ملک آفات میں گھرا ہے اور وزیر اعظم کی ہنسی نہیں رک رہی!


وزیر اعظم عمران خان کے اے آر وائی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو سے موجودہ حکومتی انتظام کا بدنما چہرہ اور ناکامی و کمزوری پوری طرح عیاں ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ اس انٹرویو میں پتہ چلا کہ ملک پر ایک ایسا شخص وزیر اعظم بن کر حکومت کر رہا ہے جو اپنے سوا کسی کو حکمرانی کا اہل ہی نہیں سمجھتا۔ عمران خان کا یہ دعویٰ کہ اگر وہ اقتدار میں نہ رہے تو سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں گے، جمہوریت اور پاکستانی قوم کی توہین کے مترادف ہے۔

ملک پر ایک ایسا وزیر اعظم حکومت کر رہا ہے جو خوابوں کی دنیا میں رہتا ہے اور زمینی حقائق سے پوری طرح نابلد ہونے کا واشگاف الفاظ میں اعلان کر رہا ہے۔ اے آر وائی کے اینکرز کو دو گھنٹے کے اس طویل انٹرویو میں عمران خان نے کسی دوسرے کو نہیں خود کو بے نقاب کیا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی قیادت سے کوئی امید کی جا سکتی تھی تو وہ اس انٹرویو کے بعد وہ دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان نہ صرف جمہوریت اور آزادی اظہار کے معنی سمجھنے سے قاصر ہیں بلکہ اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ ان ہی کی بات کو درست تسلیم کیا جائے۔ انہیں جو عناصر بھی جس مقصد سے بھی اقتدار تک پہنچانے کا سبب بنے ہیں، انہیں بجا طور سے اپنے انتخاب پر شرمندہ ہونا چاہیے۔

ایک طرف عمران خان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ این آر او کے علاوہ ہر معاملہ پر بات چیت کے لئے تیار ہیں لیکن گزشتہ ماہ کے دوران آرمی چیف کو محض اس لئے اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ ملاقات کرنا پڑی کیوں کہ وزیر اعظم گلگت بلتستان کے اہم سوال پر پارلیمانی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے اپنا آئینی کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس سے پہلے اہم عہدوں پر تقرریوں کے لئے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت اور ملاقات سے انکار بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ صرف اپنی باتیں سنانے کے لئے پارلیمنٹ میں تشریف لاتے ہیں لیکن اگر اس موقع پر اپوزیشن کی طرف سے سوال اٹھائے جائیں یا احتجاج کیا جائے تو اسے جمہوریت کا حصہ نہیں بلکہ ’این آر او لینے کی صدا‘ قرار دیتے ہیں۔

ملک میں آمرانہ ادوار سے بھی زیادہ گھٹن کا ماحول ہے لیکن وزیر اعظم سرکار نواز چینل کے جانبدار صحافیوں کے منہ سے اپنی تعریفیں سن کر میڈیا کی آزادی کو جمہوریت کی بنیاد بتا رہے تھے۔ ان کے خیال میں انہیں میڈیا سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اسی سانس میں ’فیک نیوز‘ کو سب سے بڑا مسئلہ بتا کر اپنی حکومت کی سخت گیر میڈیا پالیسی، سنسر شپ اور جابرانہ ہتھکنڈوں کو قومی مفاد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

عمران خان اگر واقعی میڈیا کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں تو پیمرا کے ذریعے ٹی وی چینلز اور وزارت اطلاعات کے ذریعے اخبارات کو کنٹرول کرنے کا سلسلہ کیوں بند نہیں کرتے۔ کیا وجہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں ایک کے بعد دوسرا صحافی محض ایسی رپورٹنگ کی وجہ سے اٹھا لیا جاتا ہے جو حکومت وقت کو پسند نہیں ہوتی۔ کسی صحافی کو اغوا کرنے یا غیر قانونی طور سے ہراساں کرنے پر حکومت پریشان کیوں نہیں ہوتی؟ وزیر اعظم اس سے انکار اور ان کے معاونین ایسے واقعات کی وضاحتیں پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کوئی صحافی کسی قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا حساب لینے کے لئے ”پراسرار کردار“ لوگ ہی کیوں سرگرم ہوتے ہیں، ملک کا نظام عدل کیوں حرکت میں نہیں آتا؟ کیا اس کی سادہ سی وجہ یہ نہیں کہ عمران خان کی حکومت کسی قانون اور کسی عدالت کو نہیں مانتی۔ انہیں اپنی مرضی کے فیصلے دینے والی عدالت، خوشامدانہ سوال کرنے والا صحافی اور ہاں میں ہاں ملانے والا ساتھی درکار ہے۔

عمران خان کی گفتگو اور ان کی باڈی لینگوئج موجودہ سیاسی حالات میں ان کی شدید پریشانی اور بدحواسی کی چغلی کھاتی ہے لیکن وہ یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ انہیں ایک ذمہ دار سیاسی لیڈر کے طور پر ملک کی اپوزیشن کو بات چیت کی دعوت دینی چاہیے۔ انہیں ماننا چاہیے کہ ان کی حکومت معیشت کو درست کرنے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے منصوبہ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اس کی بجائے وہ اپوزیشن لیڈروں کو کسی ثبوت کے بغیر ’دشمن کا ایجنٹ‘ قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو وہ عوام کو سڑکوں پر نکالیں گے اور کسی دوسری حکومت کو کام نہیں کرنے دیں گے۔ کیوں کہ ان کا دعویٰ ہے کہ ’چوروں کو واپس نہیں آنے دینا، اگر واپس آئیں گے تو ساری قوم کو سڑکوں پر نکالوں گا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ یا یہ بچیں گے یا پھر پاکستان بچے گا۔ اس لیے ان سے بات چیت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘ ۔

اس نام نہاد انتباہ کے دو پہلو قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان صرف اس جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں جو محض انہیں اقتدار سونپنے کے کام آ سکے۔ اسی لئے وہ کسی سیاسی تبدیلی کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے پیش بندی کے طور پر آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر وہ اقتدار سے محروم ہوئے تو اپنے تمام سیاسی مخالفین کو ’چور‘ قرار دے کر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیں گے۔ عمران خان کو بتانا چاہیے کہ ملک کی منتخب حکومت کو کون تبدیل کر سکتا ہے اور وہ یہ دھمکی کسے دے رہے ہیں؟ کیا ان کے مخاطب وہی عناصر ہیں جن کے کاندھوں پر سوار ہو کر عمران خان وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئے تھے اور اب اپنی پے در پے ناکامیوں سے پیدا ہونے والی صورت حال میں انہی طاقتوں کو دھمکانے پر اتر آئے ہیں۔ تاکہ اسٹبلشمنٹ اپوزیشن کے ساتھ کسی قسم کا سیاسی سمجھوتہ کرنے پر آمادہ نہ ہو جائے جو ملک میں سکون بحال کرسکے۔ اور موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کو تبدیل کر کے عوام کو ریلیف دینے کا اہتمام ہو سکے۔

اس کا دوسرا پہلو عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر انتخاب ہوا تو وہ دوبارہ اس سے بھی بڑی اکثریت سے کامیاب ہو کر حکومت بنائیں گے۔ اگر انہیں اپنے اس دعوے پر یقین ہے تو وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کی دھمکی کس بنیاد پر اور کسے دے رہے ہیں۔ عمران خان کے ساتھی ملک میں جاری مباحث کے تناظر میں متعدد بار یہ اشارے دے چکے ہیں کہ اگر وزیر اعظم نے اپنے اقتدار کو خطرہ محسوس کیا تو وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ اسمبلیاں توڑنے کے بعد کسی بھی وزیر اعظم کو دوبارہ انتخابات کروانے پڑتے ہیں۔ اپوزیشن بھی دوبارہ انتخابات کا مطالبہ ہی کر رہی ہے۔ پھر یہ مطالبہ عمران خان کو بدحواس کیوں کر رہا ہے؟ حکمران پارٹی کے نمائندے موجودہ احتجاج کے حوالے سے اپوزیشن کا تمسخر اڑاتے ہوئے یہ سوال کرچکے ہیں کہ اگر انہیں موجودہ اسمبلیاں دھاندلی زدہ لگتی ہیں تو وہ ان سے استعفیٰ کیوں نہیں دیتے۔ عمران خان بھی جواب دیں کہ اگر انہیں انتخابات میں پہلے سے بھی زیادہ بڑی کامیابی کا یقین ہے تو وہ نئے انتخابات کا اعلان کیوں نہیں کرتے۔ کون سا خوف ان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ دو سال میں ان کی حکومت نے جو کارکردگی پیش کی ہے، اس کے بعد وہ عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔

وزیر اعظم کی سادہ لوحی یا خود پسندی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی حکومت کی کسی غلطی کو ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ گیس کی قیمتیں اس لئے زیادہ ہیں کیوں کہ سابقہ حکومتوں نے کمیشن کھا کر ایسے معاہدے کرلئے تھے کہ اب پاکستان کو صرف مہنگی گیس ہی ملتی ہے۔ گندم کی مہنگائی اور نایابی کی وجہ خراب موسم اور پیداوار میں کمی ہے۔ دالیں اور تیل، عالمی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے مہنگے ہو گئے ہیں، حکومت اس میں کیا کر سکتی ہے۔ چینی نایاب ہونے کی وجہ کارٹل اور مافیا ہیں۔ ان تمام مسائل میں اگر حکومت کا کوئی کردار ہی نہیں تو اس ملک کو عمران خان جیسے ہونہار لیڈر کی قیادت کیوں درکار ہے؟

اپوزیشن کو عدلیہ اور فوج پر دباؤ ڈالنے کا الزام دیتے ہوئے عمران خان یہ بھول رہے ہیں کہ ملک کی کسی بھی نئی قیادت کو پیش از وقت چور قرار دے کر احتجاج جاری رکھنے کی بات کہہ کر وہ خود اسی جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ملک کے مسلمہ آئینی طریقہ کار کے خلاف بات کرتے ہوئے کوئی دوسرا نہیں، ملک کا وزیر اعظم دشمنوں کے عزائم پورا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھی گھبرا جاتے ہیں لیکن میں انہیں بتاتا ہوں کہ احتجاج سے گھبرانا نہیں ہے، یہ تو جمہوریت کا حسن ہے۔ لیکن احتجاج کرنے والوں کے خلاف نیب کے علاوہ اپنے تصرف میں سارے اداروں کو استعمال کرنے کی دھمکیاں دے کر وہ خود اپنے اس جھوٹے دعوے کا پول کھولتے ہیں۔ عمران خان کو اگر جمہوریت پر یقین ہوتا، اگر وہ اپوزیشن کے ساتھ مواصلت کو جمہوریت کا حصہ سمجھتے اور اگر ان میں بات سننے یا مشورہ ماننے کا حوصلہ ہوتا تو ملک موجودہ ابتر حالت کو نہ پہنچتا۔ اپنی تمام غلطیوں کا ذمہ دار کسی دوسرے کو سمجھنے والا لیڈر بنیادی جمہوری خصوصیت سے محروم ہوتا ہے۔ غلطی کا ادراک کیے بغیر اصلاح کا راستہ تلاش نہیں ہو سکتا ۔ یہی عمران خان کا مسئلہ ہے اور وہ خود اپنے مزاج اور عاقبت نا اندیشانہ سوچ کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں۔

ایک صوبے کی حکومت الزام لگاتی ہے کہ ایک ایف آئی آر درج کروانے کے لئے صوبے کے پولیس سربراہ کو اغوا کیا گیا تھا اور آرمی چیف اس کا فوری نوٹس لیتے ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم کہتا ہے کہ اسے یہ بات سن کر ہنسی آتی ہے۔ ایسے ہنسوڑ شخص کے لئے وزیر اعظم ہاؤس مناسب ٹھکانہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali