خزاں کتنی بدل گئی ہے


کل چھوٹے بچوں کے ساتھ برمنگھم کے نواح میں واقع ایسنگٹن فارم میں جانے کا اتفاق ہوا۔ فارم کی سیر بچوں کو کھیتوں کو دکھانا اور کاشت کاری کے متعلق بتانے کا ایک ذریعہ ہے۔ برطانیہ میں ہیلووین کا تہوار نومبر میں منایا جاتا ہے اور اس سے قبل کھیتوں سے بڑے بڑے کدو چن کر لاتے ہیں اور ان پر مختلف اشکال کندہ کرتے ہیں۔ ہم بھی بچوں کے ساتھ کدو چننے کے لئے اس فارم میں آئے تھے۔ آپ دو دو پاؤنڈ کا ٹکٹ لے کر کھیت میں جائیں اور وہاں سے خود کدو توڑ کر انھیں خرید کر لائیے اور پھر اس کو پکائیں۔

یہ برطانیہ کی ایک روایت ہے۔ ان دنوں برطانیہ میں خزاں کی آمد آمد ہے۔ یہاں چوں کہ بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں اس لئے درخت بھی بہت زیادہ اگتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی کی جاتی ہے۔ ہم جس فارم میں گئے تھے، وہاں گاڑی سے اترتے ہی مجھے کھیتوں کے درمیان بہت سے درخت نظر آئے، پیلے پیلے پتوں والے۔ جس سے صاف پتا چل رہا تھا کہ خزاں کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ صبح ہلکی بارش ہونے کی وجہ سے باہر خنکی بھی تھی۔ درختوں اور ان کے نیچے چڑ مڑ ہوئے پتوں کو دیکھ کر، مجھے اچانک اپنا گاؤں اور سکول یاد آ گیا، میں برسوں پہلے اپنے بچپن میں کھو گیا۔

موسموں میں پچھلے چالیس سال میں اتنی زیادہ تبدیلی آ گئی ہے کہ لگتا ہے جیسے ہمارے بچپن کے موسم کہیں کھو گئے ہیں۔ مجھے ہمیشہ خزاں کا موسم پسند رہا ہے۔ ہمارے سکول کے زمانے میں گرمیوں کی چھٹیاں عموماً جولائی کے پہلے ہفتہ سے شروع ہو کر ستمبر کے پہلے ہفتہ تک رہتی تھیں۔ ہمارا سکول نہر کے کنارے پر واقع تھا جس کی عمارت بڑے بڑے درختوں میں ڈھکی ہوئی تھی۔ اکتوبر میں بارشوں کے ساتھ تیز ہوائیں چلتیں، جس سے زردی مائل ہو جانے والے پتے درختوں سے گر جاتے۔

اس موسم میں بہت تیز ہوائیں چلتیں تھیں جسے ہم اپنی زبان میں جنڈ پرت بولتے تھے۔ یہ عموماً ً باجرے۔ جوار اور مکی کی فصل کے لئے نقصان دہ ہوتی تھیں۔ سکول چوں کہ ہمارے گاؤں سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اس لئے صبح صبح پگڈنڈیوں پر جاتے ہوئے فصلیں اکثر راستہ پر گری ہوتیں جس وجہ سے چلنے میں دشواری ہوتی۔ جب بارش ہو جاتی تو اور زیادہ مشکل ہوتا۔ سکول میں درختوں سے پتے گر گر کر اسمبلی والے میدان میں پڑے ہوتے۔

چڑ مڑ ہوئے پتوں پر چلنے سے چڑ چڑاہٹ کی جو آوازیں آتیں مجھے ان کا بڑا مزا آتا تھا، ہم ان پتوں پر تیز بھاگتے تھے۔ پتوں کی چڑچڑاہٹ کی وہ آوازیں ابھی بھی کہیں ذہن کے نہاں خانوں میں گونجتی ہیں۔ سکول جاتے ہوئے نومبر کی خنک صبحوں میں نہر کے ساتھ پٹڑی پر ٹنڈ منڈ درختوں کے درمیان چلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ گاؤں میں کیکر، بیری، شہتوت اور دوسرے درختوں کی بہار ہوتی تھی۔ جن کی شاخ تراشی خزاں شروع ہونے کے ساتھ ہی کر لی جاتی تھی اور اس کا چھانگ جانوروں کے چارے اور بعد میں جلانے کے کام آتا تھا۔

اب نا ہی وہ پہلے جیسا گاؤں رہا اور نا ہی وہ درخت۔ زمانے کی تیز رفتاری سب کو نگل گئی۔ پچھلے سال، برسوں بعد اپنے سکول جانے کا اتفاق ہوا تو ایک دم دل میں پتوں پر دوڑنے کی خواہش دل میں ابھری اور گھٹ کر رہ گئی۔ کہاں کے پتے اور کہاں کے درخت، ان کی جگہ عمارتیں کھڑی تھیں۔ سکول میں بھی وہ بڑے بڑے درخت توسیع کے نام پر کاٹ دیے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).