گلگت بلتستان میں انتخابی مہم: پوسٹرز پر فوجیوں کی تصاویر لگانے پر پابندی کیوں لگائی گئی؟


گلگت بلتستان
گلگت بلتستان کی اسمبلی کے انتخابات میں امیدوار پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت کسی فوجی افسر کی تصویر اپنی انتخابی مہم کے دوران استعمال نہیں کر سکیں گے۔

اس سلسلے میں گلگت بلتستان الیکشن آفس نے ایک حکم نامہ تین اکتوبر کو جاری کیا تھا۔ اس سے ایک روز قبل خطے کے نگراں وزیر اعلی میر افضل نے فوج کی مدد کے بغیر انتخابات کروانے کا اعلان کیا تھا۔

اسمبلی انتخابات 15 نومبر کو ہوں گے۔

گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر راجہ شہباز خان نے حکم نامے میں کہا ہے کہ ‘الیکشن قانون مجریہ 2017 کی شق 232 کے تحت خلاف ورزی کرنے والے کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔’

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حکم نامہ مقامی سیاستدان کے نوٹس میں اس وقت تک نہیں آیا جب تک میڈیا نے اسے اجاگر نہیں کیا۔

نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر قانون اورنگزیب خان نے اس حکم نامے کو ایک دانشمندانہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا ‘اپنی مہم کے دوران ہم ویسے بھی فوجی قیادت کی تصاویر استعمال نہ کرتے، تاہم یہ اور اچھی بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے تمام جماعتوں کو ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

کیا گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت بدلنے جا رہی ہے؟

گلگت بلتستان میں انتخابی مہم اور بابا جان سمیت 14 اسیران کی رہائی کے لیے دھرنا

گلگت بلتستان: صوبہ بنانے کی تجویز اور انتخابات پر انڈیا کا احتجاج

سیاسی نظام

گلگت بلتستان کی حالیہ تاریخ 19 ویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔ سنہ 1846 میں کئی خونریز جنگوں کے بعد ڈوگرا حکمران اس علاقے کو ریاست جموں و کشمیر میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہ انتظام 1947 تک جاری رہا جب وہاں کے لوگوں نے ڈوگرا فوج کو شکست دینے کے بعد پاکستان سے غیر مشروط الحاق کی پیشکش کی۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان متنازع خطہ ہے اور اس کی قسمت کا فیصلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری تنازع کشمیر سے وابستہ ہے۔ تاہم مقامی آبادی کے مطالبے پر ایک عرصے سے پاکستان اس کے سیاسی الحاق کے لیے اقدامات کرتا رہا ہے۔

گلگت بلتستان کے لوگ

اس وقت خطے کا انتظام گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ اس قانون نے گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورنینس آرڈر 2009 کی جگہ لی ہے۔ یہ ایک آئینی پیکیج تھا جس کے تحت خطے میں پہلی مرتبہ گورنر اور وزیر اعلی کے دفاتر قائم کیے گئے تھے۔ تاہم دونوں ہی قوانین علاقے کے عوام کو پاکستانی پارلیمان میں نمائندگی دلوانے میں ناکام رہے ہیں۔

گذشتہ اسمبلی جون 2015 میں وجود میں آئی تھی جس نے اس برس اپنی مدت مکمل کر لی تھی تاہم عالمگیر وبا کے سبب عام انتخابات 15 نومبر تک ملتوی کر دیے گئے تھے۔

انتخابات سے تقریباً ایک ماہ قبل ایک درجن سے زیادہ مختلف سیاسی گروہ، جن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ نون (پی ایم ایل این) شامل ہیں، گلگت بلتستان میں انتخابات جیتنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔

علاقائی اسمبلی کی 24 نشستوں کے لیے سات لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔

پی ایم ایل این کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد اس سال جون میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔

اسمبلی کے اراکین کی کل تعداد 33 ہے جن میں سے 24 کا انتخاب براہ راست عمل میں آتا ہے جبکہ 6 نشستیں خواتین اور 3 ٹیکنوکریٹس کے لیے رکھی گئی ہیں۔

آرمی افسروں کے پوسٹروں پر پابندی کیوں؟

حال ہی میں پی ایم ایل این کے علاقائی صدر اور گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمان کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر نمودار ہوا تھا۔ اس کلپ میں وہ اپنی جماعت کے راہنما نواز شریف سے وڈیو لنک کے ذریعے گفتگو کے دوران شکایت کر رہے تھے کہ پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں ‘الیکٹیبلز’ کو وزیراعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کے لیے توڑنے کی غرض سے ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہیں۔

الیکٹیبلز ان مضبوط انتخابی امیدوار کو کہا جاتا ہے جو چاہے کسی بھی جماعت کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں ہر حال میں جیتے ہیں۔

اس ویڈیو میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ‘پی ٹی آئی نے اب تک 21 امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں جن میں سے 19 الیکٹیبلز ہیں۔ الیکٹیبلز کا تعلق مختلف جماعتوں سے تھا مگر انٹیلیجنس ایجنسیوں نے ان پر عمران خان کی پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا۔

‘انتخابات میں پی ٹی آئی کی اکثریتی جیت کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی وزیر برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان، علی امین گنڈاپور نے انتظامیہ کو ہائی جیک کر رکھا ہے۔’

اگرچہ حفیظ الرحمان کے الزامات کی بنیاد شواہد پر مبنی نہیں ہے، تاہم اسی پس منظر میں 20 ستمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ایک اجلاس میں جن 26 مطالبات کی منظوری دی گئی تھی ان میں سے ایک گلگت بلتستان میں ‘آزادانہ اور شفاف’ انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی تھا۔

گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر نے فوجی افسروں کی تصاویر والے بینروں اور پوسٹروں پر پابندی کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ لیکن تجزیہ نگار عبدالمجیب کا خیال ہے کہ کثیرالجماعتی کانفرس نے چیف الیکشن کمشنر راجہ شہباز خان کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پابندی لگانے کا مقصد اس تاثر کو زائل کرنا ہے کہ گلگت بلتستان میں انتخابات اور سیاست سے فوج کا کوئی تعلق ہے۔

شہباز خان کا کہنا ہے کہ ‘گلگت بلتستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات مرکزی سیاسی جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے، مگر انھوں نے آرمی کے کردار پر کبھی کھل کر بات نہیں کی۔ میرے خیال میں یہ حزب اختلاف کے اجلاس کا نتیجہ ہے کہ فوج کو سیاست سے دور رہنے کا پیغام دیا گیا ہے۔’

گلگت بلتستان میں فوج کا اثر و نفوذ

گلگت بلتستان اسمبلی کے پہلے انتخابات 2015 میں فوج کی نگرانی میں ہوئے تھے جن میں نواز شریف کی پی ایم ایل این نے واضح اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی تھی۔ پی پی پی کے سینیر راہنما جمیل احمد پی ایم ایل این کی کامیابی کو اس وقت آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان سمجھوتے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سی پیک کی وجہ سے فوج گلگت بلتستان میں ایک مستحکم حکومت چاہتی ہے اس لیے اس نے 2015 کے انتخابات میں اپنا وزن پی ایم ایل این کے پلڑے میں ڈالا تھا۔

‘پچھلی مرتبہ دو شریفوں کے درمیان سمجھوتے کی وجہ سے پی ایم ایل این کو کامیابی ملی تھی۔’

انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے کی ساکھ خراب کرنے کے لیے سیاستدانوں کا اس طرح کے الزامات لگانا عام بات ہے۔ فوج کسی بھی جماعت کی طرفداری کے الزام کو ہمیشہ سے مسترد کرتی آئی ہے، البتہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے بالواسطہ اثر و رسوخ کے استعمال کا الزام اس پر لگتا رہا ہے، مگر بغیر کسی ثبوت کے۔

سینیر صحافی ایمان شاہ کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کا خطہ عسکری لحاظ سے پاکستان کی سلامتی کے لیے ہمیشہ اہم اور مضبوط فوجی موجودگی کا متقاضی رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے گلگت بلتستان میں رسائی سوائے فوج کے کسی کے لیے آسان نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘سیاسی شعور کی کمی کی وجہ سے مرکزی سیاستدان بھی خطے سے دور رہے ہیں، جس کی وجہ سے کسی تباہی اور آفت میں فوج ہی لوگوں کی مدد کو پہنچتی رہی ہے۔

‘ظاہر ہے کہ ایسے میں سیاسی خلا کو فوج نے پر کیا ہے اور وہ ایک ناکارہ نظام کو چلانے کے لیے آگے آئی ہے۔’

سینیر صحافی عبد الرحمان اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کارگل کی جنگ کی مثال لیجیے جس میں لوگ فوج کی مدد و حمایت کو نکلے۔

وہ کہتے ہیں ‘کارگل جنگ کے دوران میں نے رضاکاروں کو دیکھا کہ وہ بازاروں سے چندہ کرکے انھیں خوراک اور کمبل فراہم کر رہے تھے۔

‘کارگل کے بعد جنرل مشرف نے اقتدار حاصل کیا تو انھوں نے گلگت بلتستان پر خصوصی توجہ دے کر لوگوں کی محبتوں کا صلہ لوٹایا۔ انھوں نے علاقے میں پہلی یونیورسٹی قائم کی، خطے کی سیاسی حیثیت کو بڑھایا اور غزر اور استور جیسے دور دراز علاقوں تک سڑکوں کا جال بچھایا۔

‘مشرف کے دور میں ہونے والا ترقیاتی کام بے مثال ہے اور بہت عرصے تک لوگوں کو یاد رہے گا۔’

ایمان شاہ کا خیال ہے کہ عوام کے دلوں میں فوج کے لیے احترام ہے، اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ یہاں سیاست اور انتظامی اداروں پر اپنا اثر و نفوذ رکھتی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘لوگ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں بدعنوان ہیں اور فوج ہی سے لوگ کی امید بندھی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں واقعی جمہوری ہیں اور ان میں اخلاقیات ہیں تو انھیں اپنے بینروں پر آرمی چیف کی تصاویر لگانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔’

‘سیاست میں مداخلت’ کے لیے فوج پر تنقید

حالیہ برسوں میں حزب اختلاف کی جماعت کی جانب سے فوج کی ‘سیاست میں مداخلت’ اور عمران خان کی حکومت کی ‘تشکیل اور حمایت’ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

پاکستان میں اب تک چار فوجی آمروں نے اقتدار پر بزور طاقت قبضہ کیا ہے، حتٰی کہ سولین حکومت میں بھی حکمرانی اور پالیسی سازی میں اس کا کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

تاہم پہلی بار حزب اختلاف نے اس پر کھل کر بات کی ہے۔

پی ایم ایل این کے راہنما نواز شریف نے اپنی حالیہ تقریروں میں کہا ہے کہ سیاست میں فوجی مداخلت ناقابل قبول ہے اور سکیورٹی اداروں سے کہا ہے کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں، اور بلاول بھٹو زرداری نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں دھاندلی کے سنگین نتائج سے با رہا خبردار کیا ہے۔

اور گزشتہ ماہ جب آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے حزب اختلاف کے قائدین کو ایک خفیہ ملاقات کی دعوت دی تھی تو سیاسی راہنماؤں کی جنب سے گلگت بلتستان میں شفاف انتخابات کا مطالبہ سر فہرست تھا۔

سیاسی مبصروں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کے دوران پوسٹروں پر فوجی افسران کی تصاویر لگانے پر پابندی یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش ہے کہ فوج غیر جانبدار ہے اور یہ کہ انتخابات میں کسی سیاسی راہنما یا جماعت کی تائید و حمایت نہیں کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32546 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp