فرقہ واریت اور عدم برداشت


اب ایک اور فتنہ سر اٹھا رہا ہے، جیسے ہمارے مسائل کچھ کم نہ تھے۔ کچھ عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے لگی ہے۔ قتل کی وارداتیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اس فتنے پر قابو نہ پایا گیا تو بات ہمارے بس سے باہر ہو جائے گی۔ ہم پہلے بھی اس طرح کے مسائل سے دو چار رہے ہیں۔ فرقہ واریت کی بنا پر قائم مختلف تنظیموں نے اپنے عسکری ونگ بنائے اور مخالفین کو قتل کرنا کار ثواب سمجھنے لگے۔ یہ فرقہ واریت، اقلیتوں کے حوالے سے بعض فتنہ گروں کی کارروائیوں سے بالکل الگ ہے۔

اسلام بنیادی طور پر امن، سلامتی، احترام انسانیت اور ایک دوسرے کے مذہبی اعتقاد کا احترام کرنے کا نام ہے۔ ہم نبی آخر زمان ﷺ کی عظیم تعلیمات سے ہی سیکھتے ہیں۔ حضور ﷺ اور خلفائے راشدین کے ادوار میں نہ تو ہمیں فرقوں کی کوئی تقسیم نظر آتی ہے نہ اس نوع کی کسی کشیدگی کا تصور ملتا ہے۔ قرآن کریم اور نبی پاک ﷺ کی سنت مبارکہ، یعنی آپ کے ارشادات اور آپ کے اسوہ حسنہ ہی مسلمانوں کے لئے مشعل راہ رہا۔ آج بھی عالم اسلام کے تمام جید علماء قرآن و حدیث کو ہی اسلام کا اصل ماخذ مانتے ہیں۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو نہ فرقے جنم لیتے، نہ فرقہ وارانہ تعصب پیدا ہوتا اور نہ نوبت ایک دوسرے کو قتل کرنے تک پہنچتی۔ افسوس ایسا نہ ہوا۔ اور اب تو یہ آگ اس قدر پھیل چکی ہے کہ اس نے عالمی سیاست کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ملکوں کے باہمی تعلقات اور بلاکس، فرقوں کی بنیاد پر بننے لگے ہیں۔

ہمارے دین نے کفر اور اسلام کی واضح لکیر قائم کر دینے کے باوجود اپنے پیغام کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا۔ یہ پیغام بنی نوع انسان کے لئے ہے اور اس پیغام کی روح یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں اور تہذیبی رویوں میں مسلم اور غیر مسلم میں تفریق نہ کرو۔ جب اللہ نے حکم صادر کیا کہ ”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“ تو یہ واضح کر دیا کہ جان کی حرمت کے معاملے میں کافر اور مسلم کی کوئی تمیز نہیں۔ اس کا تعلق انسان ہونے سے ہے۔ ایسے دین کے سچے پیروکاروں کے لئے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ صرف فرقہ وارانہ اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جان لے لیں۔

فرقہ واریت بھی دراصل عدم تحمل اور عدم برداشت ہی کا ایک پہلو ہے۔ جس طرح ہم دوسرے کے موقف، دوسرے کی رائے اور دوسرے کے نظریے کو تسلیم نہیں کرتے اسی طرح ہم یہ بھی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں کہ کوئی دوسرا ہم سے مختلف عقیدہ، مسلک یا فرقہ یا مذہب رکھے۔ کیا یہ بیماری پوری پاکستانی قوم میں پھیلی ہوئی ہے؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔ پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت، جسے 99 فی صد تک کہا جا سکتا ہے اس بیماری سے پاک ہے۔ گلی، محلے، شہر، گاؤں میں کسی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس کے پڑوس میں کون رہتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ مشکل وقت میں ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے معاشرتی میل جول رکھتے ہیں۔ بھائی چارے کے اس ماحول میں آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ کسی گلی یا محلے میں فرقہ واریت کی بنیاد پر کوئی جھگڑا ہو گیا۔

تو پھر یہ وبا کہاں سے آئی؟ کون ہے جو فرقہ وارانہ سوچ کو اسلام کے بنیادی عقائد سے جوڑ دیتا ہے؟ کون ہے جو اپنے پیروکاروں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ مخالف فرقے کے فلاں عالم دین، فلاں مفکر یا فلاں استاد کی جان لے لیں۔ یہ بہت بڑا سوال اس لئے بھی ہے کہ علمائے کرام کی غالب اکثریت بھی فرقہ واریت کے خلاف ہے۔ بلکہ وہ اس فتنے کے خاتمے کے لئے مقدور بھر کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں مجھے علماء اتحاد پر مشتمل تنظیم ”متحدہ مجلس عمل“ کی یاد آتی ہے جس کا بنیادی تصور قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور نے پیش کیا تھا۔

اگرچہ یہ ایک سیاسی اتحاد تھا جس نے 2002 کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی اور خیبر پختون خوا میں حکومت بھی بنائی لیکن فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حوالے سے بھی یہ مثالی اتحاد تھا۔ جب عوام نے سنی، شیعہ، اہل حدیث، دیو بندی یا بریلوی فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کو ایک جگہ بیٹھے، ایک جلسے سے خطاب کرتے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑے دیکھا تو انہیں بہت اچھا پیغام ملا۔ ان علماء نے ایک دوسرے کے مدارس کے دورے کیے، ایک دوسرے کی امامت میں نمازیں پڑھیں تو ماحول میں ایک بڑی تبدیلی دکھائی دینے لگی۔

کاش یہ اتحاد اسی شکل میں برقرار رہتا لیکن سیاست اسے بھی کھا گئی۔ اب بھی تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء مختلف اقلیتوں کے نمائندوں کو اس طرح کی غیر سیاسی تنظیم کا سوچنا چاہیے جو پوری قوم کے لئے مشعل راہ بنے۔ اگر تمام مسالک یا فرقوں کے مدارس میں بھی بچوں کو ہم آہنگی کا سبق دیا جائے اور اسے باضابطہ طور پر نصاب کا حصہ بنا لیا جائے تو بہت اچھے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں۔

اس بات میں بھی وزن ہے کہ ہمارے دشمن ہماری اس کمزوری کا استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت کی طرف سے ایسی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن بنیادی سوال تو یہ ہے کہ ہم اپنے اندر ایسی کمزوری پیدا ہی کیوں ہونے دیں جس سے ہمارے دشمن فائدہ اٹھا سکیں۔ علمائے کرام کو سنجیدگی سے اس مسئلے پر بھی غور کرنا چاہیے کہ وہ مساجد کو بھی فرقہ یا مسلک کی پہچان نہ دیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ اللہ کی عبادت کرنے سے پہلے یہ بھی سوچیں کہ یہ مسجد کس فرقے کی ہے۔

اسی طرح ہمیں اپنی درس گاہوں میں بھی اس فتنے کے خاتمے کی شعوری کوششیں کرنی چاہیے۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ مذہبی فرقہ واریت سے ہٹ کر ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں علاقائی، نسلی، قبائلی اور ذات کی بنیاد پر بھی گروپ بن چکے ہیں جو فرقہ واریت ہی کی طرح ایک دوسرے کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں۔ آئے دن ان میں لڑائی جھگڑے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تفریق یا تقسیم ہمیں قومی سیاست میں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

علامہ اقبال نے کہا تھا۔ فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!

بلا شبہ فرقہ بندی اور ذات پات کی تقسیم مسلمانوں کو زیب نہیں دیتی۔ یہ ہمارے اصل اور ہماری ساخت کے خلاف ہے۔ فرقوں اور ذاتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا بلکہ اس کی جان لینے کے درپے ہو جانا، کسی طور بھی ہمارے دین سے مطابقت نہیں رکھتا۔ میرے خیال میں ان بیماریوں کے خاتمے کا علم، علمائے کرام ہی کو اٹھانا ہو گا۔ تاہم ملک کے دانشوروں اور بالخصوص میڈیا کو اس میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ بلاشبہ اس مسئلے کی بنیاد بھی عدم برداشت اور غیر جمہوری رویوں سے ہے اس لئے سیاستدانوں یہ بھی لازم ہے کہ وہ ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونتے ہوئے نظر نہ آئیں۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).