اوبرنومکس: وہ امریکی پروفیسر جنھوں نے اوبر کو ’معافی مانگنا‘ سکھایا


ایک پروفیسر کی اوبر جب انھیں غلط منزل پر لے گئی تو انھوں نے کمپنی میں کافی اوپر تک اپنی شکایت پہنچائی جس سے انھوں نے ’معافی مانگنے کی سائنس‘ کے بارے میں اہم باتیں سیکھ لیں۔

جنوری 2017 میں جان لسٹ کو ماہرین معاشیات کے ایک اجتماع میں اہم تقریر کرنا تھی۔ انھوں نے اپنا فون اٹھایا اور اوبر ایپ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے گھر سے 30 منٹ کا سفر طے کرنے کے لیے ایک آن لائن ٹیکسی بُک کی۔

سفر کے دوران انھوں نے تھوڑی دیر بعد نظر اٹھا کر دیکھا جب گاڑی مشیگن جھیل کے کنارے رواں تھی اور آسمان میں بلند اور خوبصورت عمارتوں کے ساتھ قریب آتے ہوئے شہر کا نظارہ تھا۔ پھر وہ اپنی تقریر کی تیاری میں مصروف ہو گئے۔

تقریباً 20 منٹ بعد انھوں نے یہ سوچتے ہوئے نظر اٹھا کر دیکھا کہ یقیناً وہ اب اپنی منزل کے قریب ہی ہوں گے لیکن انکے منھ سے اچانک نکلا ’او نو‘۔

وہ واپس اسی مقام پر تھے جہاں سے انھوں نے سفر شروع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اووبر اور کریم کے ملاپ سے پاکستانی صارف پریشان

پے پیل کو پاکستان لانے کا طریقہ یہ ہے

لاہور کے رکشے بھی سمارٹ ہو گئے

غالباً اوبر ایپ میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی تھی جس نے ڈرائیور کو پروفیسر کے گھر واپس جانے کی ہدایت کی تھی۔ ڈرائیور انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی کیوںکہ وہ اپنے کام میں بہت زیادہ مشغول تھے۔

لِسٹ بہت مشتعل ہوئے لیکن انھیں اس بات پر زیادہ غصہ تھا کہ اوبر نے ان سے معذرت تک نہیں کی تھی۔

ہر شخص جس کو اوبر سے شکایت ہے، اسے اوبر کے چیف ایگزیکٹو تک رسائی نہیں ہوتی لیکن جان لسٹ نے ایسا ہی کیا۔ اسی شام انھوں نے ٹریوس کلانک کو فون کیا۔

لسٹ کی کہانی سننے کے بعد ٹریوس کلانک نے کہا ’میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جب اس طرح کی غلطی ہو تو اوبر کو اپنے وفادار صارفین کو منانے کے لیے کس طرح معافی مانگنی چاہیے۔

صارف سے معافی کیسے مانگی جائے یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر کمپنی جاننا چاہتی ہے اور جان لسٹ کے لیے ایک انوکھی صورتِ حال تھی۔

جان لسٹ کے پس منظر کے بہت سے لوگ معروف ماہر تعلیم نہیں بن پاتے۔ انھوں نے وسکانسن کے دارالحکومت میڈیسن کے شمال مشرق میں ایک ورکنگ کلاس فیملی میں پرورش پائی۔

ان کے والد ایک لاری ڈرائیور تھے اور توقع کرتے تھے کہ ان کا بیٹا خاندانی کاروبار سنبھالے گا لیکن جان کچھ اور ہی سوچتے تھے۔ ان کا خواب ایک پیشہ ور گالفر بننا تھا اور انھوں نے کالج میں گولف سکالرشپ حاصل کی تھی۔

وہاں جان نے دو چیزیں دریافت کیں۔ پہلا یہ کہ وہ گالف میں اتنے اچھے نہیں تھے جتنا انھوں نے کبھی سوچا تھا اور دوسرا وہ معاشیات کی جانب راغب ہو رہے تھے۔

اب وہ امریکہ کی ایک اعلیٰ درسگاہ شکاگو یونیورسٹی میں معاشیات کی فیکلٹی کا حصہ ہیں۔ لیکن کچھ سالوں سے وہ دوسرا کام کر رہے ہیں کیونکہ اوبر نے انھیں کمپنی کا چیف ماہر معاشیات بننے کی آفر کی تھی اور اوبر سے نکلنے کے بعد وہ کاروں کی ایک اور ایپ لفٹ میں شامل ہو گئے جہاں وہ اسی عہدے پر فائز ہیں۔

وہ شخص جس نے اوبر کو ’معافی مانگنا‘ سکھایا

اوبر کے سابق چیف ایگزیکٹو ٹریوس کلانک کو مستعفی ہونے کے وقت کئی لوگوں سے معافی مانگنا پڑی تھی

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نوکری میں تنخواہ میں بڑی رقم ملتی ہے لیکن جان لسٹ کے لیے یہ ایک الگ ہی دنیا تھی۔

کمپیوٹر ماہرین کے لیے کار ایپ سونے کی کانوں کی طرح ہیں۔ صرف امریکہ میں ہی کورونا سے پہلے 20 لاکھ اوبر ڈرائیور موجود تھے جو ہر ہفتے لاکھوں رائڈز پر جاتے تھے۔

جان لسٹ نے اپنا کیریئر حقیقی زندگی میں معاشی طرز عمل کے تجزیہ میں صرف کیا لہذا اوبر کے ساتھ کام کرنا ‘ایک خواب پورا ہونے کی مانند تھا۔‘

معلومات کے اس انبار سے وہ ہر طرح کے صارفین کی ترجیحات کا تجزیہ کرسکتے تھے، جیسے لوگ کس طرح کی کاروں کو پسند کرتے ہیں، عام طور پر وہ کتنی دور سفر کرتے ہیں، اور کس اوقات میں۔

انھوں نے کرایوں کی قیمتوں میں ہونے والی تبدیلی پر ردعمل کا تجزیہ کیا اور یہ کہ معافی مانگنے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے، اس کا جواب ڈھونڈنے کی بھی کوشش کی ہے۔

انھوں نے سب سے پہلے یہ دیکھا کہ جب اوبر پر صارفین کا تجربہ بُرا ہوتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ مثال کے طور پر جس سفر کے لیے ایپ پیش گوئی کر سکتی ہے کہ سفر میں نو منٹ لگیں گے لیکن درحقیقت اس میں 23 منٹ لگ جاتے ہیں۔

انھوں نے دریافت کیا کہ وہ صارف جس کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ مستقبل میں اوبر پر 10 فیصد کم خرچ کرے گا۔ اس سے کار ایپ کی کمائی میں نمایاں کمی آئے گی۔

اگلے اقدام میں انھوں نے معذرت یا معافی کے کئی طریقے ایجاد کیے اور ان لوگوں پر یہ طریقے آزمائے جن کو سفر کے دوران بُرا تجربہ ہوا۔

ان کے تجربوں سے یہ پتا چلا کہ معذرت کرنا ایک قسم کی سائنس ہے۔

سماجی سائنسدان اور خاص طور پر ماہر نفسیات نے مطالعہ کیا ہے کہ کس طرح کی معذرت زیادہ اثر کرتی ہے۔ لیکن جان لسٹ کو تجربہ تھا وہ درحقیقت ان اثرات کا اندازہ لگا سکتے تھے۔

انھوں نے ایک قسم کی معذرت یا معافی کو ‘بنیادی معافی’ کہا۔ مثلاً ہم نے دیکھا کہ آپ کے سفر نے ہماری پیش گوئی سے زیادہ وقت لیا اور ہم خلوص دل سے معذرت خواہ ہیں۔

’مزید نفیس معافی میں یہ تسلیم کرنا شامل ہے کہ کمپنی سے غلطی ہوئی۔ معافی کی ایک اور قسم میں ایک عزم شامل ہے کہ ‘ہم یہ یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ ایسا دوبارہ نہیں ہو گا۔‘

اوبر کی جانب سے جان لسٹ نے ان سب کو آزمایہ۔ مزید یہ کہ ان میں سے کچھ معذرت کے ساتھ اوبر نے اگلے سفر میں پانچ پاؤنڈ کی چھوٹ کی پیش کش کی۔ تجربے میں اوبر کے صارفین کا ایک ایسا گروہ بھی شامل تھا جس سے معافی نہیں مانگی گئی۔

نتیجہ حیرت انگیز تھا۔ کسی بھی طرح کی معذرت غیر موثر ثابت ہوئی۔ لیکن پانچ پاؤنڈ کے کوپن کے ساتھ معذرت نے بہت سارے لوگوں کو وفادار رکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس طرح ہم صارفین سے معافی اور ایک کوپن کی مدد سے لاکھوں ڈالر واپس لیتے ہیں۔‘

اس سے پتا چلتا ہے کہ صارفین کیا چاہتے ہیں کہ کمپنی پچھتاوے کے ساتھ مالی نقصان برداشت کرے۔ لیکن اعداد و شمار کو توجہ سے دیکھنے کے بعد لِسٹ نے محسوس کیا کہ اگر صارف کا دوسرا یا تیسرا سفر خراب ہوتا ہے تو یہ طریقہ کام نہیں کرتا۔ اور اس طرح صارف کمپنی کے وفادار نہیں رہیں گے۔

اوبر

ان کے مطابق مرد ڈرائیورز کو خواتین کے مقابلے کم ٹپ ملتی ہے

بہت سے معاشی ماہرین اپنی میز پر بیٹھ کر اپنے ماڈل کی بنیاد پر معاشی سرگرمیوں کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ ماہر معیشت کے طور پر جان لسٹ تھوڑا الگ اس لیے ہیں کیونکہ وہ اپنے نظریے کو حقیقی دنیا میں آزمانہ پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے تنزانیہ، نیوزی لینڈ اور چین سے لے کر بنگلہ دیش تک تجربات کیے ہیں۔

اوبر اور کار کی دیگر ایپس کے وسیع ڈیجیٹل اعداد و شمار نے انھیں اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ انسانی طرز عمل میں کچھ ایسی رویوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں جن کا انکشاف اپنے دفتروں میں بیٹھے ماہرین اقتصادیات نے نہیں کیا ہوگا۔

مثال کے طور پر جب آپ اوبر بُک کرواتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کا ڈرائیور مرد ہوگا یا خاتون۔ لہذا آپ توقع کرتے ہیں کہ مرد اور خواتین ڈرائیور کی ایک ہی کمائی ہوگی۔ لیکن درحقیقت مرد ڈرائیور خواتین ڈرائیورز کے مقابلے میں فی گھنٹہ سات فیصد زیادہ کماتے ہیں۔ اس امتیازی رویے پر حیران لسٹ نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس سے کئی وضاحتیں بے نقاب ہوئیں۔ ایک یہ کہ خواتین بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریوں کی زیادہ حامل ہوتی ہیں لہذا منافع بخش اوقات میں صبح کے وقت اور دوپہر کے مصروف وقت کم ہی دستیاب ہوتی ہیں لیکن اب تک کی سب سے اہم وجہ رفتار ہے۔ اوبر ڈرائیونگ کرنے والے مرد خواتین کے مقابلے اوسطاً 2.5 کی تیز رفتار سے ڈرائیونگ کرتے ہیں، اس لیے وہ فی گھنٹہ زیادہ کماتے ہیں۔

یہ صرف جنس کا فرق نہیں ہے۔ لسٹ نے اوبر بورڈ کو راضی کیا کہ ٹپ فنکشن کو شامل کیا جائِے۔ اس کے بعد انھوں نے ٹپ دینے کے رویے کا جائزہ لیا۔

خواتین ڈرائیورز کو مردوں کے مقابلے زیادہ ٹپ ملتی تھی، سوائے اس کے کہ جب وہ خواتین ڈرائیور 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کی ہوں۔ لسٹ کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ہم اسے مردانہ کم ظرفی کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

کار ایپ کے اعداد و شمار کے ذریعے معاشی سلوک کے مطالعے کو ’اوبر نومِکس‘ کہا گیا ہے۔ اوبرنومکس میں ہونے والی کچھ دریافتیں حیرت انگیز نہیں ہیں۔

مثلاً صارفین قیمت کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔ قیمت جتنی کم ہو گی ٹیکسی کی بُکنگ کے امکان اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ لیکن ہم کار ایپس کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اس کے تجزبات سے انسانی معاشی سلوک کے کچھ تعصبات اور خاص انداز ظاہر ہو رہے ہیں۔

جان لسٹ کا کہنا ہے کہ ویسے اگر آپ کبھی بھی اوبر ڈرائیور بننے کا فیصلہ کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ صارف کے ساتھ اچھا سلوک آپ کی آمدنی پر خاص اثر ڈالے گا تو بُری خبر یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ جب صارف ایک ڈرائیور کو اس کے اچھے رویے کے لیے دوسروں کے مقابلے 10 فیصد زیادہ ریٹنگ (درجہ) دیتے ہے تب بھی دونوں کو ٹپ ایک جیسی ہی دی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp