پیدل لانگ مارچ: بلوچستان کے طلبہ پنجاب کی سڑکوں پر 12 روز سے پیدل احتجاجی مارچ کیوں کر رہے ہیں؟


عبدالصمد بلوچ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے خصدار سے تعلق رکھتے ہیں اور ان 40 سے زائد بلوچ طلبا میں شامل ہیں جو گذشتہ 12 روز سے صوبہ پنجاب کے شہر ملتان سے لاہور کی طرف پیدل سفر کرتے ہوئے احتجاجی مارچ کر رہے تھے۔

وہ بدھ کے روز لاہور میں داخل ہوئے اور تب سے پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ یہ طلبا صوبہ پنجاب کی جامعات میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مستحق طلبا کے لیے وظیفے کے مبینہ خاتمے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

عبدالصمد کی طرح زیادہ تر بلوچ طلبا ملتان کی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں جبکہ باقی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

تعلیم کے لیے بلوچستان سے باہر کیوں نکلنا پڑتا ہے؟

ایک زمانہ تھا عبدالصمد بلوچ کے علاقے میں عصر کے بعد گھر سے باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ انھیں یاد ہے کہ ان دنوں گھر سے باہر نکلنے پر یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ گھر واپسی ہو گی یا نہیں کیونکہ ’سڑکوں پر لوگوں کو گولیاں مار دی جاتی تھیں۔‘

وہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے خصدار سے تعلق رکھتے ہیں اور اس زمانے میں سکول کے طالب علم تھے۔ پھر علاقے میں خوف کے یہ سائے تو بتدریج کم ہونے شروع ہوئے اور ’آج حالات بہت بہتر ہیں‘ لیکن عبدالصمد کے گھر کے مالی حالات آج بھی زیادہ نہیں بدلے۔

ان کے کنبے کے 16 افراد ہیں اور ان کے والد ایک سکول میں معلم ہیں۔ ان کی تنخواہ سے بمشکل گھر چلتا ہے۔ تمام بہن بھائیوں کے تعلیمی اخراجات بھی اس تنخواہ میں سے نکلتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

چین میں بلوچ طلبہ سے حکام کی ’غیر معمولی پوچھ گچھ‘

ڈاکٹر، میڈیکل کے طلبا کوئٹہ میں تادم مرگ بھوک ہڑتال پر کیوں

چین میں بلوچ طلبہ سے حکام کی ’غیر معمولی پوچھ گچھ‘

بلوچستان میں طلبا مظاہرے: ’جہاں بجلی، پانی نہیں وہاں انٹرنیٹ کہاں سے لائیں‘

https://www.youtube.com/watch?v=QUbLC0DBOKQ

ملتان سے پیدل سفر کر کے لاہور میں داخل ہونے کے موقع پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عبدالصمد نے بتایا کہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب بارہویں جماعت ایک سرکاری کالج سے مکمل کرنے کے بعد انھیں لگا تھا کہ ان کو’اپنی تعلیم کو یہیں الوداع کہنا پڑے گا۔‘

عبدالصمد بین الاقوامی تعلقات میں بی ایس کی ڈگری کر رہے ہیں اور مستقبل میں پاکستان کی سول سروس میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خواب دیکھنا ان کے لیے اس وظیفے کے ذریعے ممکن ہو پایا ہے جو انھیں بارہویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی لے آیا۔

انھیں ملتان میں بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے ذریعے معلوم ہوا کہ پنجاب کی جامعات میں بلوچستان اور سابق قبائلی علاقوں کے طلبا کے لیے نشستوں کا مخصوص کوٹہ اور خصوصی وظیفے رکھے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ وظیفے آغازِ حقوقِ بلوچستان کے تحت سنہ 2012 میں پنجاب حکومت نے بلوچستان اور سابق قبائلی علاقوں کے ان مستحق طلبا کے لیے رکھے تھے جن کا تعلق ایسے علاقوں سے تھا جو دہشت گردی سے متاثرہ تھے یا شورش زدہ تھے۔

ان وظیفوں کے ذریعے طالب علم مفت تعلیم حاصل کر سکتے تھے اور انھیں رہائش بھی مفت فراہم کی جاتی تھی۔ عبدالصمد نے بھی اس وظیفے کے لیے درخواست دی اور اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

’اگر مجھے یہ وظیفہ نہ ملتا تو میں نہ صرف اپنی تعلیم جاری نہ رکھ پاتا بلکہ میں کبھی پنجاب کے کسی شہر آنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔‘

محمد بلوچ بھی بلوچستان میں گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا خاندان ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ عبدالصمد کی طرح وہ بھی یہی وظیفہ حاصل کرنے کے بعد بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے انجینیئرنگ کے شعبے میں زیرِ تعلیم ہیں۔

وہ بھی عبدالصمد سے اتفاق کرتے ہیں کہ اگر انھیں وظیفہ نہ ملتا تو وہ پنجاب میں آ کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ سات بہن بھائی ہیں اور ان کے گھر والوں کے وسائل اتنے نہیں ہیں کہ وہ پنجاب میں ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکیں۔

’اگر فیس بھی دینی ہو اور ساتھ ہاسٹل کے اخراجات اور روز مرہ کے اخراجات بھی ہوں تو ہمارے لیے یہ تمام اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں ہے۔‘

ملتان سے لاہور پیدل مارچ

محمد بلوچ کے دونوں پیروں پر پٹیاں بندھی ہیں۔ گذشتہ 12 روز سے مسلسل پیدل سفر کرنے سے ان کے پیروں کے تلوں پر آبلے بنے اور پھٹ کر زخم میں تبدیل ہو گئے۔ ان کے دیگر کئی ساتھیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اپنی مدد آپ کے تحت انھوں نے ایک دوسرے کی مرہم پٹی کی اور چلتے رہے۔

عبدالصمد نے بتایا کہ اس سفر کے دوران ان کے دو ساتھیوں کو حادثات بھی پیش آئے جن میں وہ زخمی ہوئے مگر حکومت سمیت کسی نے ان کی امداد نہیں کی۔

’راستے میں ایک ہوٹل والے نے بھی ہمیں رکنے نہیں دیا۔ گذشتہ رات بھی ایک ہوٹل میں ہمیں ٹھہرنے کی اجازت نہیں ملی۔‘

لیکن عبدالصمد اور محمد بلوچ تو پہلے ہی وظیفہ حاصل کر چکے ہیں اور اسی پر اپنی تعلیم مکمل کریں گے تو وہ کیوں پیدل مارچ کر رہے ہیں؟

وہ کہتے ہیں کہ وہ آنے والے بلوچ طلبہ کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ وقار بلوچ بھی اس مارچ میں شامل تھے اور بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے قریب ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بلوجستان میں طلبا کے لیے تعلیم کے لیے ماحول سازگار نہیں۔ وہاں سے جو طلبا پنجاب آتے ہیں وہ انتہائی غریب ہیں اور یہاں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ ان ہی وظیفوں کے ذریعے ہی یہاں تعلیم کو ممکن بنا سکتے تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’پنجاب کی جامعات کی طرف سے وظیفوں کو ختم کرنے کے اقدام سے وہی لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔‘

لانگ مارچ کرنے والے طلبا کے مطابق سنہ 2020 میں جو حالیہ داخلے ہونے تھے ان کے لیے جامعات نے بلوچ طلبا کو بتایا ہے کہ انھیں فیسیں ادا کرنی ہوں گی۔

وقار بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ اسی وجہ سے لانگ مارچ کر رہے ہیں کہ ان کی طرح اس سال بھی داخلے کے خواہش مند بلوچ طالبِ علم اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔

’انھیں اگر وظیفے نہ ملے تو وہ شاید اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پائیں گے۔‘

یہ وظیفے کیا تھے، کس نے دیے تھے؟

بہاؤالدین زکریہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر منصور اکبر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جنھیں بلوچ طالب علم وظیفہ کہہ رہے ہیں وہ کوئی باقاعدہ حکومتی وظیفہ یا سکالرشپ نہیں تھا جس کے لیے حکومت نے پیسے مختص کیے ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2011-12 میں اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے یہ زبانی اعلان کیا تھا کہ بلوچستان اور سابق قبائلی علاقے کے مستحق طلبا کو جنوبی پنجاب کی جامعات میں مفت تعلیم کی سہولت دی جائے گی۔

’لیکن حکومت نے اس کے لیے کسی جامع کو کوئی مالی گرانٹ نہیں دی۔ آغاز ہی سے جامعات خود یہ تمام اخراجات برداشت کرتی آ رہی ہے اور سرکاری جامعات کو حکومتی گرانٹ نہیں ملتی بلکہ یہ خود اپنے اخراجات پورے کرتیں ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی جس میں سب سے زیادہ بلوچ طالبِ علم زیرِ تعلیم ہیں نے سنہ 2023 تک ان طلبہ کو مفت تعلیم دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس کے بعد رواں برس داخلہ لینے والوں کو کہا گیا ہے کہ وہ فیس جمع کروائیں یعنی وہ سیشن جو سنہ 2024 میں ختم ہو گا۔

یونیورسٹیاں وظیفے جاری کیوں نہیں رکھ سکتی؟

وائس چانسلر بہاؤالدین زکریہ یونیورسٹی منصور اکبر کا کہنا تھا کہ ان کی یونیورسٹی کے لیے رواں سال سے وظیفوں کو جاری رکھنا ممکن نہیں تھا جس کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔

‘ایک تو یونیورسٹی پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اسے اپنا بجٹ پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور دوسرا ہمارے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے طلبا بھی اس کو دیکھ کر فیس دینے سے انکار کر رہے ہیں کہ وہ بھی پسماندہ علاقے سے ہیں اور فیس ادا نہیں کر سکتے۔’

منصور اکبر کا کہنا تھا کہ اس طرح یونیورسٹی کے لیے اپنا بجٹ پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وہ دو مرتنہ یہی وضاحت سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے بھی دے چکے ہیں۔

حکومت نے مسئلے کے حل کے لیے کیا اقدام کیے ہیں؟

بلوچ طلبا کے نمائندے حکیم بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے چند بلوچ طلبا پر مشتمل وفد نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے بھی ملاقات کی تھی جو کہ پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں۔

حکیم بلوچ کا کہنا ہے کہ ’گورنر نے ہمیں کہا تھا کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں موجود یونیورسٹیوں میں ان وظیفوں کو جاری رکھنے کے لیے اقدامات کریں گے تاکہ طلبا کو جس حد تک ممکن ہو آسانی دی جا سکے۔‘

بہاؤالدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر منصور اکبر کے مطابق گورنر پنجاب نے حال ہی میں ان سمیت تمام جامعات کے وائس چانسلرز سے ملاقات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں جنوبی پنجاب کی جامعات کو درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے ایک نیا فارمولا مرتب کیا گیا ہے۔

آدھی فیس اور طلبا کی تعداد میں کمی

اس فارمولے کے تحت جنوبی پنجاب کی دو بڑی جامعات بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بلوچ طلبہ کے لیے مختص نشستوں کو کم کر کے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بڑھایا جائے گا۔

تاہم ساتھ ہی ایک ہدایت نامہ ان دونوں یونیورسٹیوں کو جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق ان دونوں یونیورسٹیوں میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کل 126 طلبا کو داخلہ دیا جائے گا جس میں اوپن میرٹ پر 84 جبکہ خواتین کے لیے 42 نشتیں مختص ہوں گی۔

دونوں یونیورسٹیوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ان طلبا کو فیس اور ہاسٹل کے اخراجات کی مد میں پچاس فیصد چھوٹ دیں گے جو کہ رواں برس کے سیشن سے لاگو ہو گی۔

کیا یونیورسٹیوں کو مالی معاونت ملی؟

اس کے ساتھ ہی بلوچستان کی حکومت نے اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد بلوچ طلبا کے پنجاب میں تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بہاؤالدین یونیورسٹی کو دو کروڑ روپے دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔

تاہم منصور اکبر کے مطابق تاحال ایسی کوئی رقم یونیورسٹی کو نہیں دی گئی۔ پنجاب کے وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار کی طرف سے بھی مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ پنجاب حکومت بلوچ طلبا کی مدد کرے گی اور سنہ 2023 تک پنجاب کی یونیورسٹیوں میں ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کرے گی۔

تاہم اس حوالے سے پنجاب کے ہائر ایجوکیشن کے وزیر یاسر ہمایوں سے رابطہ کی کوشش کی گئی مگر رابطہ نہیں ہو پایا۔

جبکہ ملتان سے لاہور تک پیدل مارچ کر کے پہنچنے والے طلبا کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیے رواں برس سے بھی مکمل طور پر مفت وظیفوں کو بحال کیا جائے کیونکہ ان کے لیے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں ہے۔

بلوچ طلبا کے نمائندے حکیم بلوچ کے مطابق وہ لاہور میں پنجاب اسمبلی اور وزیرِاعلیٰ کے دفتر کے سامنے دھرنا دیں گے اور احتجاج کریں گے اور اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ لاہور سے اسلام آباد کی طرف پیدل احتجاجی مارچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp