نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟


تا دم تحریر نواز شریف نے اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم سے ایک ہی تقریر کی ہے۔ لیکن اس ایک تقریر سے بہت کچھ بدل گیا۔ سوچ بدل گئی، سماج بدل گیا، یہ ملک بدل گیا۔ اس ایک تقریر سے یہ بیانیہ دم توڑ گیا ہے کہ نواز شریف کسی ڈیل کے متلاشی ہیں، این آر او مانگ رہے ہیں۔ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان بچا رہے ہیں۔ مصلحت پسند ہو کر خاموشی اختیار کر گئے ہیں۔ ایک تقریر نے یہ سب الزامات دھو دیے ہیں۔ اب نواز شریف کو چاہے جو بھی کہیں مگر کوئی بھی یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ نواز شریف کسی رعایت کے طلب گار ہیں اور بند دروازوں کے پیچھے کسی خفیہ ڈیل کے چکر میں ہیں۔

آج تک ہم سنتے آئیں ہیں کہ پنجاب نے ہمیشہ طاقتوروں کے سامنے سر خم کیا۔ کسی لیڈر نے ہمت نہیں دکھائی، کسی نے جرات کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کوئی جابر سلطان کے سامنے حق بات نہ کہہ سکا۔ ہر ایک پنجابی حکمران نے غیر جمہوری قوتوں کی مدد سے اس ملک پر حکمرانی کی۔ ہمیشہ پنجابیوں کی ”کنڈ“ لگوائی۔ لیکن اب یہ بات ختم ہو گئی ہے۔ نواز شریف نے جو کچھ ایک تقریر میں کہہ دیا، وہ کہنے کی کسی کو جرات نہیں رہی۔ غیر جمہوری قوتوں کی سب بات کرتے ہیں، مگر کوئی بھی آج تک اس طرح ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں چیلنج نہیں کر سکا۔ پنجابیوں کے چہرے سے دہائیوں کی بد نامی کا یہ داغ نواز شریف نے ایک ہی تقریر میں دھو دیا۔

تقریریں تو بہت سی ہوتی ہیں لیکن اس ایک تقریر کے بعد اب وہ بات جو لوگ ادھر ادھر دیکھ سن کر کہتے تھے، اب اظہار برملا کرنے لگے ہیں۔ یہ بات اب صرف سیاسی مبصرین یا دانشوروں کی بحث نہیں رہی۔ اس کا ذکر گلی کوچوں میں ہو رہا ہے۔ بنیادی تبدیلی ہمیشہ عوام سے اٹھتی ہے۔ یہ بیانیہ اب عام لوگوں تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔ اس بیانیے کی پذیرائی صرف پنجاب میں ہی نہیں رہی اس کا اثر اب تمام پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اگر میری بات کا یقین درکار ہو تو گوجرانوالہ میں نواز شریف کی تقریر کے بعد عوام کا رد عمل دیکھیں۔ اگر اس بات کی مزید تصدیق درکار ہو تو کراچی میں مریم نواز کے سٹیج پر آنے بعد عوام کا جذبہ دیکھیں۔

اب دو قوتیں آمنے سامنے آ گئی ہیں۔ اب عمران خان نہ کسی کا ہدف ہیں، نا کوئی ان کو موضوع بنا رہا ہے۔ اس جمہوری سیٹ اپ کی قلعی کھل گئی ہے۔ اب آئی جی اغوا ہو رہے ہیں اور نا کوئی وزیر اعلی سے مشورہ کر رہا ہے نہ پارٹی قیادت کو اس کی خبر ہوتی ہے۔ معاملات اس سے ماورا ہی طے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ ختم ہو رہا ہے۔ عوامی اداروں کی بے توقیری اپنے عروج پر ہو تو سندھ پولیس جیسے جری احتجاج سامنے آتے ہیں۔

ایسے احتجاج جس میں لوگ نہ مصلحت کا شکار ہوتے ہیں، نہ نوکری کی پروا کرتے ہیں نہ اے سی آر کی انہیں فکر ہوتی ہے، نہ کسی جابر کا خوف ہوتا ہے۔ ایک صوبائی محکمے کے لوگ مشترکہ فیصلہ کرتے ہیں اور باطل سے ٹکرا جاتے ہیں۔ خود سوچیے اس سے پہلے کتنے ہی سرکاری ملازمین کی تضحیک اور توہین ہو چکی، مگر سندھ پولیس جیسا جری قدم کسی محکمے نے نہیں اٹھایا۔ اب ان محکموں کی تذلیل کرنے والے کوئی بھی قدم کو اٹھانے سے پہلے سوچیں گے تو سہی کہ کیا خبر کل کو سول سرونٹس ہڑتال کر دیں، میڈیا چینل بند کر دے، استاد تعلیم دینے سے انکار کر دیں۔ کوئی سفارت خانہ ہی احکامات ماننے سے انکار کر دے۔ یہ سب آگہی کے مرحلے ہیں اور اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس ملک کے عوام کو یہ آگہی نواز شریف کی ایک تقریر سے حاصل ہوئی ہے۔

اب بھی بہت سے سوال تشنہ ہیں۔ ایک صوبے کے ایک محکمے کے رد عمل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب معاملات ٹھیک ہو گئے ہیں۔ اب جمہوریت کا بول بالا ہو گیا ہے۔ اب غیر جمہوری ادارے تھک ہار کے بیٹھ گئے ہیں۔ اب پارلیمان کی عزت ہو گئی ہے۔ اب ووٹ کو عزت ملنے لگی۔ یا پھر اب عوام کی توقیر ہونے لگی۔ ابھی بھی بہت سے مرحلے باقی ہیں۔ بہت کچھ ہونا ہے لیکن بہت کچھ ہونے کا آغاز ضرور ہو چکا ہے۔ اصل تبدیلی ذہنوں میں آ چکی ہے۔ اندھیرا گھٹ رہا ہے، خوف کے بادل چھٹ رہے ہیں۔ امید کا دامن وسیع ہو رہا ہے۔ نئے نئے امکانات سامنے آ رہے ہیں۔

لوگ بہت معصوم ہوتے ہیں۔ کٹھن سوالات کے سہل جواب مانگتے ہیں۔ وہ بار بار پوچھتے ہیں کہ اس نا اہل اور نا کام حکومت سے کب تک نجات مل جائے گی؟ کیا اس دفعہ بھی تبدیلی کا پیش خیمہ بلوچستان کی اسمبلی ثابت ہو گی؟ کیا حکومت کی بساط سینیٹ ایکشن سے پہلے لپٹ جائے گی؟ نئی حکومت کس کی آئے گی؟ کیا پی ڈی ایم کا اتحاد قائم رہے گا؟ نواز شریف چوتھی دفعہ وزیر اعظم بنیں گے؟ کس پارٹی کو کتنا حصہ ملے گا؟ اس دور میں کرپشن کرنے والوں پر نیب اسی طرح گرفتاریاں ڈالے گی؟

کیا اس دور میں لوٹی رقم واپس وطن کے خزانے میں آئے گی؟ کیا وزیر اعظم اسمبلی توڑ دیں گے؟ کیا اسمبلی میں ”اندر“ سے کوئی تبدیلی آئے گی؟ پی ٹی آئی میں کوئی فارورڈ بلاک بنے گا؟ عمران خان کی جگہ پی ٹی آئی کس کو پارٹی کی قیادت سونپے گی؟ کیا اس دفعہ بھی تبدیلی درون خانہ قوتوں کی مدد سے آئے گی یا عوام کا بھی اس میں کوئی عمل دخل ہو گا؟ کیا ایک ہم ایک چنگل سے نکل کر کسی دوسرے جال میں تو نہیں پھنس جائیں گے؟ کیا میڈیا کے زبان سے تالے ہٹائے جائیں گے؟ کیا نفرت کی سیاست ختم ہو گی؟ کیا نیب کے قانون میں تبدیلی ہو گی؟ نئے الیکشن کب ہوں گے؟ کیا اس دفعہ بھی جھرلو پھر جائے گا یا انتخابات منصفانہ ہوں گے؟

میرے پاس لوگوں کے ان تمام سوالات کے جواب نہیں، لیکن قیافے اور اندازے کی بنا پر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ان سب سوالات کے جوابات کا انحصار نواز شریف کی دوسری تقریر پر ہو گا۔ میں نہیں جانتا کہ اس تقریر میں کیا ہو گا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ دوسری تقریر کے بعد ہمارا موضوع بحث وہ نہیں ہو گا، جو آج کل ہے۔ بات اس سے کہیں آگے چلی گئی ہو گی۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar