردے کا کونا دفعتا‘ کی سی حرکت کی۔

میاں صاحب نے صاف صاف نام لے کر بتا دیا کہ پچھلے تہتر برس سے سیاست کے ’اس رسوڑے میں کون تھا؟ جو ککر میں سے چنے نکال کے خالی ککر گیس پہ چڑھا دیا کرتا تھا۔‘

گو یہ نہ تو کوئی نئی بات تھی اور نہ ہی حیرت انگیز لیکن کم سے کم میاں صاحب کی اس جرات نے ہمیں اتنا ضرور سمجھا دیا ہے کہ کہیں کوئی سگنل گرین ہو گیا ہے۔ پچھلے برس سے لندن میں سیاسی جوڑ توڑ کر کے میاں صاحب نے کوئی راستہ نکال لیا ہے ورنہ یہ ہی میاں صاحب اپنی حکومت ہوتے ہوئے بھی ’خلائی مخلوق‘ کی حسین اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے۔

اس تقریر سے جو تین اہم باتیں سامنے آ رہی ہیں وہ یہ کہ یا تو حالات ان ہاؤس تبدیلی کی طرف جائیں گے۔ جس کی توقع مجھے اس لیے بھی زیادہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت قریبا مخلوط حکومت ہی ہے۔ ایسی حکومت کے سر سے جب سائیں، ہٹ جاتے ہیں تو ان کا خاتمہ بہت آسان ہوتا ہے۔

گو میاں صاحب کے لہجے میں بہت گھن گرج تھی لیکن ملک کے حالات سے کہیں نظر نہیں آتا کہ ’سائیں‘ پی ٹی آئی کو اکیلا چھوڑ گئے ہیں۔

میاں صاحب نے صاف صاف نام لے کر بتا دیا کہ پچھلے تہتر برس سے سیاست کے اس رسوڑے میں کون تھا جو ککر میں سے چنے نکال کے خالی ککر گیس پہ چڑھا دیا کرتا تھا

دوسری بات یہ نظر آتی ہے کہ میاں صاحب نے اس بار لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایسی لڑائیوں کے انجام ہم نے اچھے نہیں دیکھے۔ بھٹو صاحب جب مری میں قید تھے تو وہیں ان کے انداز دیکھ کر ان کے مستقبل کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔

سیاست ایک شخص کا کھیل نہیں، ایک زندگی کا کھیل نہیں۔ پاکستان کی سیاست موروثی سیاست ہے اور اس پہ جز بز ہونے والوں کے لیے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ انڈین شوبز اور پاکستانی سیاست، دونوں ہی میں گدی چلتی ہے۔

اس صورت میں میاں صاحب نے جو حکمت عملی اپنائی ہے وہ بالکل درست ہے۔ سچائی، ہمیشہ سچائی رہتی ہے، حق غصب تو کیا جا سکتا ہے لیکن ڈنڈے کے زور پہ کبھی بھی نا حق کو حق نہیں کہلوایا جا سکتا۔

وہ بات جو کل تک دبے دبے کہی جا رہی تھی، آج جلسوں میں دہرائی جانے لگی ہے، ہمیں سنتے ہوئے شرم آتی ہے جو اس کے مرتکب ہوتے ہیں کیا ان کو بھی کچھ حیا آتی ہو گی؟

ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہوئے، میاں صاحب نسبتاً پڑھے لکھے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ غریب طبقہ اور خاص کر متوسط طبقہ جو واقعی ان دو برس میں سڑک پہ آ چکا ہے، ممکن ہے وہ پی ڈی ایم کی پکار پہ باہر نکل آئے اور کوئی عوامی تحریک چل پڑے۔

لیکن اس تحریک کے چلنے کی بھی مجھے کچھ خاص امید نہیں۔ پاکستانی، سیاست پہ بات کرنا چاہتے ہیں لیکن سیاسی جلسوں میں شریک ہونے والے دیہاڑی دار ہی ہوتے ہیں۔ سیاسی خیالات خواہ کچھ بھی ہوں یا سرے سے نہ ہوں، ہزار روپیہ، کھانا، واپسی کا کرایہ مل جائے تو خاصے لوگ اکٹھے کیے جا سکتے ہیں۔ مگر جب تک اصل لوگ اپنی گرہ سے خرچ کر کے جلسے میں نہیں پہنچتے، تحریک عوامی نہیں ہوتی۔

ایسی تحریکیں تب ہی چلتی ہیں جب عوام کے دل پہ ہاتھ پڑتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت معاشی حالات بہت خراب ہیں لیکن میرے اندازے کے مطابق سڑک پہ نکلنے والا جذبہ اب بھی موجود نہیں ہے۔

لے دے کہ اب دو ہی صورتیں نظر آتی ہیں کہ یا تو میاں صاحب، سیاست میں اپنی اولاد کا مستقبل محفوظ کرنے کے لیے یہ جنگ کر رہے ہیں اور یا ’رسوڑے‘ میں ایک بار پھر چنے نکالنے کی واردات ہو چکی ہے۔ جو بھی ہو گا جنوری سے پہلے پہلے سامنے آ جائے گا۔

خوش فہم لوگ مارشل لاء کو اب قصہ پارینہ سمجھتے ہیں لیکن حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں وہاں سب کچھ ممکن ہے۔ اس تناؤ زدہ ماحول میں وزیر اعظم صاحب جس طرح سب کو ہنسانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہے ہیں اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ان کو دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے۔

چہرے کی ساری رونق اڑ جائے گی
ہنستے رہیئے جب تک عشق نہیں ہوتا
عشق کے نئے مرحلے سامنے ہیں۔

حکومت کے سامنے مسائل کے ڈھیر ہیں اور اپوزیشن، کچھ ٹھان چکی ہے۔ عوام بے تابی سے اگلی تقریروں کے منتظر ہیں تاکہ کسی طرح یہ بلی تھیلے سے نکلے، معاملات نمٹیں اور قصہ القط ہو۔

تقریر سے تقریر تک ایک ایک دن گزارتے پاکستانی، پھر سے کسی روشن صبح کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ دعا یہ ہے کہ رات کے پردے سے رات ہی نہ نکل آئے، ہمارے حصے کا دن جو کہیں چھپ گیا ہے بالآخر نکل ہی آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).