آئین کے تقاضے، کرپشن اور مولانا کا کردار


ملک خداداد پاکستان کا آئین پاکستان کی روح ہے۔ آئین پاکستان یہ واضح کرتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے۔ قرآن مجید سے متصادم کوئی قانون ملک میں نافذ العمل نہیں ہو سکتا۔ ارض پاک میں خاتم المرسلینﷺ کو آخری نبی نا ماننے والوں کی کوئی گنجائش نہیں اور نا ہی اہل بیت و اصحاب رسول و رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین سے عداوت رکھنے والوں کی کوئی عزت و توقیر ہے۔ پاکستان کا آئین ہی ہے، جس نے ہمیں عالم اسلام کا محسن و مددگار بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ہمارا آئین ہی ہمیں کشمیریوں سے اخوت کے رشتے سے جوڑتا ہے۔ کشمیر اور کشمیریوں کے لئے جدوجہد پہ ابھارتا ہے۔ فلسطین کے حمایت کا درس دیتا ہے۔ ہمارا آئین ہمیں عالم اسلام سے جوڑتا ہے۔ پاکستان کا آئین برہمنیت کی رسم و رواج، صہیونی و عیسائی و مغربی جارحیت و تہذیبی یلغار کے بر خلاف روحانیت پر مبنی منفرد اسلامی تہذیب و معاشرت کی پاسبانی کرتاہے۔ ہندو، عیسائی، یہودی اور عالمی قوتوں کے مقابلے میں اپنے جداگانہ اسلامی تشخص و نظریات کا امین ہے۔

آئین کی بالا دستی پر امن مملکت کی ضمانت ہے، صوبوں کی وحدت، اخوت اور بھائی چارگی کا نشان ہے۔ عامتہ الناس اور اداروں کے درمیان اعتماد کا نام ہے۔ چوں کہ مملکت پاکستان کی آئین قرآن و سنت کے تابع ہے، اس وجہ سے عوام اور تمام ادارے، اس بات پر متفق ہیں کہ مملکت پاکستان کا آئین سپریم ہے۔ آئین کے دائرہ کار سے کوئی شخص یا ادارہ بالا تر نہیں۔

مملکت پاکستان ایک اسلامی ریاست ہونے کی وجہ سے روز اول سے عالم کفر کے نشانے پر ہے۔ ان قوتوں کا ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مملکت پاکستان کا تشخص اسلامی نہیں، بلکہ سیکولرازم پر مبنی ہو۔ آج اگر عالم کفر کو کوئی چیز کھٹکتی ہے، تو وہ مملکت پاکستان کا آئین ہے، جسے عالمی استعماری قوتیں بہر صورت ختم کرنے کے خواہاں ہیں۔ کیوں کہ پاکستان کی نام کی طرح اس کا آئین بھی مذہبی ہے عالمی اسٹیبلشمنٹ اور ان کے کارندے، آئین کو غیر موثر کرنے کے لئے ہمہ وقت پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ وہ اسرائیلی، مغربی و قادیانی نواز حکومت کے ذریعے آئین میں ایسی ترامیم کے خواہش مند ہیں، کہ مملکت پاکستان کا آئین اسلامی کے بجائے سیکولر بن جائے۔

ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی مذہبی جماعتیں اور خاص کر کے مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت ہے۔ مولانا سے کسی کو کسی بھی طرح کا اختلاف ہو مگر یہ بات مسلم ہے کہ مولانا فضل الرحمن آئین پاکستان اور نظریۂ پاکستان کا زبردست حامی و محافظ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی آلہ کار، سیکولر طبقہ عالمی استعماری قوتوں کے اشاروں پر مولانا فضل الرحمن، ملک کی مذہبی جماعتوں اور مذہبی طبقے کو بد نام کرنے کے لئے بے جا تہمت و زبان درازی کے ساتھ کردار کشی پر اتر آتے ہیں۔ ان کا اختلافات دلیلوں کے بجائے جھوٹ، فریب، تہمت، ضد، عناد اور نفرت پر مبنی ہے۔

کیا مولانا فضل الرحمن کی پاک دامنی کے لئے یہ کافی نہیں کہ حکومت وقت کی شدید ترین مخالفت کے باوجود حکومت اور اداروں کی پوری کوشش کے باوجود، مولانا کے خلاف ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کرسکے، اور پھر سابق جنرلوں کے مولانا کے حق میں بیان۔ ان کی تصانیف شاہد ہیں کہ مولانا ایک محب وطن ایمان دار سیاست دان ہیں۔

اس متفقہ آئین پر بار ہا شب خون مارا گیا۔ سیاستدان ہوں یا جنرل، سبھی نے اپنے مقاصد میں حائل آئین کی اسلامی شقوں میں ترمیم کرنے کی کوشش کی۔ بلکہ کئی مرتبہ آمروں نے آئین کو معطل کر کے مارشل لا اور ایمرجنسی نافذ کی۔ مولانا فضل الرحمن پاکستان کے ان سیاستدانوں میں سے ہیں، جنہوں نے ہر حال میں آئین کی دفاع اور تحفظ کے لئے فعال کردار ادا کیا۔ آئین کی بحالی کے لئے تحریکیں چلائیں۔ پابند سلاسل ہوئے، اور قوم کو یہ احساس دلایا کہ آئین ہی پاکستان کی اساس ہے۔ اس کی حفاظت ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ آئین پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم مساوات کو قائم رکھ سکتے ہیں اور ملک و ملت کو ترقی دے سکتے ہیں۔ آئین کی حکمرانی ہی اصل میں عوام کی حکمرانی ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان میں میں عالمی قوتوں کا جتنا اثر و رسوخ ہے، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ملکی قرضوں کی وجہ سے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی ادارے، پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکے ہیں۔ اب تو بات اس سے بھی آگے نکل گئی کہ پاکستان کی آئین میں ترمیم آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے ایما پر ہو رہی ہیں۔ بے حسی اور بے شرمی کی انتہا ہے کہ پارلیمنٹ کے اسپیکر با قاعدہ اعلان فرماتے ہیں کہ یہ بل ایف اے ٹی ایف کو اعتماد دلانے ان کی خواہش پر پیش کیا جا رہا ہے (یہ ہمارے ملک کے حکمران ہیں، جو ملت کی ترجمانی کریں گے؟) مولانا کا موقف کہ میری جنگ اس حکمرانوں سے نہیں بلکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے ہے، جو پاکستان سے اسلامی تشخص مٹانے کے تگ و دو میں ہیں۔ جو آئین پاکستان پہ شب خون مارنے کے لئے سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔

مولانا خوب جانتے ہے کہ وہ اکیلے اس جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ پاکستان کی دیگر سیاسی پارٹیوں کو بھی ہم نوا ہونے کی ضرورت ہے۔ عالمی قوتوں کے نزدیک کرپشن کوئی معنیٰ نہیں رکھتی (بلکہ وہ ان الزامات اور مقدمات کو سیاسی سمجھتے ہیں)۔ وہ آئین پاکستان سے بیزار ہیں۔ اس اہمیت کے پیش نظر مولانا حزب اختلاف کے اتحاد کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔ مولانا سمجھتے ہے کہ خدانخواستہ ایسا ہو کہ موجودہ حکومت عالمی قوتوں کے دباؤ میں آ کر، آئین میں کوئی ایسی ترمیم کر دیں، جس کی وجہ سے ملک و ملت کو نا قابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے، اور پھر بات اگر صرف کرپشن کی ہو، تو کیا موجودہ حکومت میں کوئی کرپشن نہیں ہو رہی؟ عوام کو کوئی سہولت میسر نہیں۔ اشیا خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حکومتی رٹ کہیں قائم نہیں۔ گندم اور چینی کی کرپشن پکڑی جا چکی ہے، مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ گندم مافیا، چینی مافیا، بجلی مافیا وزیر اعظم کے دوست ہیں، اور تو اور، حزب اختلاف کے گندے انڈے وزیر اعظم کے ہم رکاب ہیں، جن کا کوئی نظریہ ہے نا کوئی مذہب۔ وہ اپنے خواہشات کی تکمیل کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار بیٹھے ہیں (پھر اپوزیشن پہ اعتراض کیوں؟)۔ ایسی پر آشوب حالات میں آئین کی تحفظ کے لئے مولانا جیسے مذہب پسند محب وطن قیادت کی حمایت کرنا ہماری آئینی اخلاقی و مذہبی ذمہ داری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).