چین، امریکہ تعلقات: پاکستان کی وساطت سے ہنری کسنجر کا خفیہ دورہ چین اور ’نقلی کسنجر‘ کی مری روانگی


ہنری کسنجر

ہنری کسنجر

سنہ 1971 میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا ایک خفیہ لیکن تاریخ ساز دورہ کیا تھا۔ اُس وقت پاکستان گھمبیر سیاسی بحران میں گھرا ہوا تھا اور امریکہ سرد جنگ کے اُس زمانے میں چین اور سویت یونین کے درمیان پیدا ہونے والی نظریاتی اور تزویراتی خلیج کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں عام انتخابات ہو چکے تھے مگر حکومت سازی میں تاخیر ہو رہی تھی اور مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا آغاز ہو چکا تھا۔ مشرقی پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں بنگالی ہجرت کر رہے تھے جبکہ مکتی باہنی بھی پاکستانی فوج کے خلاف کارروائیوں میں مصروف تھی۔

یہ وہ دور ہے جب سویت یونین نے انڈیا کے ساتھ ’امن، دوستی اور تعاون‘ کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں تزویراتی تعاون پر زور دیا گیا تھا اور اس معاہدے کے بعد انڈیا کا روایتی غیر جانبداری کا دعویٰ کمزور ہو گیا تھا۔ سویت یونین غالباً پاکستان کے چین کی جانب زیادہ جھکاؤ کی وجہ سے ناراض بھی تھا۔

لیکن ان تمام حالات اور واقعات کے پسِ منظر میں امریکہ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔

اس سے قبل سنہ ساٹھ کی دہائی میں پیش آنے والے بیشتر واقعات کے پس منظر میں سویت یونین اور چین کے درمیان تعلقات میں سرد مہری بڑھ رہی تھی۔

مغربی ممالک اور خاص کر امریکہ ان عالمی حالات کا بغور جائزہ لے رہے تھے لیکن اب تک کسی نے دو کمیونسٹ حکومتوں، چین اور سوویت یونین، کے اختلافات کے فائدہ اٹھانے کو کوشش نہیں کی تھی۔

رچرڈ نکسن پہلے امریکی رہنما تھے جنھوں نے اس کام کا آغاز کیا۔ صدر بننے سے پہلے ہی انھوں نے ایک آرٹیکل میں چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد سنہ 1969 میں انھوں نے پاکستان کے اس وقت کے صدر یحییٰ خان سے چین سے خفیہ رابطہ کاری کے لیے مدد مانگی تھی۔

اس خفیہ دورے کا مکمل منصوبہ کیسے بنایا گیا اور اسے دنیا کی نظروں سے مکمل مخفی رکھنے کے لیے ’نقلی کسنجر‘ کی سربراہی میں ایک وفد کو پرفضا پہاڑی مقام مری کیسے بھیجا گیا اس کی تفصیلات آگے چل کر، اس سے پہلے ان ذرائع کے بارے میں جاننا ضروری ہے جو امریکہ چین سے رابطوں کے لیے استعمال کر رہا تھا۔

مشرقی پاکستان

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں عام انتخابات ہو چکے تھے مگر حکومت سازی میں تاخیر ہو رہی تھی اور مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا آغاز ہو چکا تھا

چین سے رابطوں کے کئی چینلز

اس دوران امریکہ نے پاکستان کے علاوہ رومانیہ اور پولینڈ کے ذریعے بھی چینی قیادت کو رابطہ کاری کے پیغامات بھجوائے اور انھی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر اُس وقت امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر پاکستان کی وساطت سے نو جولائی کو بیجنگ خفیہ مشن پر گئے اور 11 جولائی کو واپس آئے۔

کسنجر کے اسی خفیہ دورے کے اگلے برس فروری میں صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کیا، اور اس طرح عالمی بساط پر امریکہ نے دو کمیونسٹ طاقتوں کے درمیان اختلافات کو اپنے لیے استعمال کرنے کے پروگرام کا آغاز کیا۔

رچرڈ نکسن سنہ 1967 ہی میں چین سے تعلقات میں بہتری کا اشارہ دے چکے تھے تاہم اس کا عملی آغاز جنوری سنہ 1969 سے ہوا یعنی نکسن کے عہدہ صدارت پر براجمان ہوتے ہی۔

اگرچہ پولینڈ کے ذریعے سفیروں کی سطح پر ہونے والے رابطوں کی بدولت امریکہ کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ چین بھی امریکہ سے تعلقات کی بہتری میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن ٹھوس پیش رفت کے لیے ابھی کوئی کام نہیں ہوا تھا۔

صدر رچرڈ نکسن یکم اگست سنہ 1969 کو پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے جہاں ان کی صدر آغا محمد یحییٰ خان کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اور اس طرح چین سے رابطے کے لیے امریکہ نے پاکستان کو بہترین ذریعہ قرار دیا۔

نکسن، یحیی خان

صدر نکسن اور یحیی خان

خفیہ رابطہ کاری کا آغاز

ہر بات انتہائی صیغہِ راز میں رکھی جا رہی تھی۔ خفیہ رکھنے کی وجہ سے صدر یحییٰ خان اس مخمصے میں رہے کہ آیا انھیں اس وقت چین کے وزیرِ اعظم چو این لائی کو پیغام بھجوانا چاہیے یا وہ انھیں یہ پیغام اس وقت دیں جب ان کی بالمشافہ ملاقات ہو۔ ادھر کسنجر نے دفترِ خارجہ سے بھی اس کوشش کو خفیہ رکھا۔

آرکائیوز کے مطابق صدر نکسن چاہتے تھے کہ صدر یحییٰ خان اپنی کسی معمول کی ملاقات میں چینی رہنماؤں کو امریکہ کی اس خواہش کے بارے میں آگاہ کریں۔ انھوں نے اس وقت پاکستان کے امریکہ میں سفیر آغا ہلالی کو بتایا تھا کہ اس معاملے پر امریکی حکومت میں سے صرف کسنجر رابطہ کیا جائے گا۔

جولائی اور اگست میں نچلی سطح کی رابطہ کاری کے سلسلے میں پیش رفت ہونا شروع ہوئی۔ پولینڈ کے ذرائع سے بھی رابطے قائم ہوئے۔ لیکن 16 اکتوبر کو ہنری کسنجر نے صدر نکسن کو آگاہ کیا کہ پاکستان کے سفیر آغا ہلالی نے ان سے ملاقات کی ہے اور بتایا کہ صدر یحییٰ کی چینی رہنماؤں سے ملاقات سنہ 1970 کے اوائل میں متوقع ہے۔

’ہلالی یہ جاننا چاہتے تھے کہ امریکہ پاکستان کے ذریعے چین کے لیے کس قسم کا پیغام دینا چاہتا ہے۔‘ اس پر کسنجر نے کہا ’صدر یحییٰ جب چینی رہنماؤں سے ملاقات کریں تو انھیں آگاہ کریں کہ امریکہ اپنے بحریہ کے دو بحری جہاز (ڈِسٹروئرز) آبنائے فارموسا سے ہٹا رہا ہے۔‘ تائیوان کا نام فارموسا بھی رہا ہے۔

اسی برس امریکہ نے چین کو ایسے مزید اشارے دینا شروع کر دیے جن سے چین کو یقین ہو کہ امریکہ تعلقات کی بہتری میں سنجیدہ ہے۔ ان میں چین پر امریکہ کی چند زرعی مصنوعات خریدنے کی پابندیاں ہٹانے سے لے کر دیگر سرگرمیوں کے آغاز کے بھی اشارے تھے۔

ہنری کسنجر کا پاکستان کے صدر یحییٰ خان کے ساتھ آغا ہلالی کے ذریعے مسلسل رابطہ تھا۔ یحییٰ خان نے کسنجر کو بتایا کہ چینی رہنما امریکی کوششوں سے خوش ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ امریکہ چین کی رضا مندی کو چین کی کمزوری سمجھے۔

کسنجر نے فروری سنہ 1970 کو یحییٰ خان کو کہلوایا کہ وہ چینیوں سے کہہ دیں کہ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ سارا معاملہ پریس سے پوشیدہ رکھا جائے۔ اور اس کے لیے امریکہ پیکنگ (بیجنگ) کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنا چاہتا ہے جسے وائٹ ہاؤس کے علاوہ کوئی باہر کا شخص نہیں جانتا ہو گا۔

ہنری کسنجر اور چینی وزیرِ اعظم چو این لائی

ہنری کسنجر اور چینی وزیرِ اعظم چو این لائی

تائیوان کا نازک مسئلہ

اس دوران امریکہ نے تائیوان کے سربراہ چیانگ کائی شیک کو بھی اعتماد میں لیا جو عوامی جمہوریہ چین سے امریکہ رابطوں کی کوششوں پر خوش نہیں تھے۔ صدر نکسن نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ ان کی اہمیت کسی صورت کم نہ ہو گی لیکن ’وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوں گے اگر وہ چین اور امریکی تصادم‘ کے امکانات کم نہیں کرتے ہیں۔

اکتوبر میں صدر یحییٰ اور صدر نکسن کی اس سلسلے میں ایک اور ملاقات ہوتی ہے جس میں نکسن نے یحییٰ سے چین جانے کے بارے میں ان کا پروگرام دریافت کیا۔ نکسن نے کہا کہ وہ کسی تیسرے ملک کے ذریعے چین کے ساتھ رابطے کا سلسلہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔

رابطوں کا یہ سلسلہ رومانیہ کے صدر نکولائی چاؤشسکو کے ذریعے بھی چل رہا تھا۔ کسنجر نے صدر چاؤشسکو سے ملاقات کی اور انھیں بتایا کہ امریکہ چین کے ساتھ رابطے کا براہ راست سلسلہ قائم کرنا چاہتا اور یہ کہ وہ چین کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا ہے۔ چاؤشسکو نے امریکی پیغام چین پہنچانے کا وعدہ کیا۔

ادھر پاکستان کے سفیر آغا ہلالی نے کسنجر کو دسمبر سنہ 1970 میں بتایا کہ صدر یحییٰ نے صدر نکسن کا پیغام چینی رہنماؤں کو پہنچا دیا ہے۔ ’چو این لائی نے (صدر یحییٰ) کو بتایا کہ امریکہ سے بات چیت کی کوشش پر چیئرمین ماؤ اور وائس چیئرمین لِن بیاؤ حمایت کرتے ہیں۔‘

تاہم چو این لائی نے صدر یحییٰ کو بتایا کہ تائیوان کا سوال چین کے لیے ایک مرکزی معاملہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ چین تائیوان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے سلسلے میں کسی بھی بات چیت کی کوشش کا خیر مقدم کرے گا۔ کسنجر نے چین سے بات چیت کے لیے زبانی پیغام بھیجنے کا کہا۔

ہنری کسنجر نے اشارہ دیا کہ امریکہ چین کے ساتھ تائیوان سمیت دیگر کئی معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ تاہم امریکہ مشرقی ایشیا سے اپنی افواج کشیدگی کم ہونے کے ساتھ ساتھ بتدریج کم کرے گا۔

نکسن کا اعلان

اسی شام صدر نکسن نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امریکہ کی چین کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوششیں جاری رہیں گی۔

’ایک طویل مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے جو بالآخر چین کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے پر منتج ہو گی، ہم کمیونسٹ چین کے ساتھ رابطوں کو قائم کرنے کے لیے تجارتی اور سفری پابندیاں کم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔‘

اسی پس منظر میں سنہ 1971 کے اوائل میں بائیں بازو کے نظریات والے ایک امریکی صحافی ایڈگر سنو چین کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ یہ وہی امریکی صحافی ہیں جو اس سے پہلے چینی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں اور کمیونسٹ چین سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔

آغا ہلالی

آغا ہلالی

چین کا حوصلہ افزا جواب

اسی برس یعنی سنہ 1971 میں اپریل کے مہینے میں پاکستان کے صدر یحییٰ خان چینی وزیرِ اعظم چو این لائی کا پیغام امریکہ بھجواتے ہیں۔ یہ پیغام ہنری کسنجر کو 27 اپریل کو ملا جس میں چینی رہنما نے کہا تھا کہ چینی حکومت مذاکرات کے لیے امریکہ کے نمائندے کا خیر مقدم کرے گی۔

اس کے بعد دونوں ملکوں میں براہ راست رابطوں کی تیاریاں اور اس سے متعلقہ بات چیت زور پکڑ گئی۔ امریکی حکومت تائیوان کے بارے میں چین کو یقین دہانی نہیں کرانا چاہتی تھی لیکن اس کی وجہ سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کو روکنا بھی نہیں چاہتی تھی۔

صدر نکسن نے اپنے مشیر کسنجر کو ہدایت کی کہ وہ چین جانے کی تیاری کریں۔ لیکن انھوں نے کسنجر سے کہا کہ وہ جب چینی رہنماؤں سے بات کریں تو تائیوان کے بارے میں کسی نرمی کا اشارہ مت دیں۔ ’چینیوں کو کہیں بھی احساس مت ہو کہ امریکہ تائیوان کا سودا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

سنہ 1971 میں جون کی 19 تاریخ کو آغا ہلالی نے کسنجر کو پیغام بھیجا کہ انھیں صدر یحییٰ خان نے بتایا ہے کہ بالآخر چین جانے کے انتظامات ہو گئے ہیں اور وہ ہمارے دوست (نکسن) کو ان کے ’فُول پروف‘ ہونے کی یقین دہانی کرا دیں۔‘ اسی پیغام میں کسنجر سے کہا گیا تھا کہ وہ آٹھ جولائی کو پاکستان پہنچ جائیں۔

تاہم ہنری کسنجر نے 21 جون کو آغا ہلالی سے ایک ملاقات کی جس میں انتظامات کی تفصیل کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اس مشن کے خفیہ ہونے کے بارے میں اپنی تسلی کی۔ آغا ہلالی سے انھوں نے اس طیارے کے بارے میں بھی بات کی جس پر انھیں سوار ہو کر چین جانا تھا۔

اگلے دن کسنجر نے پاکستان میں امریکی سفیر جوزف فارلینڈ کو اپنے خفیہ دورے کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ وقت آنے پر امریکی وزیرِ خارجہ کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ کسنجر نے پہلے پاکستان پہنچنے کے دوران اپنے سفر کی تفصیلات دیں اور پھر بتایا کہ وہ آٹھ جولائی کو پاکستان پہنچیں گے، اور بظاہر 10 کو واپس روانہ ہو جائیں گے۔

امریکی نیشنل سکیورٹی کی آرکائیوز کی منظر عام پر لائی جانے والی دستاویزات کے مطابق اسلام آباد کے سفارت خانے سے جون کے آخر میں پیغام آیا کہ انتظامات طے کر لیے گئے ہیں۔ جن کے مطابق کسنجر 11 جولائی کو واپس آ جائیں گے اور پھر وہ یہاں سے پیرس روانہ ہو جائیں گے۔

سفارت خانے کے مراسلے میں خفیہ سفر کی مزید تفصیلات بھی دی گئی تھیں۔ پرنسپل ٹریولر (کسنجر) سیاہ چشمہ اور ایک ہیٹ پہنے ہوئے ہوں گے۔ ’سائیڈ ٹرِپ‘ (چین کے سفر) کے دوران ان کے ہمراہ ’(ونسٹن) لارڈ، ہولڈریج، سمائیر اور دو خفیہ ایجنٹس‘ ہوں گے۔

(ہنری کسنجر کے ایک سٹاف افسر) سانڈرز راولپنڈی ہی میں ٹھہریں گے۔ ایک اور سٹاف افسر ہیلپرین اسلام آباد میں امریکی سفیر فارلینڈ اور ایک تیسرے سیکریٹ ایجنٹ کے ہمراہ ایک پہاڑی مقام (مری) کی جانب روانہ ہو جائیں گے جبکہ سانڈرز ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام کریں گے۔

’پارٹی میں شامل دو لڑکیوں، ڈائیان میتھیوز اور فلورنس گوائر کو علحیدہ علحیدہ سیف ہاؤسز میں رکھا جائے گا۔ پارٹی کے اسلام آباد آنے تک اس کے تمام ارکان کو، سوائے تین سیکریٹ سروس کے ایجنٹوں کے، باقی جو کہ سفارت خانے میں ہوں گے، کو آگاہ رکھا جائے گا۔‘

اس مراسلے میں یہ بھی کہا گیا کہ فارلینڈ کو اس بات کے لیے بھی راضی کیا جائے کہ سفارت خانے کا ڈاکٹر پہاڑی مقام پر ان کے ہمراہ نہ جائے، اور اس کا بہترین ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ ہیلپرین اپنے فیلڈ سٹیشن سے سانڈرز کو فون کریں اور کہیں کہ پرنسپل ٹریولر آرام کر رہے ہیں اور وہ تنہا رہنا چاہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ڈاکٹر کو فون کریں گے۔

دورہ پاکستان

دورہ پاکستان کے دوران صدر نکسن ایک لیمو گاڑی سے اتر رہے ہیں

آغا ہلالی کے صاحبزادے، ظفر ہلالی جو خود بھی سفارت کار رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ جب کسنجر چین کے دورے پر روانہ ہو رہے تھے تو اسی وقت پہاڑی مقام (مری) کی جانب ایک نقلی کسنجر کو روانہ کیا گیا تھا تاکہ یہ تاثر یقینی بنے کہ وہ مری آرام کے لیے جا رہے ہیں، نہ کہ کسی خفیہ مشن پر۔

اس کے علاوہ ایک بوئنگ میں سفری سہولتوں اور حفاظتی انتظامات کا ذکر کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ جب 11 جولائی کو طیارہ چکلالہ ایئر پورٹ پر اترے گا تو اس پارٹی کو گھوم گھما کر گیسٹ ہاؤس لے جایا جائے گا تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ یہ پہاڑی مقام سے آئے ہیں۔

اس کے بعد پرنسپل ٹریولر (کسنجر) صدر سے ملاقات کریں گے اور اس کے بعد وہ ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہو جائیں گے جہاں سے ان کا طیارہ پیرس کے لیے پرواز کر جائے گا۔ سب باتیں منصوبے کے مطابق ہوئیں۔ اور تاریخی دورہ کامیاب رہا۔

چین واپسی کے بعد پیرس سے ہوتے ہوئے کسنجر واشنگٹن ڈی سی پہنچے اور پھر 15 جولائی کو صدر نکسن نے کسنجر کے چین کے خفیہ مشن کے بارے میں ایک بیان جاری کیا۔

ہنری کسنجر نے سنہ 1971 میں چین کا دو مرتبہ دورہ کیا، ایک مرتبہ جولائی میں اور پھر اکتوبر میں۔ چین کی جانب سے کسنجر کے ساتھ مذاکرات میں وزیرِ اعظم چو این لائی نے حصہ لیا۔ بات چیت کے آغاز میں دونوں کے درمیان تائیوان کے معاملے میں اختلاف تھا لیکن کسنجر نے چین کے موقف کو تسلیم کیا۔

اس ملاقات کے نتیجے میں ہنری کسنجر نے ویت نام، مشرقی ایشیا اور جاپان کے بارے میں چین سے اہم معاملات پر بھی کافی کچھ کامیاب مذاکرات کیے۔ اس کے علاوہ چین کے ساتھ سویت یونین کے خلاف ایک متفقہ موقف بھی بنانے کی بنیاد بنائی۔

کسی بھی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا چین کا یہ دورہ پاکستان کی وساطت سے ممکن ہوا تھا اور اس میں صدر نکسن کے کہنے پر پاکستان کے صدر یحییٰ حان نے اہم کردار ادا کیا تھا جنھوں نے چینی رہنماؤں کو اپنے اثر و نفوذ کے ذریعے بات چیت کے لیے قائل کیا، اگرچہ ان حالات میں چینی بھی امریکیوں سے تعلقات کے خواہاں تھے۔

امریکہ اور چین کے تعلقات میں پاکستان کے اس کردار، خفیہ سفارت کاری اور اعتماد سازی کو بہت زیادہ سراہا جاتا ہے۔ اس دورے کے بعد کمیونسٹ بلاک کی ابھرتی ہوئی طاقت تقسیم ہوئی اور کمیونسٹ بلاک آہستہ آہستہ کمزور ہونا شروع ہو گیا۔

پاکستان جس نے اس خفیہ مشن کے انتظامات میں کلیدی کردار ادا کیا اُسے اِس خدمت کے عوض کیا ملا؟ یہ ابھی تک واضح ہونا باقی ہے۔ امریکہ کی اس خفیہ سفارتکاری کے دوران پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائیوں میں مصروف تھی اور اسی دوران انڈیا سویت یونین کی مدد سے پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں میں بھی مصروف تھا۔

اس خفیہ مشن اور اس کی تزویراتی اہمیت کو بین الاقوامی امور کے تمام ماہرین تسلیم کرتے ہیں لیکن اکثر مغربی تجزیہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی وہاں کے شہریوں کے خلاف کارروائیوں پر خاموشی پر نکسن اور کسنجر کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

ظفر ہلالی کے مطابق صدر نکسن کے صدر یحییٰ کے نام شکریہ کے خط میں اُن کے والد آغا ہلالی کا نکسن نے خاص شکریہ ادا کیا تھا۔ ’نکسن نے اتنی زیادہ تعریف کی تھی کہ میرے والد نے اس کے خط میں ترامیم کرائیں اور خط دوبارہ لکھا گیا۔ سوچیے کہ ایک پاکستانی سفیر امریکی صدر کے خط کے مسودے کو درست کرائے۔‘

پاکستانی سفارت کار ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ نکسن کا اظہارِ تشکر کافی نہیں سمجھا جا سکتا ہے جب تک کہ اس بات کا یقین کریں کہ اندرا (گاندھی) مغربی پا کستان کو فتح کرنا چاہتی تھی اور نکسن نے کہا کہ ایسی کسی بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔

بہرحال یہ بات تاریخ میں ہمیشہ متنازع رہے گی کہ امریکہ نے پاکستان کو استمال کرنے کے بعد پاکستانی فوج کے مشرقی پاکستان میں مبینہ جرائم کو نظر انداز کر کے اُسے انعام دیا یا سویت یونین کے حمایت یافتہ انڈیا کو مغربی پاکستان پر قبضہ کرنے سے روکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp