از کجا می آید ایں آواز دوست


جناب نواز شریف نے چپ کا روزہ کیا توڑا، سیاسی ماحول یکایک تلاطم خیز ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی مخالفین کے وہ طعن و تشنیع بھی زور پکڑنے لگے ہیں، کہ وہ ملک سے باہر رہ کر (یا بقول ان کے فرار ہو کر) سیاست کیوں کر رہے ہیں، ملک میں آ کر مردانہ وار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیوں نہیں کر رہے۔ ماضی میں مشرف دور میں ان کی جلا وطنی بھی ان کے لئے ایک سٹگما کی حیثیت رکھتی ہے، جس پر مسلم لیگ کے رہنما اور سپورٹر بہر حال معذرت خواہانہ انداز اختیار کیے رہتے ہیں۔

سیاسی عمل میں بہادری اور مصلحت اندیشی کے مابین کیا تناسب ہونا چاہیے، یہ ایک دل چسپ بحث ہے۔ میاں صاحب کے ناقدین ہمیشہ ان پر تنقید کرتے ہوئے بھٹو خاندان کی شہادتوں کو ایک بہادرانہ طرز عمل قرار دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بجا طور پر ان شہادتوں پر فخر کر سکتی ہے۔ اسے اپنی سیاسی طاقت کا منبع قرار دیتی ہے۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس پھانسی قبول کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود تھی بھی یا نہیں، یعنی کیا ان کو جاں بخشی کی کوئی آفر میسر بھی تھی یا نہیں، ذرا چشم تصور سے دیکھیے کہ 1986ء میں بے نظیر کی بجائے ذوالفقار علی بھٹو پاکستان تشریف لاتے، اور 1988ء کے الیکشن کے بعد ایک نا تجربہ کار بے نظیر بھٹو کی بجائے غلام اسحاق خان کو، ذوالفقار علی بھٹو سے معاملات طے کرنا پڑتے، تو ملک کی سیاسی تقدیر کتنی مختلف ہوتی۔ اسی طرح اگر 2008ء میں مشرف کو نواز شریف کے ساتھ ساتھ بے نظیر کا بھی سامنا ہوتا تو اس کے لئے معاملات کتنے مشکل ہو جاتے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جذباتی نعروں اور بلند و بالا آدرشوں سے قطع نظر، زمینی حقائق کے تناظر میں وقتی سبکی کے مقابلے میں طویل مدتی اہداف زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ بے شک بھٹو صاحب اور بے نظیر صاحبہ کی شہادتوں نے پیپلز پارٹی کو ملکی سیاست میں زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن اگر یہ دونوں رہنما بہتر حکمت عملی سے خود کو محفوظ رکھ پاتے تو کیا پیپلز پارٹی کے لئے بطور جماعت اور پورے ملک کے لئے بھی 1988ء میں بھٹو صاحب اور 2008 میں بھٹو صاحبہ زیادہ فائدہ مند ثابت نہ ہوتیں؟

دوبارہ موجودہ سیاسی منظر نامے کی طرف آتے ہیں۔ مخالفین تو ایک طرف، خود حکومتی وزرا اور ”انتظام“ کے ماؤتھ پیس سمجھے جانے والے اینکر اس انتظام کو ہائبرڈ قرار دے رہے ہیں۔ اب اس ہائبرڈ میں کون کس تناسب سے شامل ہے اس پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک صاحب نے ریستوران میں چکن سوپ آرڈر کرتے ہوئے بیرے سے پوچھا:
”یہ خالص چکن کا ہی ہے ناں؟“
”بیرے نے کمال ایمانداری سے عرض کیا، نہیں حضور! ساتھ میں بیف کی آمیزش بھی ہے۔“
”کس حساب سے؟“
”جی تقریباً ففٹی ففٹی۔“
”یعنی؟“
”جی ایک چوزہ اور ایک بچھڑا۔“

اب اس ہائبرڈ میں چوزہ کون ہے اور بچھڑا کون، اس بحث کو اندیشہ نقض صحت مصنف کے پیش نظر یہیں سمیٹ دیتے ہیں۔ بظاہر یوں لگتا ہے، اور خود اپوزیشن بھی یہی کہہ رہی ہے کہ موجودہ سیاسی ہلچل کا روئے سخن چوزہ نہیں بچھڑا ہے۔ تاہم اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک کا محرک کون ہے۔ ہماری سیاست کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تحریک ہمیشہ وہی کامیاب ہوئی ہے جس کا محرک موجود ہو۔ وہ چاہے ایوب کے خلاف چینی مہنگی ہونے پر احتجاج ہو، بھٹو کے خلاف ”نظام مصطفیٰ“ کا نعرہ ہو، ججز بحالی کا لانگ مارچ ہو یا پاناما عرف اقامہ کا تماشا ہو، ہمیشہ کسی یحییٰ، کسی ضیا کسی کیانی یا کسی پاشا کی مرہون منت رہی ہے۔

یہ محرک نہ ہو، تو محض عوامی تائید کے بل پر 1983ء کی ایم آر ڈی ہو یا حالیہ پی ٹی ایم، ”انتظام“ کا کم ہی کچھ بگڑتا ہے۔ حتیٰ کہ 2014ء کا دھرنا بھی عین وقت پر ایمپائر کی انگلی غائب ہو جانے کے باعث غتربود ہو جاتا ہے۔ تو موجودہ ہیجان کے پیچھے کون سا کیانی کار فرما ہے؟ کیا سوپ کا خریدار پھر سے ہائبرڈ سوپ پینے کو تیار ہو گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس موڑ پر آ کر پچھلے تین سال کا روزہ قضا کرنے کا فائدہ سمجھ سے باہر ہے۔

دوسری جانب کیا بچھڑا چوزہ بدلنا چاہتا ہے؟ یہ بہت حد تک ممکن ہے، لیکن میاں صاحب نے بچھڑے کو جو براہ راست بے نقط سنا ڈالی ہیں، وہ کسی نورا کشتی کے امکان کو رد کر رہی ہیں۔ بچھڑے کی انا پرست طبیعت کے پیش نظر یہ کسی سکرپٹ کا حصہ نہیں لگتا۔ تو کیا یہ کسی سر مست کا اعلان بغاوت ہے؟ کیا کوئی منصور پھر سے سویلین بالا دستی کا نعرہ انا الحق بلند کر بیٹھا ہے؟ مروج ملکی سیاست کی خشک لکڑی سے یہ سریلی آواز بر آمد ہونا کسی خواب سے کم نہیں۔ تو پھر؟ از کجا می آید ایں آواز دوست؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).