الوداع، ولیم ٹریور !


یہ سال بھی عجیب گزرا۔ شروع ہوا تو افسانے کی دُنیا کو انتظار حسین کے صدمے سے دوچار کر گیا اور جاتے جاتے ولیم ٹریور کی سُنائونی سنا کر دُنیا کے افسانے کو سوگوار کر گیا۔

اٹھاسی سالہ ولیم ٹریور آئرستان میں پیدا ہوا مگر عمر کا بڑا حصّہ لندن میں گزارا۔ سادہ اور معمولی زندگیوں میں معنی خیز کش مکش کے حامل افسانوں کی بدولت اسے انگریزی میں چوٹی کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ حالیہ تعزیتی مضمون میں ’’نیویورک ٹائمز‘‘ نے اسے سمرسٹ ماہم اور دی ایس پریچٹ کا ہم پلّہ قرار دیا ہے جو میرے نزدیک قدرے زیادتی کی بات ہے۔ ہمارے خیال میں اس کو چیخوف کے سلسلے کا افسانہ نگار سمجھنا چاہیے، جہاں اداسی کی لہر میں بھی سرخوشی شامل ہو جاتی ہے اور معمولی کرداروں کی زندگی میں جیسے چراغ لو دینے لگتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اس مضمون نگار نے جوئس کا حوالہ نہیں دیا جو اس حوالے سے بنیادی نام ہے۔ لیکن جوئس کا نام یہاں ذرا احتیاط سے لینا چاہیے۔ ایک نقاد نے پہلے ہی شکایت درج کرا کر رکھی ہے کہ ٹریور یوں لکھتا ہے گویا تمام ادب جوئس کے اکلوتے افسانوی مجموعے ’’ڈبلنرز‘‘ پر آکر ختم ہوگیا، ’’یولی سیز‘‘ کا اور ’’فنی گنز ویک‘‘ کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ شکایت بجا ہے۔ ہمارے انتظار صاحب بھی جوئس کے بہت قائل تھے، مگر وہی ’’ڈبلنرز‘‘ والا جوئس۔

ٹریور نے لگ بھگ 20 کے قریب ناول لکھے اور اس کے کئی ناول نقادوں اور عام پڑھنے والوں میں یکساں مقبول ہوئے۔ مگر اس کا نمائندہ \"william-trevor1\"کام اس کے افسانوں میں نظر آتا ہے۔ اس نے خود لکھا کہ میں دراصل افسانہ نگار ہوں جو واقعات کو افسانے میں سمیٹ نہیں پاتا تو ناول لکھنے بیٹھ جاتا ہے۔ ’’پیرس ریویو‘‘ والے انٹرویو میں اس نے افسانے کو ’’ایک جھلک دکھانے‘‘ کا فن قرار دیا تھا۔

اس نے بڑے اعتماد اور تیقّن کے ساتھ دیہاتی کردار، آئر لینڈ کے چھوٹے قصبات سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور ڈبلن کی تجارت پیشہ زندگی میں الجھے ہوئے لوگوں کے بارے میں یکساں کامیابی کے ساتھ لکھا۔ ٹریور کے فن پر لکھی جانے والی تنقیدی کتاب کے مصنف Schirmer  نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آئرستان میں اس تنّوع کے ساتھ شاید ہی کسی اور نے لکھا ہو اور یہ کہ اس نے آئرستان میں زندگی کی مکمل تصویر کھینچ دی ہے۔

’’پیرس ریویو‘‘ والے انٹرویو میں ولیم ٹریور نے کہا کہ میرے پاس پڑھنے والوں کے لیے پیغام یا اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے۔ میرا کوئی فلسفہ نہیں ہے اور میں اپنے کرداروں پر اس ابتلا کے علاوہ کوئی اور چیز مسلّط نہیں کرتا کہ جس میں وہ خود کو پاتے ہیں۔

ولیم ٹریور کو متعدد ادبی انعامات سے نوازا گیا۔ کئی بار ان کا نام نوبیل انعام کے حوالے سے بھی سامنے آیا۔ امریکا اور یوروپ کی کئی یونیورسٹیوں نے ان کو اعزازی اسناد سے بھی نوازا۔ لیکن یقیناً سب سے بڑا اعزاز لکھوں پڑھنے والوں کی محبّت ہے جو ان کو نفاست اور ہم دردی سے عبارت اپنے افسانوں کی وجہ سے حاصل ہوئی۔

ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ ولیم ٹریور بے طرح یاد آ رہا تھا اور تقریب یاد آنے کی یہ تھی کہ میں ذکیہ مشہدی کا افسانوی انتخاب پڑھ کر اٹھا تھا۔ مجھے ایلس منرو کا خیال بھی آیا ار ٹریور کا بھی، جو منرو سے سینئر ہیں۔ ان کی بین الاقوامی اثر پذیری کو بہت منفرد انداز میں ایک معاصر افسانہ نگار نے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ چینی نژاد امریکی ادیبہ یی یُن لی (Yiunm li) نے اپنے دوسرے مجموعے کے ساتھ شامل ایک گفتگو میں کہا ہے کہ ’’میں یہ سوچنا پسند کرتی ہوں کہ آپ کہانیاں لکھتے ہیں تاکہ وہ باہر نکل سکیں اور دوسری کہانیوں کے ساتھ بات کریں۔‘‘ اس نے لکھا کہ ولیم ٹریور نے میری کہانیوں کے لیے وہ گنجائش بنائی کہ وہ بھی دُنیا میں باہر آسکیں، اپنے طور پر قائم رہ سکیں اس لیے میری کہانیاں مستقل طور پر ٹریور کی کہانیوں سے باتیں کرتی ہیں۔‘‘ اس نے حوالہ دیا ہے کہ اس نے اپنی کہانی Gold Boy, Emerald Girl، جس پر اس کے اس مجموعے کا نام رکھا گیا ہے، خاص طور پر اس لیے لکھی گئی کہ ٹریور کی کہانی ’’تین لوگ‘‘ سے باتیں کر سکے۔

اس کا خیال ہے کہ کہانیاں بھی لوگوں کی طرح بہت محفوظ و مامون رہنا پسند نہیں کرتیں۔ ان کو اچھا لگتا ہے کہ دوسری کہانیوں سے مکالمہ، گفتگو اور بعض دفعہ بحث مباحثہ بھی کرسکیں۔

ٹریور رُخصت ہوگیا لیکن اس کی کہانیاں باتیں کرتی رہیں گی۔

افسانہ نگار مر گیا، افسانہ زندہ باد!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments