مسقط سے لاس اینجلس تک


مہتمم مطبخ یا دروغه مطبخ ” ہم خود کلامی کرتے ہوئے مسکرائے، کیا نام دیں اپنے آپ کو؟

 دیکھیے گردش دوراں نے یہ دن بھی دکھانا تھا کہ ہمارے حصے میں یہ ڈیوٹی آئی تھی۔ وہ جو فرائض سونپنے کا چارٹ بنایاگیا تھا اس میں یہ کہتے ہوئے لکھا گیا،

قیام میرے ذمے، طعام آپ کے

یہ بڑا نازک مرحلہ تھا کہ وہ کام جو ہمیں زندگی کا سب سے بورنگ کام لگے یعنی باورچی خانے میں پیاز، ادرک اور لہسن سے الجھنا، ہمیں الاٹ کر دیا گیا۔ یقین جانیے عمر گزر گئی مگر ان لوازمات سے دوستی نہیں ہو پائی۔ لیکن یہاں اس طویل سفر سے پہلے جاری ہونے والے حکم نامے سے مفر نہ تھا سو سوچا کہ کچھ ہاتھ پاؤں مار ہی لیے جائیں۔ اور ہم نے اپنی اسی روش پہ عمل کرنے کا فیصلہ کیا جو ہمیں ہمیشہ امتحان میں ڈال دیتی ہے۔

پانچ لوگوں کے لئے ان تین ہفتوں میں کتنے شامی کباب کافی ہوں گے؟ سو، ڈیڑھ سو، یا دو سو؟

ہم انگلیوں پہ حساب لگاتے ہوئے زیر لب بڑبڑا رہے تھے کہ پاس بیٹھی قوم سن کے چونک اٹھی، کیا؟ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ شامی کباب یہاں سے امریکہ ساتھ جائیں گے؟ ایک تو یہ نہایت واہیات آئیڈیا ہے، دوسرے اس طرح کھانے پینے کی چیزیں لے جانے پہ ممانعت ہے، تیسرے ضرورت کیا ہے آخر؟

ہم نے تمام اعتراضات تحمل سے سنے اور پھر پہلے سے سوچی تقریر کرنی شروع کی، ہماری بیٹی کافی برسوں سے باہر ہے وہ گھر کی بنی چیزوں کا ذائقہ بھی فراموش کر چکی ہے۔ ان چھٹیوں میں ہم اسے یہ سب یاد دلانا چاہتے ہیں۔ دوسرے ہم باہر کے پھیکے سیٹھے کھانے کھا کے جلد ہی اوبھ جائیں گے پھر انہی شامی کبابوں سے بنے سینڈوچ زبان کا ذائقہ بدلنے کے کام آئیں گے۔

اگر امیگریشن نے روک لیا تو؟

تو کچھ نہیں، ہم کہیں گے، لیجیے جناب ہماری طرف سے آپ لطف اٹھائیے

ہمارے پاس ہر اعتراض کا جواب موجود تھا، نہ بھی ہوتا تو ہم کاہے کو ہار مانتے، جو ٹھان بیٹھے تھے کرنا تو تھا۔

نسیم آپا سے تقریبا ڈیڑھ سو کباب بنوا کے فریز کیے گئے۔ روانہ ہونے سے پہلے ہر کباب ایک سینڈوچ بیگ میں ڈال کے باکس میں، پھر ٹمپریچر سٹوریج بیگ میں اور آخر میں ایک بڑے سوٹ کیس میں پیک کر لیا گیا۔ ہمیں یہ سب کرتا دیکھ کے دھیمے سروں میں دانت پیستے ہوئے ایک آواز مسلسل کانوں سے ٹکراتی رہی، یہ ضرور ہمیں پکڑوائیں گی، بے عزت کروانے کا ارادہ لگتا ہے۔

ارے ہم کیا حشیش یا ہیروئن بھر کے لے جا رہے ہیں؟”ہم تنک کے بولے۔

اچھا بھئی، اگر ایسا کچھ بھی ہوا تو آپ کھڑے کھڑے ہم سے لاتعلقی کا اعلان کر دیجیے گا۔ ہم بھگتیں گے ہم بھگتیں گے، وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

اتنا کچھ سننے کے بعد یہ گنگنانے کے لئے ہم اپنے آپ کو تھپکی دی، اوکھلی میں سر دے ہی دیا تھا، اب موصلوں سے کیا ڈرنا؟

چائے کے نشئی ہونے کے ناطے مخصوص راشن اکھٹا کرنے کی طرف خاص توجہ کی گئی۔ مختلف قسم کے ٹی بیگز اور چائے بنانے والے دودھ کی ڈبیوں کا بھی ذخیرہ کیا گیا۔اور ہاں پسندیدہ بسکٹ میکوٹیز… نہیں بھئی ان کے بغیر چائے نوش نہیں ہو سکتی سو کچھ ڈبے وہ بھی۔

بچوں سے کہہ دیا گیا کہ اپنی پسند کے سنیکس جو وہاں پہ نہ ملنے کا اندیشہ ہو، اپنے اپنے بیگ پیک میں جمع کر لیں۔ ذاتی اشیاء باندھنے کی ذمہ داری سب کی اپنی اپنی تھی لیکن حیدر کو کسی پل چین نہیں تھا۔ ماما، ماما کہتا ہر دوسرے منٹ کچھ نہ کچھ پوچھنے آن دھمکتا، چھتری رکھ لوں؟ جاگرز کون سے؟ کتنی پینٹس اور کتنی نیکر؟ارے بیٹا، ہر وہ چیز رکھ لو، جس کے بنا تمہارا گزارا نہ ہو۔ لیجیے جناب حیدر کی سب الیکٹرونکس پیک ہو گئیں۔

صبح تڑکے کی فلائٹ تھی سو رات آنکھوں میں ہی کٹ گئی۔ ہم نسیم آپا کو الوداعی ہدایات دے رہے تھے جو نم آنکھوں اور بھرائی آواز کے ساتھ ایک ایک کو پکڑ کے صدقہ دینے کی فکر میں تھیں۔ ارے گھبرائیے مت، ہم محاذ جنگ پہ نہیں جا رہے۔ ہم نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔ ارے بیٹا گھر سے نکلو تو کیا خبر کہاں کس طرف جنگ چھڑ جائے، انہوں نے اپنا فلسفہ جھاڑا۔

لیجیے جناب، ائرپورٹ ، سامان ، امیگریشن ، ٹیک آف کے بعد اب ہم جہاز میں ہیں، تھکاوٹ سے برا حال اور نیند سے آنکھیں مندی جا رہی ہیں۔ فربہ اور طویل قامت نہ ہونے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ جہاز میں اپنی سیٹ پہ اپنے آپ کو سکیڑ کے آرام سے سویا جا سکتا ہے اور ہم نے یہی کیا۔ اگرچہ بچوں کا خیال تھا کہ ہم کافی دیر ان کی گود میں محو استراحت رہے۔ جس پہ پہلے تو ہم نے انکار کیا لیکن پھر یہ موئے کیمرے والے فون وہ سب دکھا دیتے ہیں جو ماں باپ ماننے سے انکاری ہوتے ہیں۔ واللہ ہم آج تک اس تصویر سے بلیک میل ہو رہے ہیں۔ خیر دل کڑا کر کے اور ڈھیٹ بن کے انہیں وہ سب برس یاد دلانے کی کوشش کی جب وہ ہماری گود میں دراز ہوا کرتے تھے اور اماں پہلو تک نہ بدلتی تھیں۔

ہم ہیتھرو ایئرپورٹ پر لینڈ کر چکے تھے۔ کچھ کے چہروں پہ منزل پر پہنچنے کی شادمانی تھی، کچھ ابھی بھی پیچھے رہ جانے والوں کو سوچتے تھے اور کچھ اگلے سفر کے متعلق سوچ سوچ کے ہولتے تھے۔ آپ ہمارا شمار انہی میں کر لیجیے۔

ہیتھرو پہ چلتے چلتے ہمیں بے اختیار کچھ برسوں پہلے کی یاد آ گئی جب ہم امیتابھ بچن سے ٹکرا گئے تھے۔ کیا آج بھی ؟ بے اختیار گردن گھما کے ادھر ادھر دیکھا۔ سب کچھ وہی اور ویسا ہی تھا، مائک پہ ہوتے اعلانات، بھاگتے دوڑتے مسافر، سٹار بکس کافی، رنگا رنگ دوکانیں لیکن وہ کہیں نہیں تھا پر ہم بھی تو وہ نہیں تھے۔ درمیان میں سات طویل برسوں کا سمندر حائل تھا جس پر ہم ایک ایسی کشتی کی طرح ڈولتے پھرتے تھے جس کے بادبانوں پہ یادوں کے نقش ونگار کندہ ہوں۔

لاس اینجلس کی فلائٹ اناؤنس ہو رہی تھی۔ قطار میں لگے اور سامنے بیٹھی بی بی کے سامنے نامہ اعمال لے کے حاضر ہو گئے۔ امید تو تھی کہ سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی ایک خطرے کی گھنٹی بج اٹھے گی لیکن پھر زیرلب یہ کہہ کر چپ ہو رہے کہ چلیے نام تو ہے نا، کیا ہوا جو بدنامی کا دم چھلا بھی ساتھ ہے۔

کیا ہی منکر نکیر پوچھیں گے بھلا، محترمہ چینگ تو سب حدیں پھلانگ گئیں بس شجرہ نسب کی نقل پیش کرنے کی کسر رہ گئی۔ کیا، کہاں، کیوں، کیسے، کس طرح؟ کی گردان اس طرح تھی جیسے کوئی پہاڑا یاد کر رکھا ہو۔ فرداً فرداً چاروں کو ٹھونک بجا کے جہاز میں بیٹھنے کی اجازت ملی جو اس قدر کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جیسے پیر ودھائی کے لاری اڈے سے چلنے والی کوہستان بس سروس، بس پہیوں سے کچھ کے لٹکنے کی کسر رہ گئی تھی۔

جہاز نے اڑان بھری، بچے اور صاحب فلم دیکھنے میں مشغول ہوئے اور ہم نے موقع غنیمت جان کے کتاب کھولی۔ لندن سے لاس اینجلس آٹھ گھنٹے کا سفر سو کٹ ہی جائے گا آہستہ آہستہ۔

چلیے پھر ملتے ہیں لاس اینجلس میں، اور ہاں یہ بھی تو بتانا ہے آپ کو کہ وہ جو ٹفن باندھ کر لائے ہیں ہمراہ، اس پہ کیا بیتی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).