گلگت بلتستان میں اقتدار اور اقدار کی سیاست


گلگت بلتستان میں جنرل الیکشن قریب ہیں۔ اس وقت پورے علاقے میں سیاسی جوڑ توڑ اور ہلہ گلہ عروج پر ہے۔ قریب ایک ماہ بعد نئی حکومت قائم ہونا ہے۔ روایت کے مطابق غالب امکان یہی ہے کہ وفاقی حکمران جماعت ہی یہاں حکومت سازی کرے گی۔ اسی روایت کو دیکھتے ہوئے، مختلف حلقوں سے با اثر سیاست دان تحریک انصاف میں شامل ہوئے، جن کو حسب روایت ’سیٹ جیتنے کی صلاحیت‘ کی بنیاد پر پارٹی میں ’ویلکم‘ کیا گیا۔ چاہے امیدوار کا سابق تعلق کسی بھی جماعت سے رہا ہو۔ اس طرح سیاسی پنڈت تجزیہ پیش کرنے میں حق بجانب ہیں، کہ اگلی حکومت بھی ظاہرا مختلف جماعتوں میں رہ کر اقتدار کے تجربات رکھنے والوں کی ہو گی، جن کی قیادت اس مرتبہ عمران خان اور ان کی جماعت کر رہی ہو گی۔

اس وقت الیکشن کو لے کر بے شمار تجزیہ کار مختلف آرا پیش کرتے ہیں۔ احباب سوشل میڈیا پر ”اقتدار اور اقدار کی سیاست“ کے موضوع کو خصوصی طور فوکس کیے ہوئے ہیں۔ بعض ارسطو تو یہی نتائج عوام کو دے رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں با جماعت اقتدار کے لئے کوشاں تھیں اور ہیں، جب کہ اقدار کی باتیں محض لفاظی اور عوام کو راغب کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ در اصل سیاست دان اور سیاسی جماعتیں کچھ بھی نعرے، وعدے، منشور، نظریے اور کام کریں، ہر اہل علم و اہل عقل پر واضح ہے کہ ظاہراً اقتدار تک پہنچ کر عوام، علاقہ اور ملکی حکومتی نظام میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔

اگر اقتدار کی کوئی حیثیت و ضرورت نہیں، اقتدار تک پہنچنا ہدف ہی نہیں تو سیاست کی بجائے دوسرے امور انجام دینے چاہیے۔ فلاح و بہبود کی تنظیمیں قائم کرنی چاہیے، تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے ادارے بنا کر ان کی سر پرستی کرنی چاہیے۔ جب سیاست کی بات ہو، سیاسی سرگرمیوں کا معاملہ ہو، بطور سیاست دان اور سیاسی جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہی ہوں، تو یہاں اقتدار کی بات ہو گی ہی۔ سیاست دان اور سیاسی جماعت جو بھی کام کریں، جیسے بھی کریں، نعرے، وعدے، منشور، گٹھ جوڑ، اتحاد، کنوینسئنگ وغیرہ، ان میں ہر سیاستدان اور سیاسی جماعت کا ہدف و منشا فطری طور پر اسمبلی تک پہنچ کر کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔

دوسری جانب اقدار کا تحفظ، اقدار کی سیاست، اقدار کی پاسداری کسی طور سیاست دان اور سیاسی جماعت کو اقتدار کے لئے کوشش کرنے میں مانع نہیں۔ اگر کوئی سیاست دان یا سیاسی جماعت ایسا سمجھتا ہے تو بسم اللہ خود کو اور اپنی جماعت کو ’سیاسی‘ کہلانے کی زحمت نہ کرے، اور جو سقراط کے شاگرد سیاسی امور میں اقتدار کو ہی گالی سمجھتے ہیں، تو وہ اپنی ڈکشنری درست کروائیں، کیوں کہ سیاست بغیر اقتدار و حکمرانی اور اسمبلی تک پہنچنے کے لئے جد و جہد کے سیاست ہی نہیں کہلائے گی۔ سو یہ بات طے ہوئی کہ سیاست در اصل عوامی و علاقائی امور میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے مروج نظام کے مطابق اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے۔

میری دانست میں بحث اس بات پر ہونی چاہیے کہ کیا اسمبلی تک پہنچنے کے لئے کوئی سیاست دان اور سیاسی جماعت اقدار کے منافی سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں، یا سیاسی مبصر اپنے طور مفروضے بنا کر، سیاسی پراسس سے نا واقفیت کی بنیاد پر، سیاست کے اصولوں اور سیاستدان و سیاسی جماعت کے طے کردہ امور سے نا بلد ہونے کی بنیاد پر لوگوں کو ایسا باور کرانا، اپنی دانشوری سمجھتے ہیں کہ فلاں فلاں اقدار کی صرف باتیں کرتا ہے اور اقدار کو روندنے والی سرگرمیاں انجام دے رہا ہوتا ہے۔

اقدار کی پاسداری یعنی اصولوں کے مطابق سیاست، عوام دوست سیاست، مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے سیاست، حقوق اور مطالبات کے حصول کے لئے سیاست۔ اقدار کی پاسداری یعنی جماعتی اسٹانس پر ’نو کمپرومائز‘ ، نصب العین پر ’نو کمپرومائز‘ منشور کے مطابق حتی الامکان عمل در آمد کو یقینی بنانا، سماجی و دینی اصولوں کی پاسداری کی حتی الامکان کوشش، ان پر کسی طور آنچ آنے کی صورت میں مزاحمت۔ اقدار کی پاسداری یعنی موجود سیاستدانوں میں سے ایسے امیدوار کو مضبوطی دینا، جو جماعتی اصول و ضوابط اور نصب العین کی پاسداری میں دوسرے بالمقابل امیدوار سے بہتر اور ہم آہنگ ہو۔

اقدار کی پاسداری یعنی آپ اعلیٰ ہدف کے لئے بعض ایسے کم اثر و کم اہمیت امور پر کمپرومائز کرے، جن پر کمپرومائز نہ کرنے کی صورت میں آپ کا اعلیٰ ہدف بھی فوت ہو جائے، اس ہدف تک آپ کی پہنچ بھی کمزور پڑ جائیں، اور اگلے انتخابات تک دیگر اہداف و امور کے لئے آپ کی سرگرمیاں بھی بے نتیجہ و کم نتیجہ رہ جائیں۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں جب عوام کی آواز بننے، مسائل کے حل کرنے ملکی و سماجی معاملات کو اپنے نصب العین کے مطابق سرگرمی انجام دیتے ہیں تو ظاہر ہے، بعض ایسے امور جن کی اہمیت اس ہدف اور مقصد کی نسبت کوئی معنی نہیں رکھتی، ان کو مانع ہونے نہیں دیتے۔

اگر اسی معاملے کو موجودہ الیکشن کے تناظر میں دیکھا جائے، تو بعض سیاسی جماعتوں کو اس طرح سے عوام کی نمایندگی کے لئے مواقع محدود اور تقریباً نا ممکن ہو کر رہ جاتی ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے وسائل و ممکنات پر اکتفا کرتے ہوئے محض انتخابی پراسس کے ذریعے اپنے اہداف تک پہنچنے کی جتن کرے۔ جب کہ یہ بھی اسی سیاسی پراسس کا ہی ضابطہ ہے کہ کچھ سیٹوں پر اپنے ہم خیال و ہم فکر جماعت اور نسبتاً بہتر ہم آہنگی والے امیدوار کو سپورٹ کرے اور اپنی جماعت کے لئے ایسے مواقع حاصل کرے جس سے تنظیمی نصب العین کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عوام و علاقے کے اجتماعی مفاد کے لئے نتیجہ خیز کام کرنا ممکن ہو۔

سیاسی جماعتوں کا اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ، ہم آہنگ امیدوار کو مخالف و کم تر اہمیت والی جماعتوں کی نسبت سپورٹ کر کے عوامی نمائندگی کے لئے اسمبلی تک پہنچانا، سیاسی پراسس ہے، اقدار کے خلاف کام اور محض اقتدار کی ہوس ہرگز نہیں۔ سو یہ بات کرتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے کہ کوئی آپ کی نظر میں اقدار کو روند رہا ہو، یہ الزام محض فکری لا ابالی اور آپ کے اصل حقائق سے نا بلد ہونے کا ثبوت ہو سکتا ہے۔ اپنے آپ کو دانشور سمجھنے والے یقیناً ہر پہلو کو مد نظر رکھ کر باتیں کرتے ہیں، دیکھا دیکھی میں شور ڈالنا فکری نا بلوغت اور ہوا میں تیر چلانے والی بات ہو گی، اہل فکر کے لئے ایسی دانشوری لطیفہ گوئی کے مترادف سمجھی جائے گی۔

سیاست، سیاسی پراسس، خاص طور پر سیاسی جماعتوں کے لئے دستیاب وسائل، ماحول، علاقے اور عوام کی سیاسی روش، سیاسی جماعتوں کے مقاصد اور خاص طور پر اعلی اہداف کے لئے طے شدہ راستے میں بڑی رکاوٹوں کے مقابل کمتر رکاوٹوں کے ساتھ نبٹنے کے لئے حکمت عملی یقیناً ہر کسی کی سمجھ میں آنے والی بات بھی نہیں۔ علاقے اور عوام کی ضروریات، مشکلات، مطالبات کیا ہیں اور کیوں ہیں یہ جاننے والے ان کے ممکن حل کے لئے نتیجہ خیز کردار کی توقع کرتے ہیں، اور جب سیاسی جماعتیں اپنے اہداف مقرر کرتی ہیں، تو یقیناً ان سب معاملات کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرتی ہیں۔ یہ فیصلے لاکھ برے اور دانشوروں کی مزاج کے بر خلاف سہی، مگر ان کو اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے، دلائل اور ثبوت ہونے لازمی ہیں۔ ایویں کوئی بات بات نہیں ہو گی، بلکہ الزام محض اور عوام کو حقائق سے دور رکھنے کی کوشش سمجھی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments