ہو سکتا ہے آپ میرے شوہر سے شادی کرنا چاہیں


وہ ستمبر کی آٹھ تاریخ تھی، سال 2015ء اور مقام تھا شکاگو۔ 49 سالہ ایمی کروس روسنتھل کو پیٹ میں تکلیف محسوس ہوئی۔ جس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ کچھ دیر بعد وہ اپنے شوہر جیسن کے ساتھ ایک ہسپتال کے ایمرجنسی روم میں تھی۔ چند گھنٹوں کے ٹیسٹ کے بعد پتہ چلا کہ جس درد کو وہ اپینڈکس کا درد سمجھ رہے تھے وہ دراصل بچہ دانی کا کینسر تھا۔ یہ خبر محبت سے بھرپور جوڑے کے لیے دلخراش تھی۔ جنہوں نے اب تک شادی شدہ زندگی کے چھبیس سال بہترین رفیق بن کے گزارے۔

اگلی صبح ہسپتال سے نکلتے ہوئے وہ سوچ رہے تھے کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ان کے سب سے چھوٹے بیٹے نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ تینوں بچوں کے گھونسلہ چھوڑنے کی اڑان کے بعد کچھ ان کے خواب بھی بلندیوں میں سفر کے لیے تیار تھے۔ تو کیا وہ سارے خواب ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے؟ ساؤتھ افریقہ ایک ساتھ سیاحت کا منصوبہ، ہارورڈ میں فیلو شپ، موسیقی کے کونسرٹ، ایمی کے کچھ اور کتابیں لکھنے اور فلمیں بنانے کے منصوبے۔” اس میں حیران کیا ہونا کہ کینسر اور کینسل اتنے ملتے جلتے الفاظ کیوں ہیں“۔ ایمی نے اپنے کالم میں لکھا۔ ”وہ دونوں بے یقینی کے عالم میں تھے۔“ شاید یہ رپورٹ غلط ہو۔ انہوں نے خاموشی کی زبان سے اپنے آپ سے کہا ہوگا۔

نیویارک ٹائمز کی مشہور کالمنسٹ ایمی کروسن نے بڑوں ہی کے لیے نہیں بچوں کے لیے بھی 28 کتابیں لکھیں۔ اس کے علاوہ وہاں ایک فلم میکر اور ہر دلعزیز عوامی اسپیکر بھی تھی۔ اپنی بیماری کی تشخیص کے بعد اس نے دو سال اپنی بیماری سے بہادری کے ساتھ جنگ کی اور دنیا سے رخصت ہونے سے محض دس دن قبل اس نے اپنے محبوب شوہر کو ویلنٹائن ڈے پہ ایک ایسا انمول تحفہ اپنے خط کی شکل میں دیا جس نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی۔ یہ ایمی کا آخری کالم ہے جو اس کی موت سے دس دن قبل نیویارک ٹائمز میں چھپا۔ اس کالم کو اب تک پچاس لاکھ سے زیادہ افراد پڑھ چکے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

https://www.nytimes.com/2018/06/15/style/modern-love-my-wife-said-you-may-want-to-marry-me.html

موت کا سامنا کرنا جتنا دنیا سے رخصت ہونے والے کے لیے مشکل ہے اس سے کہیں زیادہ اس کے پیاروں کے لیے ہوتا ہے۔ تمام عمر کے لیے ایک خلا اور اس شخص سے وابستہ یادوں کا کھلا دفتر۔ ایمی اور جیسن کی شادی شدہ زندگی غیر معمولی اور بھرپور رفاقت کے چھبیس خوبصورت سال تھے۔ اور اس محبت کی مسافت کا حاصل تین اولادیں اور زندگی سے بھرپور انگنت لمحات تھے۔ باوجود شدید جسمانی اور جذباتی درد سے گزرنے کے ایمی کی تحریر میں اس کی بھرپور محبت کے ساتھ زندگی، شگفتگی اور رجائی ہے۔

Jason Rosenthal with his late wife Amy Krouse Rosenthal

اس مشہور کالم کا عنوان ہے ”ہو سکتا ہے آپ میرے شوہر سے شادی کرنا چاہیں“ ۔ اس میں ایمی نے اپنی محبت سے بھرپور خوابناک زندگی کے اختتام کرتے ہوئے اپنے شوہر کے ساتھ کسی ممکنہ محبت کے رشتہ کی داغ بیل ڈالنے کی غرض سے جیسن اپنے شوہر، کی شادی کی پروفائل تیار کی ہے۔ جس کی بنیاد جیسن کے ساتھ گزارے وقت 9490 دنوں کے تجربہ پہ رکھی گئی ہے۔ درحقیقت یہ تحریر اس نے جیسن کو موت کے درد سے خوش اسلوبی سے نپٹنے اور زندگی میں آگے بڑھنے اور ایک اور نئی محبت کی داستان کے آغاز کی غرض کے لیے لکھی۔ تو چلئے اس تحریر کے کچھ اقتباسات سے آپ بھی محظوظ ہوں۔

”میں آپ کو اپنے شوہر جیسن روزنتھل سے ملواؤں گی، جس سے بہت بہت آسانی سے محبت میں گرفتار ہوا جاسکتا ہے۔ میں ایک دن ہی میں محبت میں مبتلا ہو گئی تھی۔ میرے ابا کے بہترین دوست انکل جان نے ایک سمر کیمپ کے دوران یہ سوچا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی لیے موزوں ترین جوڑ ہیں (پرفیکٹ میچ) تو انہوں نے ایک بلائنڈ ڈیٹ طے کردی۔ وہ 1989ء کا سال تھا اور ہم صرف 24 سال کے تھے۔ میری قطعی توقع یہ تھی کہ یہ ملاقات کہیں نہیں جانے والی، صفر امید۔ مگر جب اس نے میرے چھوٹے سے گھر میں دستک دی تو میں نے سوچا کوئی تو بات ہے اس شخص میں جو مجھے اچھی لگ رہی ہے۔ اور رات کے کھانے کے بعد ہی مجھے معلوم تھا کہ مجھے اس شخص سے ہی شادی کرنی ہے۔ گو جیسن کو ایک سال بعد پتہ چلا۔“

جیسن کے رشتہ کی پروفائل، جس کی بنیاد ایک گھر میں چھبیس سال ساتھ رہنے کی مدت ہے، ایمی نے لکھا۔ ”پہلے تو بنیادی باتیں۔ اس کا قد پانچ فٹ دس انچ اور ایک سو ساٹھ پونڈز وزن ہے۔ اس کے بال کھچڑی اور آنکھوں کی رنگت ہیزل ہے۔ مندرجہ ذیل فہرست کسی خاص ترتیب میں نہیں ہے کیونکہ ہر بات اہم ہے۔ وہ بہت خوش لباس ہے۔ ہمارا بیٹا جو کچھ میل کے فاصلے پہ ہے اکثر اس کے کپڑے ادھار لے جاتا ہے۔ اور جو اسے جانتے ہیں یا اس کو بغور دیکھا ہے انہیں پتہ ہے کہ اس کے موزوں کا انتخاب بھی بہت اعلیٰ ہے۔ وہ بہت چست ہے اور چاقو چوبند رہنا پسند کرتاہے۔ اگر ہمارا گھر بول سکتا ہو تو وہ بتائے گا کہ جیسن بہت ہینڈی (کاریگر) ہے۔ ایک طویل دن کے بعد جب وہ گھر لوٹتا ہے تو اس کے ہاتھ میں گرو سری کا تھیلا کو نے میں ڈالنا بہت دلچسپ لگتا ہے۔ جس میں زیتون اور مزیدار پنیر ہوتی ہے۔“

”جیسن کو لائیو موسیقی بہت پسند ہے۔ یہ اس کا پسندیدہ شوق ہے۔ جو اسے مل کر کرنا پسند ہے۔ ہماری انیس سالہ بیٹی پیرس کسی اور کے ساتھ جانے کی بجائے اس کے ساتھ جانا پسند کرتی ہے۔ جیسن مصوری کرتا ہے۔ مجھے اس کے فن سے محبت ہے اور اس کو آرٹسٹ ہی سمجھتی ہوں سوائے اس کے کہ اس کی ڈگری قانون کی ہے۔ جو اسے اس کے ڈاؤن ٹاؤن کے آفس میں نو سے پانچ بجے تک مصروف رکھتی ہے۔ اس وقت تک جب تک میں بیمار نہیں پڑی“ ۔

”اگر آپ کسی خواب ناک، تصوراتی اور ہر سمے سفر کے لیے تیار انسان کا ساتھ ڈھونڈ رہے ہیں تو جیسن ایک آئیڈیل ساتھی ہے۔ وہ“ آپ کا آدمی ”ہے۔ جیسن اس قسم کا انسان ہے کہ جب میرے حمل کا پہلا الٹرا ساونڈ ہوا تو وہ پھولوں کے ساتھ آیا۔“

”اور چونکہ وہ بہت سویرے اٹھتا ہے لہٰذا وہ ہر اتوار کی صبح مجھے سرپرائز دیتا ہے۔ عجیب سی مسکراہٹ والے چہرے بنا کر کافی پوٹ کے پاس رکھتا ہے۔ چمچہ، مگ اور ایک کیلا۔“

”میرے خیال میں اب آپ اس کے متعلق بہت کچھ جان چکے ہوں گے لہٰذا۔ لیکن رکیے کیا میں نے بتایا کہ وہ بہت وجیہ ہے؟ میں اس کے چہرے کو دیکھنا پسند کروں گی۔ اگر ایسا لگے کہ وہ ایک شہزادہ ہے اور ہمارے تعلقات پریوں کی کہانی لگے تو یہ اس سے کم بھی نہیں سوائے اس کے کہ کچھ چیزیں جو ہم نے مل کر ڈھائی دہائی میں کیں اور میرا واقعہ کہ مجھے کینسر ہو گیا۔ مجھے جیسن کے ساتھ اور وقت گزارنا ہے۔ مجھے اپنے بچوں کے ساتھ کچھ اور وقت بتانا ہے۔

مجھے کچھ اور وقت چاہیے۔ مگر یہ نہیں ہونے والا ہے۔ میرے پاس اس دھرتی کی باسی کی حیثیت سے شاید کچھ اور دن رہ گئے ہیں۔ تو میں یہ کیوں کر رہی ہوں؟ میں ویلنٹائین کے دن پہ اپنا سب سے خالص، بغیر کسی گلدان کے سجا تحفہ لپیٹ کے دے رہی ہوں۔ اور امید کرتی ہوں کہ اگر کوئی انسان صبح سویرے اسے پڑھے اور جیسن سے ملے تو پھر ایک نئی محبت کی کہانی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ”

”اپنی تحریر کے آخری جملے اور اختتام پہ“ تمام محبتوں کے ساتھ ایمی ”لکھنے سے پہلے اس نے خاصی خالی جگہ چھوڑ دی اس امید کے ساتھ کہ کوئی اور آ کے اس جگہ کو بھر دے۔ یہ خط تیرہ فروری 2017ء کو لکھا گیا اور دس دن بعد تیرہ فروری کو اس کا انتقال ہوگا۔ ایمی کے اس خط نے جہاں اس کو امر کر دیا وہاں جیسن کو اس آدمی کے طور پہ شہرت کی بلندی پہ پہنچا دیا کہ جس نے اپنی عشق کرنے والی بیوی کو کھونے کا دکھ اٹھایا ہے۔ جیسن کے لیے یقیناً یہ المیہ کم نہ تھا۔“ وہ میری پارٹنر تھی۔ ہم دونوں میں بہت سی باتیں مشترک تھیں۔ ایک سا آرٹ، دستاویزی فلمیں، موسیقی اور انسانی قدریں۔ ”

گو پیشہ کے اعتبار سے جیسن قانون دان ہیں، ایمی کی طرح پبلک اسپیکر تھے نہ ادیب۔ لیکن ایمی کی موت کے دکھ نے انہیں TED TALK کی مدد سے اپنے دکھ کا اظہار سکھا دیا اور برملا اپنے دکھ کے اظہار نے خودنوشت کی صورت ایک کتابی شکل My wife said you may want to marry me اختیار کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرد ہوتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار مشکل تھا۔ مرد اپنے غم کو اندر چھپا کر اس سے نمٹتے ہیں۔ گو ہمارے پاس بھی ویسے ہی جذبات ہوتے ہیں جیسے عورتوں کے پاس۔ لیکن ہمیں ان کے اظہار کی مشق نہیں ہوتی۔ جیسن نے کہا میں دکھ سے نپٹنے میں تھرaپی کا وکیل ہو گیا ہوں۔ ”ہم سب کو کھونے کے خوفناک اور تباہ کن تجربہ سے گزرنا ہے۔ اور ہم میں اہلیت ہے کہ اس احساس زیاں کے ساتھ چل سکیں، زندگی میں معنی ڈھونڈ سکیں اور واقعی کچھ مثبت چیزیں کر سکیں۔“

یقیناً ان کی اس سوچ میں ایمی کی محبت کا اہم کردار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).