نیا پاکستان: مدینہ ریاست کی تقلید یا اس سے انحراف؟


اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں، دیگر باتوں کے علاوہ، پاکستان کے حوالے سے دنیا کو اپنے نظام حکومت کے بارے میں بھی آگاہ کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے بتایا کہ ”ہمارے نئے پاکستان کا تصور پیغمبر آخر الزماںﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ کے ماڈل پر ہے“۔ تو آئیے پہلے اس نئے پاکستان کا تعارف دیکھا جائے جو کل عالم کی آنکھوں کے سامنے ہے۔

اقوام متحدہ میں بیٹھی دنیا لفظ ”ہائیبرڈ“ کے معنوں سے بخوبی واقف ہے۔ یعنی دو مختلف چیزوں کا باہمی خلط ملط۔ یہ معنی وہاں آ کر خود بخود پورے ہو جاتے ہیں، جہاں ”وزیر اعظم پاکستان، اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، اسی لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈرز کی میٹنگ خود لینا پڑی تھی، وگرنہ عام طور پر وزیر اعظم خود اپوزیشن کے ساتھ ایسی میٹنگ کرتے ہیں“ (سہیل وڑائچ ’گھڑمس‘)۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف دونوں کی منصبی حیثیت باہم خلط ملط ہو گئی ہے۔

وزیر اعظم کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تو اسی طرح آرمی چیف کو بھی اپنے ایسے اقدام پر کوئی پیشہ ورانہ تامل آڑے نہیں آتا، کیوں کہ دونوں طرف اس بابت ایک پیج پر ہونے کا اتفاق موجود ہے۔ تاہم اس اتفاق کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست اور عوام کی نمائندہ قیادت بے اثر یا بے کار ثابت کرنا، اگر مطلوب ہے تو بھی دوسری طرف عسکری قیادت کا بھی اس تاثر میں ملوث ہونے کا پہلو اجاگر ہونے سے نہیں بچ سکتا تو دنیا کے سامنے ہمارے ملکی فیصلوں کا اختیار، بے سمت بن کر نمایاں ہو گا اور قومی یکجہتی بھی بے جان اور بے وقعت ٹھہرے گی۔

پھر بھی اگر ایسے نئے پاکستان کو ریاست مدینہ کے ماڈل پر ہونے کا دعویٰ کریں گے، تو ہمارا ایسا دعویٰ ریاست مدینہ کی شان حرمت کے بھی منافی ہو گا اور میثاق مدینہ پر مبنی میثاق حکمرانی کی تعریف بھی مسخ کرنے کے مترادف گمراہ کن فساد ہو گا۔ صرف یہی نہیں، اس پر مستزاد یہ کہ ریاست مدینہ کی اساس میثاق مدینہ پر رکھی گئی تھی۔ اس کی بجائے اگر یہ اساس مذہب اسلام یا نظریہ اسلام پر رکھی گئی ہوتی، جیسے پاکستان کے لیے رکھی گئی ہوئی ہے، تو کیا مدینہ کے یہودی، عیسائی، مشرک یا غیر مسلم اس کا حصہ بننے یا اس کی توثیق کرنے پر آمادہ ہو جاتے؟ پاکستان کو اگر ریاست مدینہ کے ماڈل پر ہونے کا دعویٰ منانا اور منوانا واقعی آپ کی ایماندارانہ لگن ہے تو میثاق مدینہ کی تقلید میں قیام پاکستان کی اساس بھی ’میثاق پاکستان‘ ہونا رائج کر لیجیے۔

تاریخی اور حقیقی معنوں میں پاکستان کا قیام مدینہ ریاست کے قیام کی طرح معرض وجود میں آیا۔ ریاست مدینہ کا قیام فوجی قبضے یا عسکری قوت آزمائی سے نہیں، بلکہ وہاں آباد مسلم و غیر مسلم گروہوں، قبیلوں اور فیصلہ ساز حلقوں کے مابین جمہوری مشاورت سے باہمی عمرانی معاہدے یعنی میثاق مدینہ طے ہونے کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا جو ابتدا سے مدینہ کے ایک شہری حصے پر مشتمل تھا، جس کی ایک دفعہ کی رو سے ’مسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین اور یہودیوں (غیر مسلموں) کے لیے ان کا دین، باہمی فیصلوں کی کلید ہونا منظور کیا گیا۔

بعد ازاں یہودی بیرونی قوتوں کے آلہ کار بن کر معاہدے سے منحرف ہوتے گئے اور بالآخر مدینہ چھوڑ کر ان سے ہی جا ملے، تو مدینہ اس کے بعد خود بخود خالص مسلم قومی ریاست کے زیر عمل داری خلافت ارضی کا اولین دارالحکومت بن گیا۔ پاکستان کی بات کی جائے تو اس کا قیام بھی فوجی جنگ یا عسکری چڑھائی کے بل بوتے پر عمل میں نہیں آیا۔ ہندوستان کے مسئلے کے حل کی جانب قائد اعظم محمد علی جناح نے جو پہلے پہل تاریخی معاہدہ لیگ، کانگریس کے درمیان باہمی مشاورت سے طے کروایا اور جو میثاق لکھنؤ کی تاریخی دستاویز پر ثبت ہوا، وہ علیحدگی پسندی یا ہند کے بٹوارے کے حصول کے لئے ہرگز نہیں تھا۔ میثاق لکھنو کی ایک دفعہ کی رو سے بھی متفق فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ’اسمبلی میں اگر کوئی ایسا مسودہ قانون لایا گیا، جو کسی آبادی یا فرقے کی حق تلفی پر ہوا اور متاثرہ فریق کے تین چوتھائی ارکان اس کے خلاف کھڑے ہو گئے تو وہ مسودۂ قانون وہیں ٹھپ دیا جائے گا‘۔

مقصد اور نصب العین اس دفعہ میں یہ مضمر تھا کہ متحدہ ہند دو قومی ریاست ہو گی، مسلم یا ہندو قومیت کے اختصاص کے ساتھ واحد یا متحدہ قومیت کی حامل ریاست مقصود نہیں ہو گی۔ کانگریس اگر میثاق لکھنو سے انحراف کی طرف نہ نکل گئی ہوتی، تو یقیناً متحدہ ہند کی سالمیت جوں کی توں قائم رہتی اور اس صورت میں متحدہ ہند پر سیکولر ازم کی عمل داری ہی کا اطلاق ہوتا۔ لیکن جب تقسیم ہند کا قانون منظور ہوا تو اس میں بھارت اور پاکستان کو، دو آزاد اور خود مختار قومی ریاستیں قرار دیا گیا۔

یعنی بھارت متحدہ قومی ریاست بن گئی اور پاکستان مسلم قومی ریاست۔ کیوں کہ دوران تحریک کانگریس متحدہ قومیت کی داعی تھی اور مسلم لیگ کا مطالبہ جداگانہ مسلم قومیت کے حق میں رہا تھا۔ اس لحاظ سے بھارت میں متحدہ قومیت کے لیے سیکولر نظام عمل داری قائم ہونا تھا۔ جب کہ مسلم قومیت کی اساس پر پاکستان بن گیا تو یہاں نظام حکومت پر عمل داری مسلم تہذیب و ثقافت کی ہو گی، سیکولر ازم کی نہیں ہو گی۔

میثاق لکھنؤ سے لے کر میثاق تقسیم ہند تک تاریخ کے دیے گئے معنوں میں پاکستان کا قیام میثاق کا نتیجہ ہے۔ دوسرا، میثاق مدینہ کی تقلید کا تقاضا بھی یہ ہے کہ یہاں ’میثاق پاکستان‘ کا بیانیہ رائج کیا گیا ہوتا لیکن نہ جانے کہاں سے قیام پاکستان کے بعد میثاق پاکستان کی جگہ نظریہ پاکستان کا بیانیہ رائج کرنا سوجھ لیا گیا اور اس کی اساس نظریہ اسلام سے جوڑ لی گئی، جس کا مطلب اس کے سوا کوئی دوسرا نکلتا ہی نہیں کہ علیحدگی پسندی گویا مسلمانوں کے لئے ان کے مذہب اسلام کا خاصہ ہے، جو قطعی گم راہ کن مغالطہ آرائی ہے۔

اسلام ہر جگہ یعنی بھارتی اور پاکستانی مسلمانوں کا ایک ہی رہتا ہے۔ تقسیم ہند سے یہ کیوں کر سمجھ لیا گیا کہ مسلمان تقسیم نہیں ہوئے بلکہ ان کا اسلام تقسیم ہو کر پاکستانی مسلمانوں کے لیے نظریہ اسلام نمبر ایک اور ادھر بھارتی مسلمانوں کے لیے نظریہ اسلام نمبر دو کے خانوں میں بٹ گیا؟ اگر ہم خود اپنے اسلام کو دنیا کے سامنے اس طرح کے مختلف خانوں اور فرقوں میں تقسیم ہونے کا جواز فراہم کر دیں گے تو اقوام متحدہ کی اسمبلی کو ہمارے وزیر اعظم ”اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے عالمی دن کا اعلان کرنے“ کے لئے کون سے پیمانے پر قائل کر سکیں گے؟

وزیر اعظم پاکستان کو معلوم ہونا چاہیے کہ تین جون 1947 کو میثاق تقسیم ہند کی توثیق کے فوراً بعد چودہ جون کو کانگریس اور ہندو مہا سبھا کی قراردادیں ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کا مشن اور نصب العین کا پیمانہ ہیں جو قانون تقسیم ہند کی صریح خلاف ورزی اور علانیہ انحراف باندھنے کے جواز کا بہانہ ہیں، جن کے معنوں میں ’اکھنڈ بھارت‘ اکسانے کی لگن بھر دی گئی ہے کہ ”انڈیا ایک اور نا قابل تقسیم ہے۔ خطے میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو گا جب تک اس کے جدا کردہ ٹکڑے پھر سے بھارت میں واپس لاکر یونین آف انڈیا میں ضم نہیں کر لیے جاتے۔“ (شہاب نامہ) ۔

اوپر سے جب قصدا علیحدگی پسندی پر مبنی نظریہ پاکستان اپنا کر جب ہم نے خود دنیا کو جتا رکھا ہو، اور اپنے ’مادر گیتی‘ ہند کے حصۂ اراضی اور اس میں کانگریسی مسلمانوں کے ووٹ سے بننے والے بھارتی علاقوں سے دستبرداری قبول کر کے بھارت کو کھلی چھوٹ دے ڈالی ہو، تو دنیا جموں و کشمیر کے تنازعے اور بھارتی مسلمانوں کے شہری و قومی حقوق کے مطالبے پر کیسے کان دھرے گی؟ مشرقی پاکستان، مقبوضہ کشمیر وغیرہ کے بعد اب گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ’اکھنڈ بھارت‘ کا اگلا ہدف ہیں۔ وزیر اعظم جناب عمران خان کو یقیناً یہ بھی معلوم ہو گا کہ قائد اعظم نے سرزمین ہند کو ”مادر وطن“ قرار دے رکھا تھا۔ (خالد بن سعید۔ ”پاکستان دی فارمیٹیو فیز“)

اگر نیا پاکستان ریاست مدینہ کے ماڈل پر ہے تو خود فیصلہ کر لیں کہ میثاق مدینہ کی رو سے کہیں بھی مادر وطن مکہ سے دستبرداری موجود یا قبول رہی تھی؟ دس سال بعد مکہ واپس لینے کی تاریخ میثاق مدینہ سے اگر محو نہیں ہوئی ہے تو اس ماڈل پر ہونے کے لیے نظریہ پاکستان (نظریہ اسلام کی اساس لے کر) کی سفارت کاری قابل فہم ہے یا میثاق پاکستان کی معلومہ اور موسوم سفارت کاری حجت افزا ہے؟ جس میں مادر وطن ہند، جو بھارت میں باقی ہے، کا سوال مضمر ہے اور جس میں اکھنڈ بھارت کی بولتی بند کرنے کا تیر بہدف چھکا بھی بھرا ہوا ہے؟

غیر مسلم دنیا، اقوام متحدہ یا عالمی عدالت انصاف وغیرہ کو ہمارے نظریہ اسلام یا ہمارے مذہبی پیمانوں سے کیا غرض اور کیا تعلق ہے، جب کہ ہمارے حسن نثار اور ارشاد بھٹی جیسے بڑے بڑے صحافی صاحبان کسی کے لیے بڑا ”پلس“ اس کا بے ایمان نہ ہونا، یوں جتاتے پھریں گویا عطاءاللہ شاہ بخاری اور دیگر احراری زعما کے زبان و بیان کی طرح داری یاد دلائی جا رہی ہو۔ اسی طرح طارق جمیل اور طاہر اشرفی صاحبان جیسے مذہبی اکابرین بھی قربت اقتدار کی خاطر اپنے کسی پسندیدہ حکمران کو ایماندار یا صادق و امین ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے لگ پڑیں، تو یہ بھی تحریک خلافت و تحریک ہجرت وغیرہ کے تاریخی اسباق کی یاد دہانی تو ضرور ہے، تاہم ریاست مدینہ کی تقلید میں صادق اور امین ہونے کی سنت یہ ہے کہ ریاست مدینہ سے منسوب مسلم حکمرانی نا جائز اولاد کے پدرانہ داغ سے قطعی پاک ہوتی ہے۔

آئے دن بھارتی فساد انگیزی کے خلاف نئے پاکستان کی کسی شکایت کا دنیا اور اقوام متحدہ کوئی نوٹس نہیں لیتی۔ اس کی وجہ پاکستان میں اختیارات کی اعلی ترین سطح پر وہ ذو معنی تاثر اور اوپر دیے گئے ریاست مدینہ کے حقائق سے یکسر صرف نظر کر رکھنے کے پیمانے ہیں جن کا ادراک دنیا کو تو بخوبی ہے لیکن جن کا ہمیں اندازہ نہیں۔ اسی لیے امریکی ڈپلومیٹ رمزے خلیل زاد ہماری وزارت خارجہ سے بالا بالا آرمی چیف سے مل کر چلا جاتا ہے۔

اس کے بعد بھارت جاتا ہے تو وہاں کے حکومتی وزرا اور سیکرٹری سے ملاقات کرتا ہے۔ بھارت کی بات دنیا سنتی ہے تو ہماری بات کا وزن وہاں ہمارے جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کے فوکل پرسن جناب شیخ رشید جیسا ہو کے رہ جاتا ہے۔ ایسے نئے پاکستان کو اگر ریاست مدینہ کی تقلید کا دعویٰ ہے تو یہ دعویٰ ریاست مدینہ کی شان حرمت کی سنگین خلاف ورزی ہے کیوں کہ ریاست مدینہ کی حکمرانی ابن زیاد کی کوفہ والی حکمرانی کے ماڈل کو رد کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).